کیوں مشکل ہورہی ہیں شادیاں؟

مریم جمال

زمانہ بدلا ہے تو سماجی تنظیم بھی بدل گئی ہے۔ شادیاں مشکل ہوگئی ہیں۔ بغیر شادی کے رہنے والے جوڑوں کی گنتی بڑھ رہی ہے۔ غیر شادی شدہ رہنے والے لوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ بہت ساری وجہیں ہیں جو اس تبدیلی میں مدد کررہی ہیں۔

شمالی ہند کی رہنے والی فرزانہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اپنا اسکول چلاتی ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ عمر کی ۳۸ویں سیڑھی پار کرنے کے بعد بھی وہ زندگی کے ہمسفر کے بغیر زندگی گزار رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ تو تھی لیکن ایسی برادری میں پیدا ہوئی جس سے میں شادی کرنے کے لیے کوئی لڑکا تیار نہیں ہوتا۔ آج فرزانہ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ذات برادری اور اعلیٰ تعلیم دونوں میں سے کون بڑا ہے۔ فرزانہ کے ابا نہ جانے کتنے سالوں تک اردو دینی اخبارات کے شادیوں کے اشتہار کی خاک چھانتے رہے کہ انھیں ذات برادری کے بغیر تعلیم یافتہ لڑکی کو پسند کرنے والا کوئی لڑکا مل جائے لیکن مایوسی کے بعد اب وہ بھی ہار مان چکے ہیں۔

ایک صاحب سے رابطہ ہوا۔ محمود نام کے یہ صاحب ایک انٹر کالج میں اردو کے استاذ ہیں۔ پی ایچ ڈی ہیں، برسرِ روزگار ہیں۔ تعلیم کے ساتھ اللہ نے بلند اخلاق و کردار سے نوازا ہے۔ سوچتے تھے کہ اللہ اور رسول کے تقاضوں کے مطابق صرف دین داری کی شرط پر شادی کریں گے۔ لیکن ان کے والدین کو کوئی بھی ایسی لڑکی پسند نہیں آئی۔ والدہ کو کسی کی آنکھ چھوٹی لگتی ہے کسی کی ناک بڑی نظر آتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہونے کی قیمت وصول کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے خود محمود تیار نہیں ہیں۔ والدہ کی ایک ضد ہے اور محمود کی ایک ضد۔ ۴۰ سال ہوگئے محمود اپنی ضد پر قائم ہیں۔

اور — یہ نادیہ ہیں۔ ایک باصلاحیت، فعال اور ایم اے پاس لڑکی۔ اس کے والد صاحب کا کئی سال پہلے انتقال ہوگیا ہے یہ تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ یہ ایک اسکول میں پڑھاتی ہے اور تقریباً ایک ہزار روپئے ماہانہ پاتی ہے۔ اس نے اپنے گھر میں اپنے قصبہ کی ناخواندہ اور جاہل خواتین کو تعلیم یافتہ کرنے کے لیے ایک سینٹر بنارکھا ہے اور درجنوں نہیں اس سے زیادہ لڑکیوں اور عورتوں کو جہالت کی تاریکی سے نکال چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مگر اس کی ماں اس کی شادی کے لیے بڑی فکر مند ہے۔ کیونکہ وہ غریب گھر کی یتیم لڑکی ہے اس لیے ماں کی فکر مندی بجا ہے۔ اس کا گھر بھی بہت چھوٹا اور معمولی سا ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ لڑکا اس حالت کو قبول نہ کرے۔ اور

یہ نیاز ہیں اردو میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانی طلبہ و نوجوانوں کی معروف تنظیم کے فعال رکن اور ذمہ دار۔ ظاہر ہے ان کے ذہن و فکر اور دین و تقویٰ پر تحریک اسلامی کے افراد شبہ نہیں کرسکتے۔ مگر شادی کے معاملہ میں انہیں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ہم فکر لڑکی والے سے ان کے رشتہ کی بات کی گئی تو ان کا جواب کیا تھا۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:

’’… اس کے بعد وہ کیا کرے گا۔ اردو میں تو کوئی کیریر ہے ہی نہیں۔‘‘ یہ ایک نام نہاد دیندار لڑکی والے کے الفاظ تھے۔ اللہ خیر کرے۔

یہ مسلم معاشرے کی چند جھلکیاں ہیں جو ہم میں سے ہر فرد نے کبھی نہ کبھی دیکھی ہوں گی۔ آخر شادیاں مسلم سماج میں بھی کیوں مشکل اور دشوار ہوتی جارہی ہیں۔ کیوں لڑکیوں کی عمریں گھل رہی ہیں اور کیوں لڑکے مناسب رشتوں کے لیے دربدر گھوم رہے ہیں یہ بات قابل غور ہے۔

جی ہاں! جہیز ایک بڑا مسئلہ ہے اور مسلم سماج بھی اس کی زد میں ہے۔ بے شمار لڑکیاں محض غربت اور والدین کے خاطر خواہ جہیز نہ دے پانے کے سبب گھروں میں بیٹھی زندگی کے دن گن رہی ہیں۔ دوسری طرف سیکڑوں نوجوان جو خیر سے دیندار بھی ہیں سماج کی غلط روایات کے خلاف باغیانہ تیور لیے ادھر ادھر رشتوں کے لیے بھٹک رہے ہیں۔کہیںبرادری اور خاندان کے بت کو لوگ پوج رہے ہیں تو کہیں معیارِ زندگی اور معیارِ تعلیم کا خود ساختہ دائرہ ہمارے پیروں کی بیڑیاں بنا ہے۔ کہیں مال و اسباب کی خواہش مسلم سماج کے نوجوانوں کو تحت الثریٰ کی طرف دھکیل رہی ہے تو کہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار و دولت مند نوجوانوں سے رشتہ کی خواہش نے سیکڑوں لڑکیوں کی زندگیوں کو تاریکی کی طرف دھکیل دیا ہے۔

کہیں مال و اسباب اور جائیداد کے حصول کی خواہش رشتوں میں رکاوٹ ہے تو کہیں اس کی تلاش مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ کہیں جہالت راہ کا روڑا ہے تو کہیں علم سدِّ راہ بنا ہے۔ کہیں بے دینی اور دین سے غفلت کا رونا ہے تو کہیں نام نہاد دینداری اور پندارِ تقویٰ اچھے اچھے اور باصلاحیت نوجوان لڑکے لڑکیوں کو رد کرنے پر لگا ہے۔

ایک گیم ہوگئی ہے شادی اور تجارت بن گئے ہیں لڑکے لڑکیوں کے رشتے۔ کہیں لڑکیاں بک رہی ہیں تو کہیں داماد خریدے جارہے ہیں۔ کہیں لڑکیوں کو دینے کے لیے جہیز نہیں تو کہیں لاکھوں روپئے مہمانوں کی ضیافت اور لاکھوںروپئے ٹینٹ اور سجاوٹ میں صرف ہورہے ہیں۔ کہیں غربت مسئلہ ہے تو کہیں امیری اور دولت پریشانی کا سبب۔ ایک فساد ہے، ایک عدم توازن اوربحران کی کیفیت ہے جہاں ہر شخص پر یشان اور ہر آدمی شکوہ سنج ہے۔ غریب کی غربت، امیر کی دولت، دیندار کا دین اور بے دین کی بے دینی سبھی تو مشکل میں مبتلا ہیں اور کوئی بھی چیز مشکل سے نجات کا ذریعہ نہیں۔

جی ہاں! نجات اور مشکل سے گلو خلاصی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ ہم منافقت اور دو رنگی کا شکار ہیں۔ ہم بیٹی والے ہیں توجہیز کا شکوہ کرتے اور اس پر لعنت بھیجتے ہیں لیکن دوسرے ہی دن جب ہم بیٹے والے بنتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ اس پر لعنت بھیجنے اور اس کی مذمت کرنے کو ترک کردیتے ہیں بلکہ اسے ضروری اور اہم گرداننے لگتے ہیں۔ ہم جدیدیت کے اس دور میں لڑکے لڑکیوں میں دین داری نہ ہونے پر ظاہری تشویش میں مبتلا ہیں مگر محض دینداری کی بنیاد پر لڑکے لڑکیوں کے رشتے کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ برادری کا بت ہماری آستینوں میں چھپا ہے اور فقر و غربت کا شیطانی خوف ہمارے دلوں میں گھر کیے ہے اور اللہ کی رزاقی محض زبانی فلسفہ معلوم ہوتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جو لوگ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی غرض سے یہ سنت ادا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان جوڑوں کو غنی اور بے نیازی عطاء کرتا ہے۔

ہمارے درمیان ایسے نام نہاد دیندار بھی موجود ہیں جو کفو کا سہارا لے کر اپنے خاندانی وقار بلند مرتبہ کے جاہلانہ تصور میں گرفتار ہیں اور ایسے بے دین افراد بھی بکثرت ہیں جن کی ’’اونچی ناک‘‘ ان کے لڑکے لڑکیوں کی زندگیوں کو گناہوں کی دل دل اور تاریکیوں کی انتہائی گہری کھائیوں میں دھکیل رہی ہے۔زندگیوں کی تباہی اور گناہوں اوربے حیائی کی کثرت، معاشرتی بگاڑ اور رشتوں کی تباہی و بربادی، جلتی دلہنیں اور طلاق کے پتھروں سے سنگسار ہوتی نوجوان لڑکیاں — کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مسلم سماج بے دار ہواور اپنے دل و ذہن کی اصلاح کرنے کے لیے فکر مند ہو۔

اللہ کے رسول ﷺ نے شادیوں کو آسان بنانے کی تلقین کی تھی اور ترجیحات کو بھی واضح کردیا تھا۔ آپ نے امت کو یہ بات بھی بتادی تھی کہ شادیاں آسان ہونی چاہئیں۔ اگر یہ کام مشکل بنادیا گیا تو معاشرے میں اخلاقی برائیوں کا ارتکاب آسان ہوجائے گا۔ کیا ہم اس حقیقت سے آگاہ نہیں؟

کیا مسلم معاشرہ اپنے رسول جن کی پیروی کا وہ دعوے دار اور جن کی عزت پر وہ جان لڑاتا ہے اس بات کے لیے تیار ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرے؟

دیکھئے ہماری ہادی اور رہنما نے کیا کہا تھا — اور — اور ہم کیا کررہے ہیں۔ کیا یہ حدیثیں ہمیں آئینہ نہیں دکھاتیں!!!

اذا خطب الیکم من ترضونہ دینہ و خلقہ فزوجوہ، إلا تفعلو تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر۔

’’جب تمہارے پاس شادی کا پیغام کوئی ایسا شخص لائے جو تمہاری نظر میں دین دار اور اچھے اخلاق والاہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہ کروگے تو مسلم معاشرہ فتنہ و فساد میں مبتلا ہوجائے گا۔‘‘

عن ابی ہریرۃ قال رسول اللہ ﷺ تنکح النساء لاربعۃ لمالہا ولحسبہا ولدینہا، فاظفر بذات الدین تربت یداک۔

’’عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے اس کے خاندان کی شرافت کی وجہ سے اس کے حسن و خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین دار ہونے کی وجہ سے۔ تو تم دیندار عورت کو حاصل کرو تمہارا بھلا ہو۔‘‘

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ… ثلاثۃ حق علی اللہ عونہم: المجاہد فی سبیل اللہ والمکاتب الذی یرید الاداء والناکح الذی یرید العفاف۔

’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ پر فرض ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، مکاتب غلام جو روپیہ ادا کرنا چاہتا ہو اور نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی زندگی گزارنے کا خواہاں ہو۔‘‘

ای المال نتخذ۔ فقال: لیتخذ احدکم قلباً شاکراً ولسانا ذاکرا وزوجۃ مومنۃ تعین احدکم علی امر الآخرۃ۔

’’اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ’’ہم کون سا مال حاصل کریں، آپ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ شکر گزار دل اور ذکر کرنے والی زبان اور ایسی مومن بیوی حاصل کرے جو آخرت کے معاملے میں تمہاری مدد کرے۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں