حال ہی میں افریقی ملک کینیا میں انسان کے پیر کا قدیم ترین نشان ملا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ۱۵؍لاکھ سال پرانا ہے۔ یہ نشان کینیا کے ایک پہاڑی علاقے میں کھدائی کے دوران ملا ہے۔ یہ توآپ کو معلوم ہی ہوگا کہ ماہرین کو جب اس طرح کی کوئی چیز ملتی ہے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے جی جان کی بازی لگادیتے ہیں اور جب تک اس کی تہہ تک پہنچ نہ جائیں چین سے نہیں بیٹھتے۔ انھوں نے اس نشان پر بھی خوب تحقیق کی، تب جاکر انہیں معلوم ہواکہ یہ کسی افریقی آدمی کے پاؤں کا نشان ہے۔ اس نشان کی خاص بات یہ ہے کہ آج کے انسانوں سے کچھ الگ تھلگ ہے۔ اس نشان کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ ان کی انگلیاں بالکل چھوٹی چھوٹی، مڑی ہوئی، ایک دوسرے سے ملی ہوئی اور موٹی پائی گئی ہیں۔ نشان سے یہ بھی اندازہ لگایا جارہاہے کہ اس زمانے میں لوگ پنجوں پر وزن دے کر چلا کرتے تھے، جبکہ آج کا آدمی اپنی ایڑیوں پر وزن دے کر چلتا ہے۔
اس نشان کو دیکھ کر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ دورارکٹس میں رہنے والے آدمی کا نشان ہے۔ دورارکٹس آج سے ۱۵؍لاکھ سال پہلے تک کے زمانے کو کہا جاتا ہے۔ اس زمانے کے لوگوں کے اعضاء ہمارے آج کے انسانوں سے بہت سی چیزوں میں مختلف تھے۔ اسی لیے بہت سے ماہرین نے ان کو بندروں کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ۳۷؍لاکھ سال پہلے زمین پر آئے اور افریقی خطوں میں آباد ہوگئے۔ دھیرے دھیرے ان کی آبادی پھیلتی گئی، یہاں تک کہ تقریباً ۱۶؍لاکھ سال پہلے ایشیا کی طرف آگئے اور یہاں مختلف حصوںمیں ۴۰۰ہزار سال پہلے تک آباد رہے۔ اس کے بعد وہ سب کے سب نیست و نابود ہوگئے۔ جب یہ یہ لوگ دنیا سے ناپید ہوگئے تو ان کی جگہ انسان کی دوسری نسل جن کو محنتی انسان (Home Ergaster) کہا جاتا ہے، آباد ہوئی اور یہی نسل آج تک زمین پر آباد ہے۔
جس نشان قدم کے بارے میں ہم بتارہے ہیں اس کے بارے میں گمان غالب ہے کہ دورارکٹس کے ہی کسی فرد کا رہا ہوگا، کیوںکہ پاؤں کی بناوٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ پیڑوں پر چڑھتے تھے اور پیڑوں پر چڑھ کر رات گزارنے کی عادت اسی دور کے انسانوں میں پائی جاتی تھی۔ دراصل وہ گھر بنانے کے ہنر سے ناواقف تھے۔ لہٰذا جانوروں کے ضرر سے بچنے کے لیے رات کے اوقات میں پیڑ پر چڑھ کر خود کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ۱۹۷۸ء میں تنزانیا میں جو نشان قدم ملے تھے اور جس کے بارے میں ماہرین کا خیال تھا کہ وہ ۳۵؍لاکھ سال پرانا ہے، اس نشان پر بھی اس سے ملتے جلتے آثار پائے گئے ہیں۔ جس سے یہ طے ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ پیڑوں پر رات گزارنے کے عادی تھے یا پہاڑ پر چڑھ کر درندوں سے خود کو محفوظ رکھتے تھے۔
بہرکیف کینیا میں جب سے یہ نیا نشانِ قدم ملا ہے، ماہرین کے چہرے خوشیوں سے کھل اٹھے ہیں اور انہیں یقین ہوگیا ہے کہ وہ اس کے توسط سے پرانے دور کے انسانوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کرسکیں گے۔ ——