گداگر

ایرینا ایڈیڈو/سید عاصم محمود

ابا جان! اب وقت آگیا ہے کہ آپ بھیک مانگنا چھوڑ دیں۔ آپ کو ذرا سا بھی احساس نہیں کہ اس وجہ سےہم کتنی مشکل میں ہیں۔ ہرجگہ ہمیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔‘‘
’’وہ کیوں بھئی، محنت کرنا تو کوئی شرم کی بات نہیں۔‘‘
’’محنت میں واقعی کوئی شرم نہیں، لیکن آپ بھیک مانگتے ہیں، جو ہرگز محنت نہیں بلکہ سراسر فریب ہے۔‘‘
’’منہ سنبھال کر بات کرو اور مجھے گالی مت دو۔‘‘
’’ابا جان! سمجھنے کی کوشش کیجیے، آپ بھیک مانگنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘
’’نہیں، میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اور تمہارا بھائی نہ جانے کیوں ہر وقت مجھ پر نکتہ چینی کرتے رہتے ہو۔‘‘
’’یہ نکتہ چینی درست ہے ابا جان! جب آپ روزانہ چوراہے پر بیٹھے، گزرنے والوں کے چند سکوں کا انتظار کرتے ہیں، تو اس طرح ہم سخت اذیت محسوس کرتے ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟ کیا میں اس طرح کسی کے لیے باعث ِ زحمت بنتا ہوں؟‘‘
’’مجھے آپ کے سوال پر حیرانی ہے۔ آپ یقیناً ہمارے لیے زحمت کا باعث بنتے ہیں۔ ہماری غیرت اور خودداری کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔‘‘
’’تم نے پھر میری توہین کی۔‘‘
’’میں اس وقت تک آپ کی توہین کرتا رہوں گا جب تک آپ لوگوں کو فریب دینا چھوڑ نہیں دیتے۔‘‘
’’لوگوں کو فریب! کیا مطلب؟ صاف صاف بات کرو۔ میں تو ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا، چپ چاپ اسٹول پر بیٹھا لوگوں کو گزرتے دیکھتا رہتا ہوں۔‘‘
’’آپ درست کہتے ہیں لیکن اپنی معصوم نیلی آنکھوں سے لوگوں پر نظریں ڈالتے ہوئے اور پاؤں پر پڑے کشکول کے ساتھ۔‘‘
’’اگر میری آنکھیں نیلی ہیں تو یہ میرا قصور نہیں۔ اگر راہگیر میرے کشکول میں چند سکے پھینک دیتے ہیں، تو میں انہیں ایسا کرنے کو نہیں کہتا۔‘‘
’’لیکن وہ آپ کا فرشتے جیسا چہرہ دیکھ کر سکے پھینکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دراصل وہ آپ پر رحم کھاتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو ان کی مہربانی ہے لیکن میں تو ان سے کچھ نہیں کہتا لہٰذا تم مجھ پر لوگوں کو فریب دینے کا الزام نہیں لگاسکتے۔‘‘
’’ابا جان! صرف الفاظ ہی سے کسی کو فریب نہیں دیا جاتا، کئی اور طریقے بھی ہیں۔ ظاہر ہے آپ انھیں بڑی عمدگی سے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا تم میری دلکشی اور معصومانہ دل آویزی کو برا سمجھتے ہو؟‘‘
’’اس لیے کہ آپ ان سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘
’’مگر کس طرح؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آخر میرے کام میں خرابی کیا ہے؟‘‘
’’اوہو! اب مجھے ساری کہانی نہیں دہرانی، اصل بات کی طرف آئیے۔ ابا جان جب کوئی فرد بھیک مانگنے کا پیشہ اپنالے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر مایوس ہوچکا ہے۔‘‘
’’یہ بات کس احمق نے کہی؟‘‘
’’ہر انسان کہتا ہے اور میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ گدا گری انسانیت کی توہین ہے۔‘‘
’’بکواس! گداگری ایک فن ہے۔‘‘
’’واہ! آپ کے خیالات تو بہت اونچے ہیں۔‘‘
’’بالکل نہیں، میں مٹی سے بنا ہوا معمولی انسان ہوں اور مجھے مبالغہ قطعاً پسند نہیں۔‘‘
’’یہ بات بھی خوب ہے، ایک فن کار کو انکسار پسند ہی ہونا چاہیے۔‘‘
’’مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے یہ بات تسلیم کرلی۔‘‘
’’ابا جان! یہ مذاق نہیں سنجیدگی کا وقت ہے۔ آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ لوگ اسے خیرات دیتے ہیں جس کے بارے میں یہ خیال کریں کہ اس کے پاس ایک وقت کا بھی کھانا نہیں۔‘‘
’’تمھیں کیسے معلوم؟‘‘
’’کیونکہ میری سوچ بھی یہی ہے۔ میں جب بھی کوئی بھکاری دیکھوں تو غیر ارادی طور پر اسے کچھ دینے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
’’تو پھر مجھے یہ کہنے دوکہ تمہارا دماغ صحیح کام نہیں کررہا۔‘‘
’’اچھا! آپ کے خیال میں میرے دماغ کو کیسے کام کرنا چاہیے؟‘‘
’’آزادی اور عملی جذبے سے، تمھیں سوچنا چاہیے کہ اگر یہ آدمی گدا گر ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ایسی ملازمت مل گئی جو اس کے معیار پر پوری اترتی ہے اور جس سے وہ اپنا مستقبل بہتر بناسکتا ہے۔‘‘
’’بہتر مستقبل! آپ یقیناً مذاق کررہے ہیں۔ گداگری بطورِ ملازمت؟ ہونہہ!!‘‘
’’میں نے صحیح کہا اور ملازمت بھی ایسی جو بہت منافع بخش ہے۔ اس میں مزاحیہ بات کون سی ہے، تمھیں تو میرے پیشے کا شکر گز ار ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کے ذریعے تم اور تمہارے بھائی کا کاروبار شروع ہوا اور تم دونوں امیر اور عزت والے بن گئے۔ یہ ناشکری ہے کہ تم آج اسی پیشے کو حقارت سے دیکھ رہے ہو۔ میں یہ پیشہ ہرگز ترک نہیں کرسکتا کیونکہ یہ مجھے جان سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ جب میں بغل میں اسٹول دبائے اور ہاتھ میں کشکول پکڑے اپنے ٹھکانے پر جانے کے لیے بس میں چڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرا نیا جنم ہے۔ میں مسرت کا راز پاچکا ہوں اور کسی کو اپنا یہ معصوم جذبہ ہتھیانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ سمجھ گئے تم؟‘‘
’’اور ہماری خوشیاں کہاں جائیں گی؟ ہمیں ان سے محروم کرنے کا آپ کو کوئی حق حاصل نہیں۔‘‘
’’میں نے تم لوگوں کو کسی خوشی سے محروم نہیں رکھا۔ اگر تم ایسا سوچتے ہو تو یہ نہایت بے ہودہ سوچ ہے۔ میں نے تمہاری ماں کے مرنے کے بعد تم دونوں کو دن رات محنت کرکے پالا پوسا اور بڑا کیا۔ میں نے تمہیں اعلیٰ تعلیم دلائی اور زندگی میں آگے بڑھنے کا سلیقہ سکھایا۔ گھر تعمیر کروانے میں تمہاری مدد کی پھر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ اب تم خود اپنی زندگی کے مالک ہو۔ تمہارے بیوی بچے ہیں اس لیے ان پر توجہ دو اور خدا کے لیے مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ مجھے یہ حق حاصل ہے کہ جو میرا دل چاہے، کروں۔ میں آزاد رہنا چاہتا ہوں، سمجھ گئے؟ میں نے ہمیشہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے گزر بسر کی ہے۔‘‘
’’لیکن اب آپ کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے ابا جان! میں یہی بات آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں۔ اب ہم موجود ہیں، آپ کے بچے۔ اب ہماری باری ہے کہ آپ نے ہمارے لیے جو کچھ کیا اسے لوٹائیں۔ ہم ہر مہینے آپ کو اتنی ہی رقم دینے کے لیے تیار ہیں جتنی آپ بھیک سے کماتے ہیں۔‘‘ 
’’یہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’یا خدا! آپ تو ہٹیلے بیل کا کردار ادا کررہے ہیں۔‘‘
’’میں ہٹیلا بالکل نہیں، لیکن تم جو کہہ رہے ہو وہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’کیا نہیں ہوسکتا؟‘‘
’’یہی کہ تم لوگ ہر مہینے مجھے اتنی رقم دوگے جتنی میں بھیک سے کماتا ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تم دونوںچھ ماہ میںبھی اتنا نہیں کما سکتے، جتنا میں ایک ماہ میں کما لیتا ہوں۔‘‘
’’آپ مذاق بہت کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا مت کرو یقین، تمہیں اسی وقت یقین آئے گا جب میری وصیت دیکھوگے۔‘‘
’’وصیت؟ کیا آپ نے کوئی وصیت لکھی ہے؟‘‘
’’ہاں، دو سال پہلے، میںاپنے کام وقت سے پہلے کرلیتا ہوں۔‘‘
’’یہ آپ کی ایک اور خوبی ہے۔ وصیت کس کے پاس ہے؟‘‘
’’میرے وکیل کے پاس، اور کس کے پاس۔‘‘
’’وکیل کا نام کیا ہے؟‘‘
’’یہ خفیہ ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ذاتی وجوہ کے باعث۔‘‘
’’پھر ہمیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ وصیت کس کے پاس ہے؟‘‘
’’یہ ضروری نہیں کہ تم اس کے پیچھے بھاگتے پھرو۔ وقت آنے پر میرا وکیل خود تم سے رابطہ قائم کرلے گا۔‘‘
’’آپ تو اتنے سکون سے یہ بات کہہ رہے ہیں جیسے موضوع گفتگو رات کا کھانا ہے۔‘‘
’’یہی تو زندگی ہے میرے بیٹے … ایک ایسی بڑی دعوت جو آخر ایک دن اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ ہم سب اس بات سے واقف ہوتے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ کوئی اسے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور کوئی کم۔ جب تم میری عمر کو پہنچوگے تو تمھیں بھی موت قریب کھڑے نظر آئے گی۔‘‘
’’وصیت آپ کے وکیل کے پاس ہے؟‘‘
’’ہاں، بتایا تو ہے۔‘‘
’’ابا جان! مجھے بے وقوف مت بنائیے۔‘‘
’’تو تمھیں ابھی تک یقین نہیں آیا؟‘‘
’’بالکل نہیں، آپ کے پاس آخر ہے کیا؟ قارون کا خزانہ تو ہے نہیں، جو آپ وصیت میں ہمارے لیے چھوڑ رہے ہیں۔‘‘
’’میں تمھیں ابھی مکمل تفصیل سے آگاہ نہیں کرسکتا لیکن چند پلاٹ، کچھ رہائشی فلیٹ، بینک میں موجود رقم اور بہت سارا سامان وصیت میں درج ہے۔ میرے مرنے کے بعد تمھیں ان کی بابت معلوم ہوجائے گا اور یقیناً اس وقت تک جائداد بڑھ جائے گی اگر میں نے اپنا کام جاری رکھا۔ کتنی زیادہ، یہ مجھے معلوم نہیں،یہ تو اس پر منحصر ہے کہ میں مزید کتنا جیتا ہوں۔ اسی لیے میں نے اپنی وصیت بھی عارضی ہی رکھی ہے۔‘‘
’’خدا کے لیے بس کیجیے ابا جان! آپ تو مجھے پاگل کررہے ہیں۔ مجھے صرف یہ بتائیے کہ سچ کیا ہے؟‘‘
دیکھو لڑکے، اب تم مجھے غصہ دلا رہے ہو۔ شاید تم میرے صبر کا امتحان لینا چاہتے ہو۔میں پوچھتا ہوں کہ میں نے کبھی تم سے جھوٹ بولا ہے، تو پھر اب بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ شاید تم اپنے باپ کو اچھی طرح نہیں جانتے۔‘‘
’’نہیں، خوب جانتا ہوں۔ اسی لیے تو میرے دل میں شک موجود ہے۔‘‘
’’اچھا، میری جاسوسی تم کب سے کرنے لگے؟  بہرحال میںکاغذ پر اپنے وکیل کا نام لکھ دیتا ہوں، اس سے مل لو تاکہ تمہارے شبہے رفع ہوجائیں۔‘‘
’’یہ ہوئی نا بات، میں ضرور جاؤں گا۔‘‘
’’ضرور جاؤ، میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ دراصل تمہاری باتیں سن کر میرے خیالات بدل گئے ہیں۔ اب تصویر کا دوسرا رخ میرے سامنے ہے جو مجھے بہتر لگتا ہے۔ شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو، یہی وقت ہے کہ میں گداگری کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ دوں۔‘‘
’’ابا جان! آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے آپ کو محض تجویز پیش کی تھی، اسے اتنی سنجیدگی سے مت لیں۔ آپ اپنے پیشے سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو اسے چھوڑنے کی تک نہیں بنتی۔ویسے بھی بھیک مانگنے سے تھکن نہیں ہوتی اور آپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ میں اسے بہت پسند کرتا ہوں۔ آپ کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ آپ کے جی میں جو آئے، کیجیے، کوئی آپ پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگا سکتا۔‘‘
’’تمہاری بات تو ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ اپنا کام جاری رکھیں گے نا؟‘‘
’’فی الحال میں کچھ کہہ نہیں سکتا، یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ارے ہاں، مجھے وکیل کا پتا تو بتادیں۔‘‘
’’پتا… میں آخری بار دو سال پہلے اس کے دفتر گیا تھا اس لیے پتا میرے ذہن سے محو ہوگیا۔ تم ٹیلی فون ڈائریکٹری سے اس کا پتا لے لو، اس کا نام ایرک اولینڈ ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں آج ہی پتا دیکھتا ہوں۔ اب آپ کیا میری کار میں چلنا پسند کریں گے؟‘‘
’’نہیں، بہت بہت شکریہ، آج میرا کام ختم ہوچکا ہے۔‘‘
’’اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ہرروز آپ کو اپنی کار میں لے جاسکتا ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی البتہ آپ ان تکالیف سے بچ جائیں گے جو آپ دورانِ سفر بس میں برداشت کرتے ہیں۔‘‘
’’بہت خوب، میں نے تمہاری تجویز نوٹ کرلی ہے۔ اگر میں نے اپنا کام جاری رکھا تو پھر ؟‘‘
’’میرا خیال ہے آپ یہی فیصلہ …‘‘
’’دیکھوں گا، دیکھوں گا۔‘‘
’’اچھا ابا جان! میں اب چلتا ہوں۔ مجھے کچھ ضروری کام ہے۔‘‘
’’ہاں، ہاں جاؤ، تم میری فکر مت کیا کرو۔‘‘
’’آپ مسکرا کیوں رہے ہیں ابا جان!‘‘
’’مجھے ابھی ابھی محسوس ہوا ہے جیسے میں کسی کو زحمت دے رہا ہوں۔‘‘
’’بالکل نہیں، آپ کیسی باتیں کررہے ہیں، کون ہے وہ؟‘‘
’’شاید …. شاید تم۔‘‘
’’فضول باتیں مت کیجیے، اچھا، مجھے اجازت دیں، کل ملاقات ہوگی۔‘‘
’’شاید، شاید۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں