کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَo
(البقرۃ:۲۸)
’’اور تم اللہ کا انکار کس طرح کرتے ہو، حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمھیں زندہ کیا، پھر وہ تمھیں موت دے گا، پھر تمھیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘
مخاطب اہل عرب اللہ کے وجود کے قائل تھے،مگر وہ شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔انھوں نے کئی اور خدا بنا رکھے تھے۔وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں،حقوق میں ،اختیارات میں،ہر چیز میں شرک کیا کرتے تھے۔ صرف اللہ تعالیٰ کا انکار ہی کفر نہیںبلکہ توحید باری تعالیٰ کا انکار بھی کفر ہے۔ اس زمانے کے اہل عرب اور اس زمانے کے ہمارے برادران وطن شرک جلی اور شرک خفی ہر قسم کے شرک میں ڈوبے ہوے ہیں۔اس لئے پوچھا جا رہا ہے کہ تم اللہ کا انکار کس طرح کرتے ہو؟ جبکہ تم بے جان تھے،عدم میں تھے۔اللہ نے تمھارے زرات کو،بے جان اجزا کو،زمین کے مختلف حصوں سے، غذائوں کی شکل میں جمع کیا، پھر غذائوں نے ماں باپ کے خون کی شکل پائی،اور ماں باپ کے خون سے تمھاری بنیاد ہوئی،اور مائوں کے پیٹوں میں اللہ نے تمھارے اندر جان ڈال دی۔ اب زرا سوچو! غور کرو! اگر اللہ تعالیٰ، خالق، مالک اور حاکم نہیں ؟ تو پھر تمھیں عدم سے وجود کس نے بخشا؟ تمھاری پیدائش میں زمین و آسمانوں کی بے شمار قوتیں اور اسباب نے مل کر کام کیا،اور تمھاری بڑھوتری، افزائش اور ارتقاء میں حصہ لیا۔ جس ہستی کا علم اور اقتدار اور قدرتیں تمام کائنات پر حاوی ہوں وہی ہستی انسان کو پیدا کر سکتی ہے ،اور پرورش کر سکتی ہے۔ اور آغاز کی طرح انجام بھی یعنی موت بھی وہی دیگا۔یہ دونوں باتیں تو اہل عرب مانتے اور جانتے تھے مگر انکار صرف اس بات کا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد وہ انھیں نہیں اٹھائے گا۔حساب نہیں لیگا۔ جب اللہ تمھیں عدم سے وجود میں لا سکتا ہے تو اس کے لئے تمھیں موت دینے کے بعد پھر سے پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟ اور اللہ نے صرف تمھیں ہی پیدا نہیں کیا، اس نے تمھارے اباواجداد کو، ساری کائنات کو اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اس کو تمھاری ضرورت اور حاجت کے مد نظر تمھارے فائدے کے لئے تخلیق کیا ہے۔ پھر جب ہر چیز کو انسان کے استعمال، اور فائدے کے لئے تخلیق کیا گیااور اس قدر انتظامات اور اہتما مات انسان کی خاطر اس نے کئے، تو پھر کیا وہ انسان یوں ہی مر جائے گا، مٹی میں مل جائے گا اوراس کا اچھا یا برا انجام نہ ہو گا؟اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہو جس میں اس دنیا کے کیے کرائے کا بدلہ نہ ملے یہ تو نا انصافی اور غیرمعقول بات ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا یوں ہی تو پیدا نہیں کی۔ اور بھلا اس قدر اہتمام کے ذریعہ پیدا کیا گیا انسان کیا صرف اس لیے ہے کہ وہ پیدا ہو اور مرجائے۔ نہیں اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا ہے:
’’کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بے کار پیدا کردیا ہے، اور تم ہماری طرف لوٹا کر نہیں لائے جاؤگے۔‘‘
——