انسان جس رفتار سے ترقی کررہا ہے اور اپنے آرام کے ذرائع ڈھونڈ رہا ہے۔ اسی حساب سے اس کے لیے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ آج کا ایک اہم مسئلہ کیڑے مار اور کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والی زہریلی دواؤں کے استعمال کا ہے۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ یہ انتہائی زہریلی ہوتی ہیں، لیکن ان کااستعمال ناگزیر ہے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ان دواؤں کا استعمال یکسر ختم کردیا جائے، تاہم ذیل کی احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کی جاسکتی ہیں:
٭ جہاں تک ممکن ہو، گھروں میں صفائی کا انتظام کیا جائے۔
٭ ہر قسم کی دوا خواہ وہ زہریلی ہو یا نہ ہو، بچوں کی پہنچ سے دور رکھنی چاہیے۔
٭ جتنی دوا کی ضرورت ہواتنی ہی خریدی جائے۔ نیز ادویہ ڈاکٹروں اور زرعی ماہرین کی ہدایت کے مطابق استعمال کی جائیں۔
٭ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ان ادویہ کی پیکنگ (ڈبے اور بوتلیں وغیرہ) بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور انسان کا جی چاہتا ہے کہ انھیں دھوکر محفوظ کرلیا جائے اور ان میں کوئی چیز ڈال لی جائے، لیکن ایسا کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے کیوں کہ حقیقت میں انہیں بار بار دھونے کے باوجود زہریلے اثرات ضائع نہیں ہوتے۔
٭ ادویہ کی خالی بوتلیں، ڈبے وغیرہ ناقابل استعمال بنادینے چاہئیں۔ انہیں چند پیسوں کے لالچ میں کباڑیوں کے ہاتھ بیچنا بھی قطعی مناسب نہیں۔
٭ کوئی دوا کسی اور شیشی میں نہ ڈالی جائے کیوں کہ دوا کا لیبل بدلنے کی وجہ سے وہ غلط طور پر استعمال ہوکر نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
٭ دوا سے حتی الامکان چہرہ، بالخصوص آنکھیں بچائی جائیں۔ ایسی ادویہ جنھیں پریشر پمپوں کے ذریعے چھڑکتے ہیں، استعمال کرتے وقت ناک اور منہ پر کپڑا باندھ لینا مناسب ہوتا ہے۔
٭ ایسی ادویہ استعمال کرنے کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھولینے چاہئیں۔ اس کے لیے بہتر ہو گا کہ صابن کا چھوٹا سا ٹکڑا استعمال کیا جائے اور استعمال کے بعد اسے پھینک دیا جائے۔
٭ زہریلی ادویہ کے لیبل یا ترکیب استعمال کے پرچے کم از کم اس وقت تک ضرور سنبھال کر رکھنے چاہئیں جب تک وہ ادویہ زیر استعمال رہیں کیوں کہ ان پر بالعموم زہر کے تریاق اور ان کی مقدار جیسی مفید معلومات درج ہوتی ہیں۔
٭ یہ بات اور بھی زیادہ مناسب ہوگی کہ ہر دوا اور اس کے تریاق کے نام یاد ہوں یا الگ نوٹ کرکے رکھے جائیں۔