صبح کی روشنی پھیلی تو ہر طرف دودھیا اجالا ہی اجالا بکھر گیا۔ وہ رنگ برنگے پھولوں کے درمیان کھڑا پرندوں کے گیتوں سے اپنی روح کو سیراب کر رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ فطرت کثافتوں سے پاک ہے۔ ’’میرا نام ساجد خان سنبل ہے۔ میں ہی اس نرسری کا مالک ہوں۔‘‘ میں نے اپنا تعارف کروایا ’’مالک…‘‘ وہ مسکرایا اور بولا، ’’آپ دو منٹ کے لیے اپنا سانس روک سکتے ہیں۔‘‘ میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا، ’’نہیں میں تو تیس سکینڈ بھی ایسا نہیں کرسکتا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ آپ کو اپنی سانسوں پر ہی اختیار نہیں تو ملکیت کا دعویٰ کرنا، کچھ عجیب سی بات نہیں؟ کھجور کی گٹھلی پر باریک سا جھلی نما ایک چھلکا ہوتا ہے، جسے قطمیر کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں، انسان اس کا بھی مالک نہیں، پھر اکڑ کیسی؟ سنو دنیا میں ملکیت نہیں ہوتی، صرف لیز ہوتی ہے۔ جس طرح زندگی کا خیمہ، موت کی ہوا سے کسی بھی لمحے اکھڑ سکتا ہے، بالکل اسی طرح یہ لیز کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے۔ میں خاموشی سے اسے تک رہا تھا، پھر اس نے نرسری کا بھرپو رجائزہ لیا، کچھ پودے خریدے اور چلا گیا۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔ اس دن کے بعد سے وہ اکثر نرسری آنے لگا اور جب بھی آتا، کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتا کہ میں ہفتوں سوچتا رہتا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہر چیز کا رزق ہوتا ہے اور دل کا رزق سکون ہے۔‘‘ اسی لیے وہ ہمیشہ پرسکون اور مطمئن دکھائی دیتا تھا، البتہ اس کی باتوں میں ایک عجیب سی تلخ سچائی کی کڑواہٹ شامل تھی۔ وہ ایک لکھاری تھا۔
میں نے ایک دن اس سے پوچھا: ’’بزمی! مجھے دنیا کی اور تمہاری اکثر باتیں سمجھ میں کیوں نہیں آتیں۔ بولا: ’’ساجد! دنیا، انسان اور اس کائنات کو سمجھنے کے لیے اپنی ذات کی قید سے نکلنا پڑتا ہے۔ جس روز اس قید سے آزاد ہوجاؤگے، سب کچھ سمجھ میں آنے لگے گا۔‘‘ میں کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا: ’’بزمی! تم نے کہاں تک تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘ سولہ سال تک معلومات ہی اکٹھی کرتا رہا، البتہ ماں اور استاد نے بچپن میں حروف تہجی یاد کروائے تھے، اب تو وہ بھی بھول گئے ہیں۔ بس الف اور میم ہی یاد رہ گئے ہیں۔ میرا باپ کہتا تھا، اگر الف اور میم ازبر ہوجائیں گے تو زندگی کا سارا قاعدہ حفظ ہو جاتا ہے اور لفظ زبان بن جاتے ہیں۔‘‘ بابا صحیح کہتے تھے۔ اب جب بھی میں لکھتا ہوں، تمام حروف ہاتھ باندھے میرے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میں نے ایک دن اپنے استاد محترم بابا عرفان الحق سے پوچھا تھا۔‘‘ بابا جی! کملی والے کیسے ملتے ہیں؟‘‘ استادِ محترم مسکرائے اور بولے: ’’اس کا بھی ایک کوڈ ہے۔ غور سے سنو، کملی والے کس کو ملے؟ سرکارِ دو عالمﷺ حضرت عبد اللہؓ اور بی بی آمنہؓ کو ملے۔ عبد اللہ کا مطلب ہوتا ہے اللہ کا بندہ اور آمنہ سے مراد امن دینے والی ہستی۔ تو اللہ کے بندے بن جاؤ محمدؐ مل جائیں گے، امن دینے والے بن جاؤ محمدﷺ مل جائیں گے۔‘‘
’’ساجد! تمہیں ایک بات بتاؤں، جب میں بہت چھوٹا تھا، تو گاؤں میں میرا ایک دوست رہتا تھا، جس کا نام کالو تھا۔ اس کے والد کا بہت پہلے انتقال ہوگیا تھا اور وہ اپنی ماں کے ساتھ ہماری ہی گلی میں رہتا تھا۔ کالو کو میلہ دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دن عصر کے وقت، میں نے گلی میں شور سنا۔ باہر نکل کر دیکھا تو کالو کی ماں، باصراں ننگے پاؤں اور کھلے بالوں سے گلی میں دوڑ رہی تھی اور چلا رہی تھی، ’’میرا کالو گم ہوگیا ہے، کسی نے میرا لال تو نہیں دیکھا۔‘‘ اس کو غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ گاؤں والے حوصلہ دے رہے تھے اور افسوس بھی کر رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ پاس والے گاؤں میں میلہ او رسرکس لگا تھا، جسے دیکھنے کے اشتیاق میں وہ دوسرے گاؤں چلا گیا۔ وہاں میلے ٹھیلے کی رونق اس قدر بھائی کہ سرکس والوں کے ساتھ ہولیا۔ اس دن کے بعد سے کالو کی ماں نے گھر کی دہلیز پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ ہر آنے جانے والوں سے یہی پوچھتی ’’بھائی! کسی نے میرا لال، کالو تو نہیںدیکھا۔‘‘ لوگ افسوس کرتے ہوئے گزر جاتے۔ پھر ہم گاؤں سے شہر آگئے۔ مجھے اب بھی کالو اور اس کی ماں بہت یاد آتے ہیں۔ کالو کی ماں کی آنکھوں کا کرب اور ہجر کی بے چینی مجھے سونے نہیں دیتی۔ کبھی کبھی تویوں لگتا ہے میں بھی کالو ہوں، جو زندگی کے میلے میں گم ہوگیا ہوں۔ جب میں اوپر امبر کی نیلی چھتری کو دیکھتا ہوں تو نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ کوئی پوچھ رہا ہے ’’تم نے میرا کالو تو نہیں دیکھا، جو دنیا کے میلے میں گم ہوگیا ہے؟‘‘ تم نے میرا بزمی تو نہیں دیکھا، جو دنیا کی سرکس میں محو تماشا ہے۔ جو موت کے کنویں میں چلتی سواری کو زندگی سمجھ رہا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے، کاش مجھے کالو مل جائے اور میں اسے سمجھاؤں کہ کالو جا، اپنی ماں کے پاس چلا جا، اس کے پاؤں پکڑ کر اس سے معافی مانگ لے۔ اس کے چاندی جیسے سفید بالوں کو چوم کر اسے مامتا کا واسطہ دے کر اس سے معافی مانگ لے۔ اگر ماں راضی ہوگئی تو رب راضی ہوجائے گا اور جب رب راضی ہوجائے تو ساری کائنات راضی ہو جاتی ہے۔ پھر اسے کسی تھیٹر، کسی سرکس، کسی میلے میں جانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ رب اُس کے من میں اتنے میلے لگا دیتا ہے کہ ساری خلقت میلوں دور سے اُن میلوں کو دیکھنے امڈ پڑتی ہے۔‘‘
مجھے یاد ہے میں نے ایک دن مہنگائی کا شکوہ کیا اور کہا: ’’اب تو پیٹ بھرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ پیسے میں برکت ہی نہیں رہی۔ لاکھوں کماؤ، لاکھوں خرچ ہوجاتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرایا اور بولا: ’’یہ پیٹ کی آگ کروڑوں ، اربوں سے بھی نہیں بجھنے والی۔ یاد رکھو، شکم کی آگ، صرف رزق حلال کے پانی سے ہی بجھ سکتی ہے۔‘‘ ایک روز باتوں ہی باتوں میں میں نے سوال کیا ’’بزمی! تقدیر کیا ہے؟ ذات کی نفی کیا ہے اور رب سے کیسے مانگا جائے؟‘‘ کہنے لگا:
’’ساجد اس دنیا میں کچھ بھی نیا اور باہر سے نہیں ملتا، وہی ملتا ہے، جو آگے بھیجا ہوتا ہے۔ آپ پھول بھیجتے ہیں یا کانٹے، دکھ دیتے ہیں یا سکھ، دعائیں دیتے ہیں یا پتھر پھینکتے ہیں، سب واپس لوٹا دیا جاتا ہے، مگر یہ کب لوٹایا جائے گا، اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔ رہی بات ذات کی نفی کی، تو اپنی مرضی اور خواہش کو اللہ کی خواہش اور مرضی کے تابع کرنے کا نام ذات کی نفی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر کچھ دیر رُکا اور پھر بولا: ’’کبھی دیکھا ہے، کسی کوڑھی کو؟ اسے بھیک مانگنے کے لیے گڑگڑانا یا التجا نہیں کرنا پڑتی، کہانیاں نہیں گھڑنا پڑتیں۔ اسے یہ نہیں بتانا پڑتا کہ اس کی زندگی کس قدر قابل رحم ہے یا اس کی صحت کس قدر خراب ہے یا اس کے جسم کے پودے کی خزاں سے کتنے اعضا جھڑ چکے ہیں یا چہرے کے دھبے کس قدر بد صورت داغوں میں بدل چکے ہیں۔ لوگوں کو اپنے چہرے کی جھلک دکھانا ہزار لفظوں کے برابر اثر رکھتا ہے۔ ہم بھی کوڑھی ہیں، مگر ہم اپنا کوڑھ چھپائے پھرتے ہیں۔ اپنے رب کے سامنے اپنے اندر کا کوڑھی باہر نکال کر مانگو، پھیلا ہوا ہاتھ خالی نہیں لوٹایا جائے گا۔ ساجد صاحب! ہر کھیل کا کوچ ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں زندگی کا کوئی کوچ نہیں۔ شاید کوئی زندگی کو احسن طریقے سے کھیلنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘ وقت دھیرے دھیرے بزمی کی رفاقتیں سموئے گزرتا رہا۔
آج بہت عرصے بعد دل بے حد اداس ہے۔ میں سردیوں کی سرد دھوپ میں اپنی نرسری میں تنہا بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ دس سال بیت گئے، بزمی نہیں آیا۔ شاید اب وہ کبھی نہ آئے کہ اس سے جو آخری ملاقات ہوئی تھی تب اس نے کہا تھا: ’’شاید اس کے بعد ہماری ملاقات نہ ہو۔ میں ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میں سچ لکھنا چاہتا ہوں، جو یہاں رہ کر ممکن نہیں۔ جاتے جاتے زندگی کا ایک بڑا راز بتانا چاہتا ہوں، زندگی کے پرچے کی تیاری مکمل رکھو، مگر رب سے ہر لمحہ یہ دعا مانگتے رہو کہ وہ امتحان نہ لے، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ تمہیں میری باتوں کی سمجھ نہیں آئے گی، کیوں کہ تمہاری زندگی تو فریم شدہ ہے، جس شخص کی زندگی بھی فریم شدہ ہو، اس کی زندگی کے موسم میں تبدیلی آتی ہے، نہ ماہ و سال بدلتے ہیں اور نہ ہی اسے زندگی کی سمجھ آیا کرتی ہے۔‘‘
وہ صحیح کہتا تھا:
’’فطرت جامد نہیں ہے، فصلوں بھرے کھیت جھومتے، لہلہاتے اور پرندے فضا میں گنگناتے اور اڑانیںبھرتے ہی اچھے لگتے ہیں۔‘‘ اور میں نے ایک عرصے سے زندگی کی تصویر کو فریم سے باہر نکالا ہی نہیں تھا۔lll