مسلم کشی کے لئے معروف زمانہ گجرات فسادات کے ۲۱ سال پرانے بیسٹ بیکری کیس میں کل باقی ماندہ ۲ ملزمان کوبھی ممبئی کی عدالت کے ذریعہ ناکافی ثبوتوں کے سبب بری کردیا گیا۔
۲۰۰۲ کے گجرات نرسنہار کے وقت یکم مارچ کو بیسٹ بیکری کے مالک کے اہل خانہ کے ساتھ کل ۱۴ افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ مشتعل ہجوم نے بیکری میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے کے بعد آگ لگا دی تھی جس میں ۱۴ افراد ہلاک اور کچھ شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس کیس میں گجرات پولیس نے ۲۱ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
دو دہائیوں سے بھی زیادہ طویل چلنے والےاس کیس مین مختلف موڑ اور مراحل آئے جس میں سب سے پیچیدہ موڑ وہ تھا جب واقعے کی چشم دید گواہ اور مقدمہ کی اہم فریق ظہیرہ شیخ ’کسی سبب‘ اپنے بیان سے متعدد بار پھرتی چلی گئی اور ناکافی ثبوتوں کی بنا پر۲۰۰۳ میں تمام ملزمان بری کردئے گئے۔ متاثرین نے سپریم کورٹ کا رخ کیا اور اس کے حکم پر مقدمہ کو گجرات سے باہر مہاراشٹر منتقل کردیا گیا۔ مہاراشٹر کی عدالت نے ۲۰۰۶ میں ۹ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی اور ۸ کو بری کردیا جبکہ اس کیس کے ۴ ملزم مفرور رہے جنہیں ۲۰۱۳ میں گرفتار کیا گیا۔ ۲۰۰۶کےاس فیصلے سے ناخوش متاثرفریق نے دوبارہ عدالت کا رخ کیا اور عدالتی کاروائی کے بعد ۹ میں سے مزید ۵ افراد کو رہا کردیا۔ دو افراد کی موت ہوگئی اور باقی ماندہ دو افراد بھی کل ۱۳ جون کو ثبوتوں کی کمی کے سبب بری کر دئے گئے اور آخر کار ۲۰ سالہ طویل کاروائی کے بعد ممبئی کی عدالت بھی وہیں پہنچی جہاں ۲۰۰۳ میں گجرات کی عدالت پہنچی تھی۔
اب جبکہ دو دہائیوں پر محیط عدالتی کاروائی اپنے اختتام کو پہنچ گئی اور مقدمہ کی فائل بند ہونے کے مرحلے میں ہے، یہ سوال منھ چڑھاتا محسوس ہوتا ہے کہ آخران ۱۴ افراد کا قاتل کون تھا اور انہیں کیا سزا دی گئی۔
راجدھانی میں بھیانک قتل
۲۹ مئی کو ملک کی راجدھانی دہلی نے جرائم کی تاریخ کا ایک بدترین اور دل دہلا دینے والا جرم دیکھا کہ ایک نوجوان نے ۱۶ سالہ لڑ کی پر کھلےعام چاقووں سے حملہ کرکے قتل کر دیا۔ مجرم نے اس گھناؤنے جرم کو عوامی جگہ (پبلک پلیس) پر انجام دیا اور اس نے چاقو سے اس پر ۳۴ وار کئے اس کے بعد ایک بھاری پتھر سے اس کا سر کچل دیا۔ اس پورے واقعہ کا گھناؤنے جرم کے علاوہ دوسرا تاریک ترین پہلواجتماعی و سماجی بے حسی کا تھا کہ پوری واردات کو آنے جانے والے لوگ دیکھتے اور گزرتے گئے اور کسی نے بھی نہ تو مجرم کا ہاتھ پکڑنے کی ہمت کی اور نہ مظلوم کی مدد کرنے کوکوئی آگے آیا۔ پوری واردات قریب میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہوگئی اور دن بھر شوشل میڈیا پرچھائی رہی۔
دہلی ملک کی راجدھانی ہے مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی جرائم کی راجدھانی بھی بنتی جارہی ہے، خصاصا خواتین کے خلاف جرائم کے معاملے میں، اور یہ بات یہاں ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار سے بھی ثابت ہوتی ہے۔
دہلی کی پولیس کیونکہ مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے اس لئے یہاں جب کوئی بڑا حادثہ یا جرم ہوتا ہے تو اس پر سیاست ہونا اب عام بات بن گئی ہے۔ریاستی حکومت یہاں ہونے والے جرائم کا بھانڈا مرکزی سرکار کے سر پر پھوڑتی ہے اور اس کا ماننا ہوتا ہے کہ دہلی کی پولیس کیونکہ مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے اس لئے وہ اس معاملہ میں بے دست وپا ہے جبکہ مرکزی حکومت اسے نظم و انتظام کی خامی گردانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی و ریاستی دونوں حکومتوں کو اس سلسلے کی جواب دہی سے بری نہیں کیا جا سکتا جبکہ پولیس کی قیادت اسکے ہاتھ میں ہونے کے سبب اور ملک کی راجدھانی ہونے کی وجہ سے بھی مرکزی حکومت کواس بارے میں زیادہ ذمہ دار اور جواب دہ ہونا چاہئے۔
دہلی کے اس واقعے نے دہلی کے نام نہاد پڑھے لکھے اور باشعور طبقہ کے اجتماعی شعور اور رویہ کی بھی قلعی کھول دی اور یہ بتا دیا کہ اہل دہلی کے سر پر اب سماجی تحفظ کی ممکنہ شیلڈ باقی نہیں رہی ہے۔ اگرچہ اس کا احساس اس سے پہلے سڑک حادثوں کے وقت زخمی افراد کو سڑک پر بے یار و مددگار پڑا رہنے پر ہوچکا تھا مگر اس سلسلے میں حکومت نے عوام کو اطمینان دلایا تھا کی ایسی صورت میں جو شخص متاثر فرد کی مدد کرے گا اور اسے اسپتال پہنچائے گا پولیس یا انتظامیہ اس سے سوال وجواب کرکے اسے پریشان نہیں کرےگی، اور بعض صورتوں میں تو ریاستی حکومت نے لوگوں کو اعزازات بھی دئے، مگر اس صورت میں حکومت کیا کرسکتی ہے ہنوز کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کا ہر شہری دوسرے شہری کی جان و مال اور عزت آبرو کے تحفظ کے لئے حساس رہے اور اس کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہ کرے مگر ارباب اقتدار اور پولیس انتظامیہ نے عوام کو ایسی صورت حال پر لا چھوڑا ہے کہ ہر آدمی اپنے تحفظ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔ یہ چیز سماج اور انتظامیہ اور حکومت دونوں کی ناکامی کا مظہر ہے۔