برسوں پہلے مشہور ادا کارہ مینا کماری نے چند لائنیں لکھی تھیں ’’چاند تنہا ہے، دل تنہا ہے، یہ دل لٹا ہے کہاں کہاں تنہا۔‘‘سلور اسکرین کی ٹریجڈی کی شاعری میں بھی ان کی زندگی کی ٹریجڈی اور تنہائی کا درد نظر آتا ہے۔ ایسا درد جو کبھی موت کا پیغام بن جاتا ہے۔ مینا کماری کی موت حقیقتاً خود کشی ہی تھی۔ تنہائی سے پیدا ہونے والے مایوسی کے لمحات کو جب انھوں نے شراب کے جام میں ڈبودیا تو وہ خود کشی کی طرف اٹھنے والاایک قدم ہی تو تھا۔ تنہائی کے احساس سے شروع ہونے والا زندگی کا یہ سفر خود کشی پر اختتام کو پہنچتا ہے۔
حال ہی میں تنہائی اور زندگی کی پیچیدگیوں سے پریشان ہوکر مشہور ماڈل اور ٹی وی اداکارہ کلجیت رندھاوا نے بھی پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے خود کشی کا راستہ اختیار کیا۔ رندھاوا نے خود کشی سے قبل لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا ’’ماں مجھے معاف کرنا، ڈیڈی مجھے معاف کرنا۔ کچھ لوگ مضبوط اور ہمت والے ہوتے ہیں۔ زندگی کو درپیش مسائل حل کرتے ہیں اور مشکلات کا بھی ڈٹ کر سامنا کرتے ہیں لیکن میں کمزور ہوں، زندگی کے راستے میں حائل مسائل کا سامنا نہیں کرپارہی ہوں۔ زندگی کبھی کبھی ہماری خواہشوں کے مطابق نہیں گزرتی۔‘‘
زمین پر چاند کی طرح جگلمگاتی ہستیوں کے ذریعہ کی گئیں خود کشیاں گلیمر کی اس دنیا پر غوروفکر کے لیے مجبور کردیتی اور ایک سوال پوچھتی ہیں کہ ’’آخر کیوں کرتی ہیں سیلبریٹیز خودکشی؟‘‘ زندگی میں تمام خوشیوں کے باوجود ایسی کون سی مشکلیں ان کے سامنے ہوتی ہیں جن سے پریشان ہوکر خود کشی جیسے خطرناک عمل کو انجام دینے پر وہ مجبور ہوجاتی ہیں اور بے قیمت و بے کار اپنی قیمتی زندگی کو قربان کردیتی ہیں۔
زندگی کا سفر
کلجیت کی آخری لائن ’’زندگی کبھی کبھی خواہش کے مطابق نہیں گزرتی‘‘ بہت کچھ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ زندگی سے وابستہ کی گئی خواہشات اور عملی زندگی کے درمیان ٹکراؤ ہی خود کشی کا سبب ہے۔ گلیمر کی دنیا میں زندگی بسر کرنے والے لوگ بالخصوص دوشیزائیں شہرت، بے حد جگمگاتی دنیا، بے شمار دولت کی حرص اور آسمان کی بلندی تک پہنچنے کی چاہت میں خوشگوار زندگی اور خاندان کو چھوڑ کر بہت آگے نکل جاتی ہیں جہاں ان کا اپنا کوئی غم گسار نہیں ہوتا۔
خود کشی کی طرف بڑھتے ان لڑکیوں اور عورتوں کے قدموں کو جس کی ذمہ دار کسی حد تک وہ خود ہوتی ہیں ان کے خاندان کے لوگ اور قریبی رشتہ دار تک بھی نہیں دیکھ اور سمجھ پاتے۔ گلیمر کی دنیا میں زندگی گزارنے والی یہ لڑکیاں اپنے ارد گرد خوشی اور کامیابی کا ایک محدود دائرہ متعین کرلیتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ان کی مجبوری بھی ہے ، ان کا پیشہ چاہے وہ سینما کا بڑا پردہ ہو یا ٹی وی اسکرین اور ماڈلنگ کی جگمگاتی دنیا۔ ہر وقت گلیمر نظر آنا ان کی پہلی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کے بارے میں ڈاکٹر شردھا کا کہنا ہے کہ ’’ایسی عورتیں متعین ہدف تک پہنچنے اور مقصد حاصل کرنے کی قیمت خود کشی سے ادا کرتی ہیں۔ خاندان میں پلی بڑھی ان لڑکیوں کا واسطہ گھریلو زندگی میں آنے والی پریشانیوں سے نہیں پڑتا۔ اس لیے وہ اپنے کیریر کو لے کر بہت زیادہ جذباتی ہوجاتی ہیں۔ اپنے حسن اور دولت کے ذریعہ لڑکوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی چاہت میں کب وہ اپنوں کی محبت سے محروم ہوجاتی ہیں اس کا اندازہ ان کو اس وقت تو نہیں ہوتا لیکن جب گلیمر کی روشنی پھیکی پڑجاتی ہے تو وہ اس دنیا میں تنہا ہوجاتی ہیں اور اس وقت صرف تنہائی ہی ان کی واحد رفیق یا دوست ہوتی ہے۔ کچھ سالوں تک یہ مشہور ہستیاں کامیابی کی اندھی دوڑ، اپنی نام نہاد کامیابیوں اور خوشیوں کے حصول میں بے تحاشا بھاگی چلی جاتی ہیں لیکن جب زندگی کے کسی موڑ پر انھیں معاشی اور جذباتی تحفظ کی کمی محسوس ہوتی ہے تب وہ خود کو بے سہارا اور اکیلا محسوس کرنے لگتی ہیں اور حقیقتاً ایسی ہی حالت ہوتی ہے گلیمر سے جڑے لوگوں کی۔ زندگی کی خوشی اور خاندان سے لگاؤ کو میلوں پیچھے چھوڑ کر وہ اس قدر آگے نکل جاتی ہیں کہ ان کی زندگی صرف انہی تک سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ ایسی زندگی جہاں شوروغوغہ ہوتا ہے، لوگ ہوتے ہیں لیکن اس بھیڑ میں کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کبھی گلیمر کا چاند بادلوں کی اوٹ میں جا چھپتا ہے تو وہ خود کشی کی سرخیاں بن کر اخبارات و رسائل اور ٹی وی کے پردے پر سامنے آتا ہے۔
عدم تحفظ کا احساس
کچھ واقعات کو اگر چھوڑ دیا جائے تو خود کشی کا خاص سبب عدم تحفظ کا احساس مانا جاتا ہے۔ کلجیت کا ممبئی میں اپنا فلیٹ تھا اور حال ہی میں اس نے کار بھی خریدی تھی لیکن اس کی اس خوشی میں شامل ہونے والا کوئی اپنا وہاں موجود نہ تھا۔ اسی طرح کے موضوعات پر ریسرچ کررہے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر وی ایس روندرم کا کہنا ہے کہ ’’غم اور خوشی کے موقع پر اگر کوئی ساتھ نہ ہو تو کسی کی بھی زندگی محض زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہے۔ آپ کی خوشیوں میں کوئی شریک ہو اس کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ آپ کے غم میں بھی آپ کے ساتھ ہو اگر ایسا ہو تو زندگی کی گاڑی بآسانی آگے بڑھتی جاتی ہے۔ شاید یہی وہ موڑ رہا ہوگا جب ہمارے اگلوں نے خاندان، رشتہ دار اور مخلص دوستوں کی ضرورت کو محسوس کیا ہوگا۔ کسی کے ساتھ قائم کیا گیا (ناجائز) جنسی تعلق انسان کی جسمانی ضرورت کو تو پورا کرسکتا ہے لیکن محبت اور اپنائیت کا رشتہ نہیں بناسکتا۔دیکھا جائے تو کچھ ایسا ہی ہوا تھا ماڈل کلجیت کے ساتھ بھی۔ ممبئی کی تیز گام زندگی سے عاجز اور پریشان کلجیت نے جب کبھی بھی اپنوں کو یاد کرکے انہیں آواز دی تو خاندان کے لوگوں نے اس کی پکار کو نظر انداز کرکے اسے اکیلا چھوڑ دیا اور اس کی وجہ تھی اس کا ’’ماڈرن طرز کی زندگی‘‘ سپر ماڈل نیو نیکا چٹرجی کی قریبی رہی کلجیت کے بارے میں ان کا کہنا ہے : ’’وہ بہت ہی باوقار اور بہادر لڑکی تھی اس نے اپنے دم پر یہ مقام حاصل کیا تھا شاید یہ قیمت پر کامیابی کی خواہش ہی اس کی موت کا سبب بن گئی۔‘‘
مفاد پرست لوگ
گلیمر کی دنیا میں چمچماتی لڑکیوں اور عورتوں کو جو لوگ ملتے ہیں وہ Calculativeیا مفاد پرستی کی سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کا معاملہ ان لڑکیوں سے جسمانی تعلق قائم ہونے کے باوجود شوہر بیوی کے بجائے محض مفاد پرستانہ ہوتا ہے۔حالانکہ عورتیں اس کے برعکس بے لوث ہوتی ہیں اور بغیر کسی مادی فائدے کے اپنی محبت ان پر نچھاور کرنے والے ہوتی ہیں۔ دوسری طرف ان کے کیریئر کا مسئلہ انھیں اپنے خاندان سے دور ہونے پر مجبور کردیتا ہے جس کے سبب نا چاہتے ہوئے بھی انہیں مفاد پرست اور ہوس پرست لوگوں کے قریب آنا پڑتا ہے۔ ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتاہے جب وہ اپنوں کے قریب تو ہوتی نہیں اور جنھیں وہ اپنا سمجھنے کا بھرم دل میں پالے ہوتی ہیں وہ ان کے احساسات و جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے محض شاطر کھلاڑی ہوتے ہیں۔ یہی حالت انھیں اندھیرے کے ایسے کونے میں دھکیل دیتی ہے جہاں وہ دن کے کسی کمزور لمحے سوشلائٹ (سماجی کارکن) نتاشا سنگھ، فلمی ہیروئن دیویا بھارتی اور گلوکارہ اور اداکارہ سومیا شرما کی طرح اونچی منزل سے چھلانگ لگالیتی ہیں یا ماڈل سوشلائٹ ریتو سنگھ، کنڑ زبان کی اداکارہ وجی، تمل ادا کارہ مونل اور میگھا ماڈل راکھی چودھری کی طرح رسی سے جھول کر اپنی زندگی کو ختم کرڈالتی ہیں۔ ایسے ہی حالات کاتجزیہ کرنے والی رمن سودی کا کہنا ہے کہ: ’’مردوں کے مقابلے میں عورتوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کم وقت میں زیادہ شہرت حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگتی ہیں۔‘‘
اپنوں کے درمیان پرورش پانے والی کم سن لڑکی جیسے ہی باہر کی دنیا میں قدم رکھتی ہے تو وہاں اس کے لطیف احساسات و جذبات ختم ہوجاتے ہیں اور وہ سخت دل ہوجاتی ہے۔
خود کشی کی وجہ
خاندان میں خاص طور سے ساس، سسر،ماں باپ اور سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری کو نہ ادا کرپانا بھی ان لڑکیوں کی خود کشی کا اہم سبب بن جاتا ہے۔ صرف ایک دہائی میں گلیمر کی دنیا سے وابستہ چند مشہور لڑکیوں اور عورتوں کے ذریعہ کی گئی خود کشیوں کا اگر ہم تجزیہ کریں تو معاملہ اور بھی واضح ہوجائے گا۔ ۱۹۹۶ء میں تمل ڈانسر ملک اسمتاکی ناکام محبت، ۲۰۰۲ء میں نتاشا سنگھ کی ناکام شادی اور تمل اداکارہ مونل کی ناکام محبت ہی کو خود کشی کا سبب مانا گیا۔ ۲۰۰۲ء میں سپنا پاٹل، ریتو سنگھ، سومیا شرما، راکھی چودھری اور ۲۰۰۵ء میں نفیس جوسف اور ۲۰۰۶ء میں کلجیت رندھوا کی خود کشی کا سبب جذباتی عدم توازن ہی بتایا جاتا ہے۔
شیو راج پاٹل نے اپنی بیٹی سپنا پاٹل کی ۲۰۰۲ میں خود کشی پر کہا تھا کہ ’’اگر آج میری بیوی زندہ ہوتی تو میری بیٹی نے خود کشی نہ کی ہوتی۔ میں اپنے بچوں کے قریب نہیں ہوں۔‘‘ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی کے ڈاکٹر سدھیر خود کشی کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’خود کشی کرنے کا کوئی ٹھوس سبب نہیں ہوتا۔ جو لوگ خود کشی کی راہ اختیار کرتے ہیں وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ جہاں تک عورتوں کی بات ہے تو عورتوں میں رشتوں کے سبب تناؤ اور تنازعات کا مسئلہ اکثر پایا جاتا ہے جبکہ مرد خاندان کی معاشی حالت اور ذاتی حیثیت کے بگڑجانے سے پریشان ہوجاتا ہے اور اس کے دباؤ میں وہ خود کشی بھی کرلیتا ہے۔
حالات کا مقابلہ کیسے کریں؟
ستاروں بھرے آسمان کو چھونے، اونچا ہدف اور اسے جلد ہی پالینے کی خواہش میں لڑکیوں کو ایسے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں جو ان کی روح اور جذبات پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ خاندان والوں کو غور کرنا ہوگا۔ ان عظیم تمناؤں اور خواہشات کو جگانے میں ان کا بھی اہم رول ہوتا ہے، اس لیے جلدی کامیابی حاصل کرنے کی خواہش میں اگر وہ دور بھی ہوگئی ہوں تو قریب رہنے کی ذمہ داری بھی خاندان کے افراد کی ہی ہوتی ہے۔ کسی بھی وجہ سے پیدا ہونے والے مایوسی اور ناکامی کے حالات یا لمحات میں اگر خاندان کا ساتھ ملے تو خود کشی کا خیال بھی دل میں نہیں آئے گا۔ دل میں کمزوری نہیں پیدا ہوتی۔ اس کے لیے معاشرے کو بھی اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ نام، شہرت، گلیمر، کار، دولت، بنگلہ اور عیش و آرام کی مصنوعی کامیابی کو بھی ہمارے معاشرے نے ہی بنایا ہے۔ اخلاقی غیر اخلاقی، صحیح اور غلط ہر طریقے سے کامیابی حاصل کرنے والے کو ہی معاشرہ اپنا آئیڈیل اور مثال بناتا ہے۔ سماج کے ذریعے مقرر کردہ اور مطلوب نام نہاد کامیابی کے راستوں پر تیزی سے دوڑتی لڑکیوں اور عورتوں کو جذباتی سپورٹ اور سہارے کی ضرورت ہو تو سماج کو بھی آگے آنا چاہیے۔