موجودہ سماج میں وہ سب کچھ خوب میسر ہے جس کے ذریعہ ہماری نئی نسل کے دین و اخلاق، ذہن و فکر اور عمل کو بگاڑا جاسکے اور اس بات کے لیے ماحول ساز گار نہیں کہ ہم اپنی نسل کو صالح افکار اور اچھے اخلاق وکردار کی تربیت دے سکیں۔ تو پھر کیا ہم اپنی نسلوں کو فکری فساد اور معاشرتی بگاڑ کی آگ میں جھونک کر ہاتھ جھاڑ لیں کہ ان حالات میں ان کی صالح تربیت ممکن نہیں یا اور کچھ آگے بڑھ کر ان کے لیے اچھی تربیت کے مواقع فراہم کریں۔
آپ چودہ سو سال پہلے اس عرب معاشرہ کی طرف جائیے جہاں اسلام کی ابتدا ہوئی تھی اور دیکھئے کہ اس وقت کا ماحول کیا اس قدر ساز گار تھا کہ ان کی نسل کے بچے علی، سمیہ، فاطمہ اور عائشہ بن جائیں۔ نہیں۔ دشواریاں اور مشکلات اس وقت بھی تھیں مگر اس دور کی ماؤں کے ذہن و فکر میں اسلام اور اس کی فکر اس قدر رچ بس گئی تھی کہ وہ زندگی کے کسی بھی گوشے میں اس فکر سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں ہوسکتی تھیں۔ چیلنج اور مشکلات اس وقت کے معاشرہ کے سامنے بھی تھے اور آج ہمارے سامنے بھی ہیں۔ انھوں نے بھی بے شمار مشکلات اور پریشانیاں اٹھا کر اپنی نئی نسلوں کی تربیت کی اور ہمیں بھی سیکڑوں دشواریوں کو جھیل کر ایک ایسی صالح نسل تیار کرنی ہے جو امت مسلمہ کو صالح قیادت فراہم کرسکے۔
ان تمام حالات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ صالح مائیں ہی صالح نسل تیار کرسکتی ہیں۔ خود صالح اور نیک بنے بغیر نیک اور صالح تربیت کا تصور محض ایک تصور ہوگا جس کی عملی تعبیر کبھی سامنے نہیں آسکتی۔ اس لیے امت کی خواتین اور بیٹیوں کو اس بات کی پہلی فرصت میں فکر کرنی ہے کہ وہ قرن اول کی خواتین جیسی صالحیت کے مقام پر خود کو لانے کی پہلی کوشش کریں۔ یہ کام اگر ہم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو معاشرہ تبدیل ہوجائے گا اور وہ بہت سی دشواریاں جو صالح مائیں اور صالح باپ تیار کرنے کی راہ میں حائل نظر آتی ہیں دور ہوجائیں گی۔ اس کے لیے انہیں درج ذیل چیزوں کو اختیار کرنا ہوگا۔
(۱) امت کی ماؤں کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے جذبہ ایمانی کا احتساب کریں اور دیکھیں کہ کیا وہ اسی جذبۂ ایمانی سے شرسار ہیں جو ہماری صحابیات کے اندر پایا جاتا تھا۔ اور پھر اس بات کے لیے جدوجہد کریں کہ وہ بھی اپنے آئیڈیل کرداروں کو اپنی زندگی میں اتاریں گی اور اسلام کے احکامات پر اسی جانثاری کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کریں گی جو ہماری صحابیات کے اندر تھا۔
(۲)علم اور مطالعہ کے بغیر اس راہ میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا جاسکتا اس لیے ہماری خواتین، بہنیں صالح اسلامی لٹریچر اور دینی کتابوں کے مطالعہ کو اپنی زندگی کا حصہ اسی طرح بنا لیں جس طرح کھانا پینا اور سونا جاگنا ہماری زندگی کے لازمی حصے بن گئے ہیں۔
(۳) ہمارے ذہن و فکر اور ہمارے عقیدے و ایمان کی جڑیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت و سیرت میں پیوست ہیں۔ یہی ہمارے رہنما اور یہی ہمارے جذبۂ جدوجہد کو سہارا دینے والے ہیں۔ جب تک ہمارا مضبوط تعلق ان چیزوں سے نہ ہوگا اس وقت تک نہ تو ہم خود صالح بن سکتے ہیں اور نہ صالحیت کے راستہ پر دوسروں کو لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس لیے لازمی ہے کہ ہماری خواتین قرآن مجید کو سمجھتے ہوئے مطالعہ کریں اور سیرت نبوی اور آپ کی احادیث سے اپنی زندگی کا مضبوط رشتہ قائم کریں۔ اگر ہمارا یہ رشتہ کامیاب اور مضبوط ہوگیا تو ہم لازمی طور پر اس عظیم سرمائے کو اپنی آئندہ نسلوں میں منتقل کرسکیں گے۔
اس گفتگو کے بعد ہم ان چیزوں کا تذکرہ کریں گے جو اپنی نئی نسل کی صالح تربیت کے سلسلے میں ہمیں انجام دینا ہیں تاکہ امت میں صالح مائیں تیار ہوسکیں اور اس پسماندہ اور شکست سے دوچار امت کی تقدیر کو بدل کر روشن مستقبل سے اسے ہم کنار کرسکیں۔
ہمارے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ اولاد کی صالح تربیت کے لیے ہمیں قدم قدم پر اپنے جذبات اور اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی دینا ہوگی، اپنی جائز آرزوؤں اور خواہشوں کو بھی موخر کرنا ہوگا اور کبھی یکسر قربان کردینا ہوگا اس وقت جب وہ ہمارے اس عظیم مقصد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہوں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم عملی طور پر کیا تدابیر کریں جو امت کو صالح نسل فراہم کی جاسکے۔
بچوں کی صالح تربیت کی ذمہ داری ماؤں پر اسی وقت سے آجاتی ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں پرورش پارہا ہوتا ہے۔ اس وقت کے بارے میں ہمارے اطباء اور اللہ کے رسول یہ رہنمائی فرماتے ہیں کہ ان ایام میں ماؤں کو صالح اور نیک افکار و خیالات کو ہی اپنے دل و ذہن میں جگہ دینی چاہیے نیز اچھا مطالعہ اور قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔ ہمارے اچھے یا برے افکار اور اعمال کسی نہ کسی صورت میں اس پرورش پارہے بچے کیمستقبل کو متاثر کرتے ہیں۔ اس طرح ماؤں کی ذہنی صحت بچوں کی ذہنی صحت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے قرآن کی آیات اور مختلف دعاؤں کا ورد اور نماز کی پابندی کرنا ماں اور بچے دونوں کی ذہنی صحت کے لیے مفید ہے۔
دنیا میں آنے کے بعد ماں باپ کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ بچے کا بہترین نام رکھا جائے اور اس کا عقیقہ کیا جائے اور پھر ماں کے ذمہ آتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی جسمانی صحت کا مکمل طور پر خیال رکھے۔ بہترین زبان گھر میں استعمال ہو اور ایک صحت مند ماحول پیدا کیا جائے جہاں رنجش، جھگڑے اور تکرار کا ماحول نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے کی غذا اور جسمانی صحت کی بھر پور فکر کی جائے۔ بعض والدین جسمانی صحت پر توجہ نہ دے کر محض دعائیں اور اچھی باتیں سکھانے پر پوری توجہ مرکوز رکھتے ہیں یہ درست نہیں اس لیے کہ ایک صحت مند جسم کے اندر ہی صحت مند دماغ ہوسکتا ہے۔
ہر ماں کو چاہیے کہ اس کا بچہ چاہے کتنا ہی لاڈلا کیوں نہ ہو اس کے اندر عزت نفس، غیرت، خود اعتمادی دوسروں کے لیے ہمدردی، تڑپ، محبت، قربانی اور رحم کے جذبات پروان چڑھائے۔ اس میں بلند حوصلگی، صبر اور محنت کی عادت ڈالے بچے کو کبھی بھول کر بھی نہ ڈرایا جائے۔ اس کے اندر بہادری جرأت اور صرف خدا کا خوف پیدا کریں۔ بچے سے کبھی بھی جھوٹ نہ بولیں اور نہ جھوٹا لالچ دیں۔ ورنہ وہ دھوکا دینا اور جھوٹ بولنا سیکھ جائے گا۔
عقل مند بچے گردوپیش کی معلومات حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ سوال کرتے ہیں جس سے مائیں جھنجھلاجاتی ہیں۔ بسا اوقات پیٹ ڈالتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مرحلہ انتہائی صبر آزما ہوتا ہے۔ ڈیڑھ یا دو سال میں بچہ خوب سوال کرنے لگتا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماں کو چاہیے کہ بچے کو اذان، ننھی سورتیں، نظم، گنتی وغیرہ یاد کرائیں اور اس کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیں۔ اگر جواب دینا مشکل ہو تو کہہ دیں کہ اس کا جواب سوچ کر دوں گی۔ یا قرآن پاک میں تلاش کروں گی یا دیگر کتاب میں ڈھونڈوں گی۔ اصلیت یہ ہے کہ بچہ معصوم دماغ نہیںچاٹا کرتا بلکہ ہر بات اور ہر چیز کی اصلیت جاننا چاہتا ہے۔ بچے کے سوالوں کا جواب دینے سے بچہ کا دماغ بڑھتا ہے۔ خود اعتمادی بڑھتی ہے اور اگر اسے ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کرادیا گیا تو اس کا انجام برا ہوتا ہے۔ بچہ بدھو، کم عقل اور عدم اعتمادی کا شکار ہوجاتا ہے۔
بچوں کے ساتھ ہم جولیوں کی طرح رہنا چاہیے تاکہ وہ بے جھجھک اپنی بات کہہ سکیں۔ اس کے علاوہ ماؤں کو کبھی کبھی اپنے آپ سے سوال کرنے چاہئیں بیٹا یہ چاند کون چمکاتا ہے، یہ بارش کون کرتا ہے، اتنی پیاری رنگین تتلیاں اور خوبصورت مور کون بناتا ہے۔ بیٹے کیلا جیسا لذیذ حلوا چھلکوں میں کون حفاظت سے رکھتا ہے۔ مچھلی اور بطخ کو پانی میں کون تیراتا ہے، چڑیوں کو آسمان میں کون اڑاتا ہے۔ دیکھو سب چڑیوں اور جانوروں کو الگ الگ آواز کون دیتا ہے۔ بچے کو بتائیے کہ جو کام ہمارے فائدے کے ہیں ان کو ثواب کہتے ہیں اور جو کام نقصان کے ہیں انھیں گناہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید کو اللہ نے اپنے رسول محمدﷺ کے ہاتھ بھیجا تاکہ ہر گناہ اور ثواب کے کام جان سکیں۔ ننھے منے کو نبیوں کو قصے دلچسپ اور کہانی کے انداز میں سنائیں۔ بوڑھوں کی طرح نہیں کہ بور ہوجائیں۔ اچھے اشعار یاد کرائیں،صحابہ /صحابیات کے بارے میں سنائیں، ان کو کلموں وغیرہ کا ترجمہ، دعاؤں کا ترجمہ یاد کرائیں۔ اس عمر کا یاد کیا ہوا وہ پوری زندگی نہیں بھول سکتے۔
یاد رکھئے ایک کام جب کئی وقت کیا جائے تو عادت بن جاتا ہے اور یہ عادت اصول اور پھر کردار کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ ہم کو چاہیے کہ اپنے بچے کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بری عادتوں کا بھی خیال رکھیں کیونکہ یہی عادتیں تناور درخت بن جاتی ہیں۔ان کے اندر اچھے ذوق شوق کو بیدار کرئیے۔ تین چار سال کا بچا اپنے، پرائے، دوست اور دشمن کی تمیز کرنے لگتا ہے۔ اس عرصہ میں اس کے اندر خدائے واحد کی وحدانیت،عظمت، کاریگری، بزرگی، برتری کا جذبہ اندر اور بہت گہرائی تک پیوست کردیں۔ جب بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لائق ہوجائے تو اسے منع نہ کریں لیکن اپنی بھر پور کوشش کریں کہ اسے اچھے دوست اور ساتھی ملیں۔ اس کے سنگی ساتھیوں پر نظر رکھیں، ان کی زبان پر نگاہ رکھیں۔ ایسے وقت غور کرکے دیکھتی رہیے کہ آپ کا بچہ کیا کچھ کہتا اور کرتا ہے۔ اپنی بھر پور کوشش کریں کہ آپ کے بچے کا بچپن خوشیوںاور محبتوں سے بھر پور ہو اور اسے کبھی عدم تحفظ کا احساس نہ ہونے پائے کیونکہ کسی بھی قسم کی محرومی اگر بچپن میں آدمی کو ڈس لے تو اس کی ساری شخصیت کو روکھا پھیکا اور بے رنگ بنا دیتی ہے۔
۵ سال کی عمر تک آپ اس کے عقائد، توحید، رسالت، آخرت پختہ کردیں۔ اسے آپ جیسا کچھ بھی بنانا چاہتی ہیں ۵ سال محنت کرکے اس کو بنا سکتی ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کے بیش قیمتی لمحات ہیں۔ اس کا بھر پور فائدہ اٹھائیے اور اس کے اندر نیکی پروان چڑھائیے۔ ۵ سال کے اندر اسے سب اچھی بری باتوں سے آگاہ کردیں بلکہ پختہ کردیں تاکہ جب وہ باہر کی دنیا میں قدم رکھے تو اسے بری صحبت آسانی سے بگاڑ نہ سکے۔
آپ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنی اولاد کی صالح تربیت میں لگا کر جنت کی مستحق بن سکتی ہیں۔ ہم اگر خواہش مندہیں کہ ہماری اولادیں اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار ہوں، والدین کی خدمت گزار ہوں، ان کا کہنا ماننے والی ہوں، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کرنے والی ہوں، کمزوروں لاچاروں کی مددگار بنیں تو سب سے پہلے ہم کو خود اللہ رسول کی اطاعت کرنی ہوگی۔ اپنے ماں باپ کی خدمت اور فرمانبرداری کرنی ہوگی۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے محبت کرنا ہوگی۔ الغرض ہر وہ اچھی عادت اپنانی ہوگی جو کچھ ہم اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم جو کچھ سکھائیں گے وہ اولاد سیکھے گی اور جو کچھ دکھائیں گی وہ اپنائے گی۔ ہم بچے کو کہنے سے پہلے اپنے کردار کو خود اس سانچے میں ڈھالیں۔
بچوں کی اچھی تربیت عبادت ہے۔رسولؐ نے فرمایا ہے صالح اولاد صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب فوت ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ ایسی اولاد جیسے جیسے نیک عمل کرے گی والدین کے درجات بلند وتے جائیں گے۔ صحابہ و صحابیات نے قوانفسکم و اہلیکم نارا پر خود عمل کیا اور اپنے بچوں کے اندر آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کا بے پناہ جذبہ پیدا کرکے صرف نیکی کا مجسمہ تیار نہیں کیا بلکہ ایسا جاندار پتلہ جو باطل اور طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے خلاف زور دار نعرہ لگانے پر ہی بس نہیں کرتا بلکہ وقت پڑنے پر اس کی کلائی بھی توڑ دیتا ہے۔ جنگ بدر ، جنگ احد، جنگ قادسیہ اور دیگر اسلامی جنگوں میں ان اسلام کے فداکاروں کو دیکھئے۔
’’قوموں کا عروج و زوال ماؤں کے ہاتھوں میں ہے‘‘ یہ اگر حقیقت ہے تو بس پھر مائیں کمر کس لیں قوم کو بدلنے کے لیے؟ دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والا عظیم فاتح نیپولین کہتا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں عظیم سلطنت دوں گا۔ قرآن نے انما اموالکم و اولادکم فتنۃ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اولاد والدین کے لیے امتحان کاپرچہ ہیں۔ اس لیے اسے بہترین طور پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر ہماری خواتین صحابہ و صحابیات کا نمونہ اپنے سامنے رکھ کر خود کو چلتا پھرتا اسلام بنائیں گی اور محنت و مشقت، صبراور بلند حوصلہ کے ساتھ اسلامی نہج پر جگر گوشوں کی پرورش کریں گی تو یقین جانئے کہ ہم اپنے شاندار اور تابناک ماضی کی طرح اپنے حال اور مستقبل کو بھی شاندار اور تابندہ بنا سکتے ہیں اور اس زوال پذیر اور مغلوب امت مسلمہ کو عروج عطا کرسکتے ہیں۔