مغرب کے مفکر ڈارون کا خیال تھا کہ ابتدا میں انسان ’’بندر‘‘ تھا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست نے یہ نئی تھیوری پیش کی ہے کہ انسان ابتدا میں ’’پریکٹیکلی گدھا‘‘ تھا۔
جب انسان کی سمجھ میں گدھے کا مصرف آیا تو اس نے اپنا سارا بوجھ گدھے پر ڈالنا شروع کردیا۔ تاریخ کا یہی وہ نازک موڑ تھا، جب انسان اور گدھے میں تمیز بڑھتی چلی گئی۔ اس تمیز سے فائدہ اٹھا کر انسان، انسان بنتا گیا اور گدھا اس تمیز سے فائدہ اٹھا کر ’’بدتمیز‘‘ بنتا گیا۔ اس تفریق کے باوجود اب بھی بعض انسانوں میں گدھے جیسی خصلتیں پائی جاتی ہیں۔ گدھے کی طرح لوٹنا، اینٹھنا، کھانا اور جُتنا بعض انسانوں کا بھی محبوب مشغلہ ہے۔
جب سے انسان کی سمجھ میں گدھے کا مصرف آیا ہے۔ انسان مسلسل گدھے پر دباؤ بڑھاتا رہا ہے۔ البتہ انسان نے کبھی کبھی گدھے کو ریلیف بھی دیا ہے۔ مثلاً گدھا سواری کے کام آتاتھا۔ مگر اب عموماً نہیں آتا۔ ایک ’’گدھا دوست‘‘ شخصیت کا خیال ہے کہ اگر سفرکے لیے گاڑیاںایجاد نہ ہوتیں، تو جدید دور کا انسان گدھے کو ۱۲۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے پر مجبور کردیتا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ گدھا کبھی کسی گاڑی کو نہیں مارتا بلکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی گاڑی کسی گدھے کو مارجائے۔ گدھا عام طور پر کسی انسان کو دولتی مارتا ہے جو اکثر نشانے پر نہیں لگتی اور پھر گدھا اپنے گدھے پن سے مجبور ہوکر ’’ڈھینچو، ڈھینچو‘‘ کرکے چپ سادھ لیتا ہے۔گدھے کو اللہ تعالیٰ نے بہت منفرد آواز عطا کی ہے جس کے ذریعہ وہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ گدھے کو آواز عطا نہ کرتا تو بہت سے لوگ یا تو گدھے سے واقف نہیں ہوتے یا پھر وہ گدھے کو ’’بے زبان جانور‘‘ سمجھتے۔
گدھا بہت مظلوم جانور ہے اور گدھی نہایت شریف جانور ہے جو ایک کے بعد ایک گدھے کو جنم دیتی ہے اور انسانیت کی خدمت کا سامان پیدا کرتی ہے۔ گدھے کے حوالے سے ہمارے ایک دوست نے ایک اہم بات کی جانب ہمیں توجہ دلائی۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ گدھے کے بچے بہت ہوتے ہیں۔ ہم نے پوچھا : ’’وہ کیسے؟‘‘ کہنے لگے ایک وہ جو گدھے کے اپنے بچے ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں انسان ’’گدھے کا بچہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ بہر حال گدھا ہو یا گدھے کا بچہ دونوں انسان کی خدمت کے کام آتے ہیں۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں ان کی ’’خدمات‘‘ دہری ہوجاتی ہیں۔ کوئی گدھے کو گدھا سمجھے یا نہ سمجھے اس سے گدھے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر آپ کسی انسان سے کہیں کہ آپ گدھے ہیں تو وہ کبھی اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرے گا۔ البتہ الٹا لڑنے کو تیار ہوجائے گا۔ اگر موصوف کا کوئی چھوٹا بچہ ہو اور وہ انہیں تنگ کرے تو وہ فوراً یہ کہہ کر اپنے گدھا ہونے کا اعتراف کرلیتے ہیں ’’گدھے کے بچہ!‘‘ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب انسان از خود اپنے گدھا ہونے کا اعتراف کرلیتا ہے۔ ورنہ لوگ صرف دوسروں کو گدھا سمجھتے ہیں۔ بعض اساتذہ اپنے بعض طالب علموں کو، بعض والدین اپنے بچوں کو بعض مالکان اپنے ملازمین کو اور بعض لیڈر اپنے بعض کارکنوں کو گدھا سمجھتے ہیں۔ غالباً وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ انسان کے مقابلے میں گدھے کی کم عقلی کو بنیاد بناتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو کہ انسان کے مقابلے میں گدھا کم عقل ہو مگر گدھے کی باقی سب چیزیں بڑھی ہوئی ہیں۔
ہمارے ملک میں گدھے کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی، جتنی مہذب معاشروں میں جانور کو دی جاتی ہے۔ وطن عزیز کے گدھے اکثر اپنی ناقدری پر آنسو بہاتے ہیں، جس کے باعث عموماً ان کی آنکھیں نم رہتی ہیں۔ یہ گدھے یورپ اور امریکہ کے گدھوں پر رشک کرتے ہیں، جہاں انھیں جانور کے علاوہ تقدس کی نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے۔
ایک سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران گدھے کو اپنا انتخابی نشان بنایا تھا۔ نتیجتاً پورے امریکہ میں گدھوں کی بہتات ہوگئی تھی۔ انتخابی میٹریل گدھوں کی تصویروں سے بھرا ہوتا تھا اور بالآخر لوگوں نے گدھے پر مہریں لگا کر امریکہ کی قسمت کا فیصلہ کردیا۔ جب جمی کارٹر انتخاب جیت گئے تو لوگ کہنے لگے، گدھے والی پارٹی جیت گئی۔ ہمارے خیال میں ماہرین کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ گدھے کو نتھی کرنے سے جمی کارٹر کے دورِاقتدار پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ بہر حال امریکہ میں گدھے کو سیاست میں آگے رکھا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں گدھے کو سیاست میں پیچھے رکھا جاتا ہے البتہ کبھی کبھی درمیان میں بھی بعض گدھے نظر آجاتے ہیں۔
ہماری عملی زندگی میں گدھے کو جو مقام حاصل ہے اس سے قطع نظر گدھا اردو ادب کا بھی ایک اہم موضوع رہا ہے۔ بڑے بڑے ادیب اور دانشور گدھے کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔ کرشن چندر جیسے بلند پایہ ادیب نے تو ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘ لکھ کر گدھے کو ان انسانوں سے زیادہ اہمیت دے دی تھی جن پر انھوں نے قلم نہیں اٹھایا۔ گدھا ہماری فلموں کا موضوع بھی رہا۔ گدھے کی اہمیت سے متاثر ہوکر ہمارے ایک دوست ان دنوں ’’گدھا لوجی‘‘ پر پی ایچ ڈی کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔بلاشبہ گدھا وہ جانور ہے جو انسان کی گھوڑوں سے زیادہ خدمت کرتا ہے لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انسان نے گھوڑوں کے لیے تو اصطبل بنا رکھے ہیں لیکن گدھوں کے لیے کوئی اصطبل نہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے آس پاس جگہ جگہ گدھے نظر آتے ہیں۔