دراصل ہماری جلد میں شحمی(چربیلے) غدود پائے جاتے ہیں۔ ان غدودوں سے ایک روغنی (چربیلا) مادہ خارج ہوتا رہتا ہے جو جلد پر بنے مساموں کے ذریعے ہمارے جسم سے باہر نکل جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ غدود زیادہ مقدار میں روغنی مادہ بنانے لگتے ہیں اور ان کا مناسب اخراج نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ وہ رکاوٹ ہوتی ہے جو مادہ خارج کرنے والی نالیوں میں پیدا ہوجاتی ہے۔ یوں روغنی مادہ خارج کرنے والے یہ شحمی غدود پھول کر چھوٹے چھوٹے دانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ انہی کو ہم کیل (Acne) اور مہاسے کہتے ہیں۔ ایسے مہاسے جن میں پیپ سڑگئی ہو اور جو پھنسیوں کی شکل اختیار کرگئے ہوں، بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ تعدیہ (انفکشن) ہوتا ہے۔
ہمارے جسم میں ایک ہارمون ہوتا ہے، جسے اینڈروجن کہتے ہیں۔ یہ ہارمون بلوغت آنے پر ہی متحرک ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ کئی غدود وابستہ ہیں، چنانچہ یہ غدود چربیلے مادے اس وقت خارج کرتے ہیں، جب بلوغت کا آغاز ہوتا ہے۔
کچھ ماہرین جلد کا خیال ہے کہ زیادہ تعداد میں کھائے گئے کاربوہائیڈریٹس، چاکلیٹ، کولا مشروبات اور مونگ پھلی مہاسوں میں اضافہ کرتے ہیں لیکن اس بات کا ابھی تک کوئی سائنٹفک ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ کیل مہاسے شادی کے بعد ختم ہوجاتے ہیں لیکن حقیقت میں شادی کا مہاسوں سے کوئی تعلق نہیں۔ دراصل بیس پچیس برس کی عمر میں مہاسے خود بخود ختم ہوجاتے ہیں اور یہی عمر شادی کی ہوتی ہے، اس لیے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ شادی مہاسوں کے خاتمے کا باعث بنتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے علاج سے یکسر غفلت برتی جائے۔
اگر مہاسوں سے بے پروائی برتی جائے تو یہ زیادہ عرصے تک پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے چہرے پر داغ بھی پڑسکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بروقت کسی مستند ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے اور نیم حکیموں اور اشتہار بازوں سے محفوظ رہا جائے تو بہت مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ البتہ یہ مشورہ سبھی اطبا دیتے ہیں کہ مہاسوں سے متاثر لڑکیوں کو فاؤنڈیشن کریم، موسچرائزنگ لوشن اور دیگر روغنی کاسمیٹکس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ان چیزوں کے استعمال سے مسام بند ہوجاتے ہیں اور کیلوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اسی لیے چہرے، سینے اور پشت پر تیل یا عطر لگانا بھی مناسب نہیں۔
کیل مہاسوں کا جنسی ہارمون سے بھی گہرا تعلق ہے اور دیکھنے میں آتا ہے کہ ہرمہینے قبل از ایام مہاسوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن جیسے ہی ایام شروع ہوتے ہیں، مہاسوں کی باڑھ خود بخود رک جاتی ہے۔
کیل مہاسے زیادہ تر ان افراد کے چہروں پر ہوتے ہیں، جن کی جلد میں چربی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی جلد کا خیال رکھیں اور درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
احتیاطی تدابیر
٭… دن میں تین چار بار چہرہ صابن اور گنگنے پانی سے دھوئیے تاکہ جلد پر جمع شدہ روغنی مادہ صاف ہو جائے اور مسام کھل جائیں۔ تیز صابن کے سوا کوئی بھی صابن استعمال کرسکتی ہیں۔ یہ غلط فہمی درست نہیں کہ تین چار بار سے زیادہ چہرہ دھونا نقصان دہ ہے لیکن اس بات کی احتیاط ضروری ہے کہ جلد رگڑیں نہیں۔
٭… چہرے کے مسام کھلے رکھنے کے لیے وقفے وقفے سے چہرے پر اسٹیمنگ (بھاپ سے صفائی) کریں۔
٭… اگر آپ ملازمت کرتی ہیں یا کالج جاتی ہیں اور دن میں چہرہ کئی بار دھونے سے قاصر ہیں تو اس مقصد کے لیے آپ اسٹرنجنٹ لوشن کا استعمال کرسکتی ہیں۔
٭… مہاسوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کیجیے اور نہ انہیں دبائیے کیونکہ ایسا کرنے سے چہرے پر داغ پڑسکتے ہیں اور مہاسوں میں انفکشن ہوسکتا ہے۔
٭ …وہ سامان آرائش جس میں تیل شامل نہ ہو مثلاً کیلامن لوشن، پاؤڈر، بلشر، آئی شیڈو، آئی لائنز، مسکرا یا لپ اسٹک لگانے میں کوئی حرج نہیں۔
٭… سر کے بال ہفتے میں کم از کم دو بار دھوئیے۔ انھیں دھونے کے لیے وہ شیمپو استعمال کیجیے جن میں تیل شامل نہ ہوں۔ دو فیصد اسٹیولان یا سیلسن شیمپو اس کے لیے مناسب ہے اس سے بالوں میں خشکی (ڈینڈرف) جو عموماً مہاسوں کے ساتھ عام ہے، بھی ختم ہوجائے گی۔
٭… سر دھونے سے پہلے یا بعد میں بالوں میں تیل نہ لگائیے،اس سے مہاسوں میں اضافہ ہوگا۔
٭… کچن میں کام کرتے وقت ایگزاسٹ فین چلائیے (اگر حالات اجازت دیں) کھڑکیاں کھلی رکھئے تاکہ وہ دھواں یا بھاپ جس میں چکنائی بھی شامل ہے، باہر نکل جائے۔ کام ختم کرنے کے بعد چہرہ دھوئیے لیکن رگڑئیے نہیں۔
٭… خوش و خرم رہیے۔ غیرضروری تناؤ سے بچئے۔ صبح شام ورزش کیجیے یا لمبی چہل قدمی کیجیے۔
٭… مہاسوں سے نجات نہ ملے تو فکر مند نہ ہوجائیے بلکہ ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔ عموماً علاج میں وقت لگتا ہے۔ دواؤں سے مہاسے جڑ سے ختم نہیں کیے جاسکتے لیکن اس کی شدت کم کی جاسکتی ہے۔
——