گردش روز و شب

۔۔۔۔۔۔۔

سفر وسیلۂ ظفر ہے۔ انسان کی زندگی سفر ہی کی ایک کہانی ہے۔ کبھی یہ کہانی پُر کیف ہوتی ہے کبھی غم ناک۔ انسان کی عدم سے اس دنیا میں آمد بھی سفر ہے اور یہاں سے روانگی بھی سفر۔ انسان بقول کسے عدم سے لمبا سفر کرکے ننگ دھڑنگ یہاں آتا ہے اور کفن کا ایک ٹکڑا لے کر یہاں سے چلا جاتا ہے۔ اتنی معمولی سی چیز کے لیے اتنا طویل سفر!!

سفر ملاقات کا باعث بھی بنتا ہے، اور ہجر و جدائی کے زخم بھی لگاتا ہے۔ آج مجھے اپنی زندگی کے سفر کی منزلیں یاد آرہی ہیں۔ یہ سفر تنہا میرا سفر نہیں۔ یہ مجھ جیسے بے شمار لوگوں کے سفر کی کہانی ہے۔ سفر وسیلۂ ظفر کے تصور نے ہمیشہ بچوں کو ماں باپ سے، بھائیوں کو بہنوں سے جدا کیا۔ یہ تصور میاں بیوی کے درمیان پہاڑ بن کر حائل ہوجاتا ہے۔

میں ابھی بہت چھوٹا سا تھا کہ میرے والدین نے مجھے حصولِ تعلیم کے لیے اپنے چھوٹے سے گاؤں سے ذرا دور ایک اسکول میں داخل کرادیا، فاصلہ کچھ اتنا زیادہ بھی نہ تھا مگر میرے ذہنی افق کے لیے اس زمانے میں یہ فاصلہ بھی بعد المشرقین کی مانند تھا۔ ایک دن کے لیے گھر آنا کس قدر خوشگوار معلوم ہوتا تھا۔ ہفتے بھر ایک ایک لمحہ گن گن کر گزارتا اور شام کو چارپائی پر لیٹتے وقت آرزو ہوتی کہ خواب میں گھر پہنچ جاؤں۔ ماں کی پیار بھری آغوش میں سر رکھ دوں۔ باپ کے مضبوط بازوؤں کے حلقے میں جھولا جھولوں، چولہے کے پاس بیٹھ کر بہن بھائیوں سے ضد کروں کہ پہلی روٹی میں لو ںگا…

ہفتے کا آخری دن تو زیادہ بوجھل ہوجایا کرتا تھا۔ خدا خدا کرکے چھٹی کی گھنٹی بجتی تو دل کے تار اندرونی کیف و مستی کی موسیقی سے بج اٹھتے۔ گردو نواح کی ہر چیز حسین نظر آتی، پرندوں کے چہچہانے میں عجیب لطف کا احساس ہوتا، سائیکل ہوا میں اڑتی ہوئی محسوس ہوتی، کچے اور غیر ہموار راستے، اڑتی ہوئی دھول، تنگ پگڈنڈیاں، سبھی خوبصورت نظر آتے۔ کھیتوں میں کام کرکے کسانوں کے چہرے بھی شاداں و فرحاں لگتے۔ اگر فراق کا غم نہ اٹھاتا تو وصال کے اس جاں فزا تصورو احساس سے روشناس کیسے ہوتا؟ یہ خوشی و مسرت دراصل فراق کے غم و حزن کی مرہونِ احسان ہے۔ انہی خیالات میں غرق سرِ شام گھر پہنچ جاتا۔ گاؤں کے درودیوار ، درخت اور کھیت، جانور اورپرندے، چوپال میں حقہ پیتے ہوئے نحیف بوڑھے اور گلی کوچوں میں کودتے ہوئے شریر بچے ہر چیز خوش و خرم نظر آتی۔

جب سے انسان نے سورج کی روشنی میں زندگی کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ ہر شام کو دنیا کے ہر خطے میں لا تعداد مائیں گھروں کی دہلیز پر اپنے جگر گوشوں کا استقبال کرتی ہیں۔ ماں بیٹوں کا ملاپ کیا ہی جاں فزاں ہوتا ہے۔ میری طرح لاتعداد افراد کی زندگی میں وہ یاد گار لمحات ضرور آئے ہوں گے۔ جب گھر کی دہلیز پر مامتا کے شیریں اور گھنے چھپر نے انہیں اپنے سائے میں لے لیا ہوگا۔ یہ عمل ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

گھر سے اسکول جانے کا کٹھن مرحلہ بھی اسی طرح یادگار ہے جس طرح واپسی کا دلربا لمحہ، صبح سویرے ہر چیز اداس اور ہر منظر ماتم کناں نظرآتا۔ پرندے اور جانور بھی مغموم اور درودیوار بھی حسرت زدہ۔ گاؤں کے پرائمری اسکول میں زیرِ تعلیم بچوں پر رشک کرتا مگر پھر خیال گزرتا کہ یہ بے چارے بھی چند ہی سالوں کے مہمان ہیں۔ سائیکل پر سوار ہوتا تو پاؤں من من کے معلوم ہوتے۔ سائیکل چیونٹی کی چال چلتی۔ راستے میں اپنے دوسرے ہم جولی ملتے تو ذرا جان میں جان آتی۔ رفتار تیز ہوتی، اداسی کسی حد تک کم ہوتی اور ہم بروقت ذرا تاخیر سے اسکول پہنچتے۔ ہفتے کا پہلا دن بھی آخری دن کی طرح خاصا بوجھل محسوس ہوتا۔ جسم اسکول میں ہوتا اور دل گھر میں۔ سورج ڈوبنے کا منظر یہاں بھی وہی ہوتا جو اپنے گاؤں میں ہوسکتا تھا۔ مگر معلوم نہیں کیوں چشم تصور میں رہ رہ کر خیال آتا کہ گاؤں کے خوش قسمت لوگ سورج ڈوبنے کا حسین منظر دیکھ رہے ہوں گے۔ کھیتوں سے لوٹتے ہوئے شکم سیر مویشی ، اس گاؤں میں بھی ہر شام کو نظر آتے تھے مگر نہ جانے کیوں اپنے گاؤں کے مویشیوں اور چرواہوں کو دیکھنے کی حسرت سے دم گھٹنے لگتا۔

اسکول کا زمانہ گزرا، کالج میں داخلے کا مرحلہ آیا۔ گھر سے سینکڑوں میل دور اجنبی ماحول میں جانے کے تصور ہی سے جھرجھری سی آجاتی۔ وہاں نہ کوئی واقف کار، نہ کوئی شناسا۔ ماں باپ اور اعزہ و اقربا نے رخصت کیا۔ بظاہر خوشی کا مرحلہ بھی غم کے سایوں کی نذر ہوگیا۔ کالج تک پہنچنے کے لیے ریل گاڑی، پھر بل، پھر تانگے کا سفر۔ رہ رہ کر خیال آتا کہ ہائی اسکول میں زیر تعلیم طلبہ کتنے خوش قسمت ہیں کہ گھر کے کتنے قریب ہیں۔ آٹھویں دین تو گھر آہی جاتے ہیں۔ اگر ہفتہ کے دوران میں بھی جی گھبرائے تو بغیر کسی مشکل کے چھٹی لے کر گھر آسکتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں سے آنے والے اکثر طلبہ کے یہی تصورات ہوا کرتے تھے۔ مگر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تصورات بھی دھندلانے لگے۔ شہر کی چکا چوند نے اپنے اندر جذب کرلینے کا سامان کرلیا۔

گھر جانے کی خوشی تو اب بھی ہوتی تھی مگر گھر کی یاد میں کڑھنے اور سرد آہیں بھرنے کا دور بیت گیا تھا۔ وہ تبدیلی شاید داخلی سے زیادہ خارجی تھی۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ماں نے محسوس کیا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ جلد ہی اس کا لختِ جگر کہیں آشیانہ بنائے گا، جہاں ماں کی مامتا کی گنجائش نہ ہوگی۔ کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے؟ میرا دل ماننے کو تیار نہ تھا مگر تعلیم اورچیز ہے اور جہاندیدگی اور تجربہ اور ۔ دنیا میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے۔ یہی تاریخِ انسانی ہے۔ یہ سفر کی ایک ناگزیر منزل ہے، اس سے مفر کیسا۔

میں آج یادوں کے ویرانوں میں کھڑا پیچھے مڑکر دیکھتا ہوں، سفر کی منزلیں، راستے کے سنگ ہائے میل، دوراہے، چوراہے، وادیاں، قافلے، منزلیں، حسرتیں، آرزوئیں، دعائیں، آنسو، قہقہے، ابتلاو کرب، طرب و نشاط، کامیابیوں کے تمغے اور چرچے، پھولوں کی خوشبو، کانٹوں کی چبھن، سبھی کچھ نظر آتا ہے۔ مگر مامتا مفقود ہے اور مامتا کے بغیر یہ سب کچھ ادھورا، نامکمل بلکہ وہم و سراب محسوس ہوتا ہے۔ کتنی مائیں اپنے جگر گوشوں سے جی بھر کر پیار کیے بغیر، ان سے کوئی خدمت لیے بنا اور ان کے محوِ پرواز ہونے سے قبل اپنا سفر پورا کرکے چلی جاتی ہیں!!

ہر بچہ تو موسیٰ نہیں ہوتا مگر ہر ماں امِّ موسیٰ ضرور ہوتی ہے۔ ام موسیٰ نے اپنے لخت جگر کو دریائے نیل کی موجوں کے حوالے کردیا تھا۔ ہر ماں اپنے نورِ نظر کو حالات کی طوفانی لہروں کے سپرد کردیتی ہے۔ موسیٰ کو انسانیت کا معیار بلند کرنا تھا، آج کے دورکی ماں اپنے موسیٰ کو معیارِ زندگی کے بت اور مادی ترقی کی لگن پر قربان کردینے کے لیے بے بس ہوجاتی ہے۔

یہ کہانی میری بھی ہے اور شاید آپ کی بھی ہو۔ یہ کہانی ہم میں سے اکثر لوگوں کی اپنی کہانی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بھی اپنی کہانی آنسوؤں کی لڑیوں میں پرو کر یوں بیان کی ہے:

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گار رہی

میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

موت ہے ہنگامہ آرا قلزمِ خاموش میں

ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے

جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے

خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا

اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا

کچھ ماں باپ تو خدمت کا موقع دیے بغیر یہاں سے سدھار جاتے ہیں اور اگرچہ یہ اولاد کی محرومی ہوتی ہے مگر وہ خود شاید اس عاجلانہ سفر سے کچھ نہیں کھوتے۔ کچھ ماں باپ خدمت کو ترستے رہتے ہیں۔ وہ بلاشبہہ خود تو دکھی ہوتے ہی ہیں مگر ان کی اولاد کی بدقسمتی میں بھی کوئی شک نہیں۔ ہمیں اپنی کہانی پڑھنی چاہیے تاکہ جان سکیں کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں۔ خوش نصیب یا محروم؟ آج تو معاشرے کا نقشہ ہر جانب یہی نظر آتا ہے۔

غنی روزِ سیاہِ پیرِ کناں را تماشا کن

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں