اپریل، مئی تیز دھوپ اور تپتی ہواؤں کا مہینہ ہوتا ہے۔ گھر کے اندر اور سائے والی جگہ پر زندگی تو اچھی لگتی ہے، لیکن باہر منہ نکالیں تو، ’قیامت کی گرمی‘ جیسے الفاظ منہ سے نکلتے ہیں۔ اس کے باوجود گھر سے باہر نکلنا اور کام پر جانا یا ضروری کام کرنا مجبوری بھی ہوتی ہے۔
گرمی میں جب ماحول کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے تو جسم اس زیادہ حرارت کو اپنے اندر داخل نہیں ہونے دیتا بلکہ اپنے اندر پیدا ہونے والی فالتو توانائی کو بھی خارج کرنا چاہتا ہے۔ یوں ہمیں پسینہ آتا ہے تاکہ جسم کے بیرونی ماحول میں منتقل ہوجائے۔ اس کے علاوہ دماغی احکامات کے زیر اثر ہم ہلکے کپڑے پہنتے ہیں، بار بار نہاتے ہیں، پانی اوردیگر مشروبات زیادہ استعمال کرتے ہیں، سائے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، پنکھے اور ایئر کنڈیشن وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ ان سب کے استعمال کا صحیح طریقے کیا ہے اور یہ تدابیر اختیار نہ کرنے سے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔
تیز دھوپ سے بچیں
گرمیوں کے موسم میں تیز دھوپ میں بغیر کسی احتیاطی تدبیر کے باہر نکلنا انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ تیز دھوپ میں ہوا بھی کافی گرم ہوکر لُو کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے علاوہ دھوپ کا اپنا درجہ حرارت بھی کافی زیادہ ہوتا ہے اور اس کی زد میں آنے والی تمام اشیا حتیٰ کہ زمین بھی تپ جاتی ہے۔ ایسے میں ننگے سر اور کھلا بدن لے کر باہر نکلنے سے جسم کی اندرونی گرمی باہر نکل نہیں پاتی الٹا باہر کی گرمی جسم کے اندر داخل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ دماغ کو گرمی لگنے سے اس میں موجود مخصوص نظام، جو عام طور پر جسم کا درجہ حرارت بڑھنے نہیں دیتا، ناکارہ ہوجاتا ہے یوں جسم کا درجۂ حرارت ماحول کے مطابق بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے شدید گرمی میں سر پر ٹوپ، ٹوپی یا کپڑا لے کر باہر نکلنا، حتیٰ الامکان دھوپ سے ہٹ کر چلنا اور پانی پیتے رہنا وغیرہ جیسی احتیاطی تدابیر اکرنا ضروری ہے۔
ایئر کنڈیشنر استعمال کرنے والوں کو شدید گرمی سے ایک دم ٹھنڈک میں اور تیز ائیر کنڈیشنڈ جگہ سے ایک دم گرمی میں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
مشروبات کا زیادہ استعمال
گرمی میں ہمارے جسم کا درجہ حرارت قابو میں رکھنے کے لیے ہماری جلد مستقل طور پر گیلی رہتی ہے۔ یہ پسینے کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے ساتھ جسم کی گرمی بھی خارج ہوتی رہتی ہے۔ یوں ہمارے جسم کا درجۂ حرارت تو ایک جگہ قائم رہتا ہے، لیکن جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں پیاس لگتی ہے اور ہم کبھی کم اور کبھی زیادہ پانی پی لیتے ہیں لیکن نمکیات کو عموماً بھول جاتے ہیں۔ اس موسم میں ہمیں زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے اور درمیان میں ایسے مشروبات جن میں نمک اور کچھ چینی (مثلاً لسّی، شکنجی، شربت وغیرہ) شامل ہوں وہ بھی ضرور استعمال کرنے چاہئیں۔ نمک استعمال کرنے سے ضائع شدہ نمک جسم میں واپس آتا رہتا ہے اور کمزوری کا احساس نہیں ہوتا جس کی شکایت اس کا اہتمام نہ کرنے والوں میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ چینی اس لیے ضروری ہے کہ اس کی موجودگی میں نمکیات کو جسم میں اچھی طرح جذب ہونے کا موقع مل جاتا ہے، لیکن فشارِ خون اور ذیابیطس کے مریضوں کو اس سلسلے میں پہلے اپنے معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے تاکہ ان کی تکلیف کے درجہ کے حساب سے چینی اور نمکیات کے استعمال کا فیصلہ کیا جائے۔
پھل اور سبزیاں زیادہ کھائیں
پھل اور سبزیاں ویسے تو ہر موسم میں ہی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنی چاہئیں لیکن گرمیوں میں تو اس امر کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ہمارا جسم 80 فیصد سے زیادہ پانی پر مشتمل ہے اور قدرتی طور پر پائی جانے والی غذاؤں میں یہ دونوں چیزیں عموماً اتنا ہی پانی اپنے اندر رکھتی ہیں۔ اس طرح پانی بہت زیادہ نہ پینے کی صورت میں بھی پانی کی تقریباً مطلوبہ مقدار ہمارے جسم کے اندر چلی جاتی ہے۔ اس موسم میں اپنے اندر پانی کی خاصی مقدار رکھنے والی سبزیاں مثلاً کدو، ٹنڈے، کھیرا، ککڑی، حلوہ کدو اور پھلوں میں تربوز، خربوزہ، آلو بخارا، آڑو اور انگور وغیرہ موجود ہوتے ہیں ان کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔ لحمیات یعنی گوشت اور انڈے وغیرہ کا استعمال اس موسم میں گھٹا دینا بہتر ہوتا ہے کیونکہ لحمیات کا فالتو مادہ ’یوریا‘ جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے اور عام حالات میں اسے گردوں کے راستے پیشاب میں فوراً خارج کردیا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گرمیوں میں پیشاب کی مقدار کم ہوجاتی ہے، یوں یوریا کے جسم سے پوری طرح خارج ہونے کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں اگرچہ انسانی جسم میں اس تبدیلی کا تدارک کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور گرمیوں میں بھی یوریا پوری طرح جسم سے خارج ہوجاتا ہے لیکن احتیاط بہرحال بہتر ہے۔
نہانے کا اہتمام کریں
جسم انسانی کے مختلف افعال کے نتیجے میں ہر وقت حرارت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ سردیوں میں اس حرارت کو بچا کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہم گرم کپڑے پہنتے ہیں۔ گرمیوں میں ہم اس سے نجات پانا چاہتے ہیں تاکہ اندرونی درجۂ حرارت بڑھنے نہ پائے۔ اس لیے یہ حرارت ہماری جلد، پیشاب اور سانس کے ذریعہ باہر خارج ہونا چاہتی ہے۔ حرارت کی منتقلی کا اصول ہے کہ یہ زیادہ گرم چیزوں سے کم گرم کو منتقل ہوتی ہے۔ اگرہماری جلد ٹھنڈی ہوگی تو اندرونی گری اس کو منتقل ہوسکے گی۔ یوں جلد کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سائے میں رہنے، پنکھے کے آگے بیٹھنے، میسر ہو تو ائر کنڈیشنر استعمال کرنے کے علاوہ ایک آسان اور سستا کام نہانا ہے۔ اس سے ہماری جلد گیلی ہوکر ٹھنڈی رہتی ہے اور اندرونی فالتو گرمی سے بیرونی ماحول کو منتقل ہوتی رہتی ہے۔
گرمی کے موسم میں پیش آنے والے عام مسائل کا تذکرہ بھی ضروری تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے اور ہم بروقت تدارک کرسکیں۔
لو لگ جانا
شدید گرمی کے موسم میں باہر نکل کر جسمانی مشقت، جسم کے درجۂ حرارت کو کافی بڑھا دیتے ہیں۔ ایسے میں دماغ میں موجود جسم کا درجہ حرارت کنٹرول کرنے والا نظام بعض اوقات کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت بڑھتا چلا جاتا ہے اگر یہ 41 سینٹی گریڈ یا 106 فارٹ ہائٹ کو پہنچ جائے تو ایک خطرناک درجہ حرارت ہے۔ اگر اس ’سن اسٹروک یا ہیٹ اسٹروک، فوری اور مؤثر علاج نہ کیا جائے جو کہ ٹھنڈے ماحول میں لے جانے، پانی کی پٹیاں کرنے اورفوراً ڈاکٹر کو دکھانے پر مشتمل ہوتا ہے، تو یہ درجۂ حرارت اس سے آگے بھی جاسکتا ہے۔ 43 ڈگری سینٹی گریڈ پر مریض مکمل بے ہوش ہوجاتا ہے اور اس کا دماغ، جگر اور گردے اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
پانی کی کمی
ایک مرتبہ کا پسینہ صرف پانی کی کمی کا باعث بنتا ہے لیکن اگر بار بار پسینہ آئے، جیسا کہ گرمیوں کے موسم میں ہوتا ہے، تو پانی کے ساتھ ساتھ جسم میں نمکیات خاص طور پر سوڈیم کی بھی کمی واقع ہوجاتی ہے ۔ ایسی کیفیت میں پیاس بار بار لگتی، پیشاب کی مقدار کم ہوجاتی اور قدرے کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ کی جائے تو مسئلہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ مسلسل ڈی ہائیڈریشن سے غنودگی یا نیم بے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے۔ گرمی کے موسم میں پانی زیادہ پینا چاہیے لیکن صرف پانی تمام کمی کو پورا نہیں کرتا اس لیے نمکیات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
پیٹ کی بیماریاں
قے، پیٹ میں درد یا پاخانے کی کثرت وغیرہ گرمیوں کے موسم کی عام شکایات ہیں۔ یہ تمام بیماریاں جراثیم سے ہونے والی بیماریاں ہیں اور آلودہ پانی، مکھیوں، اور صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونے سے ہوتی ہیں۔ گرمی کے موسم میں پانی کے جراثیم سے پاک ہونے کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ جہاں الٹی سرایت (Reverse Osmosis) سے صفائی ممکن نہیں وہاں فلٹر اور جہاں فلٹر نہیں وہاں ابال کر پانی استعمال کرنا چاہیے۔ اس کےعلاوہ صفائی کا خاص خیال رکھنا، کھانے پینے کی چیزوں کو مکھیوں سے بچانا، غلاظت کو فوراً دھو ڈالنا اور بازار سے کھانے پینے کی اشیا نہ کھانا جیسی احتیاطی تدابیر بھی ضرور اختیار کرنی چاہئیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ یرقان گرمی کی بیماری ہے کیونکہ اس میں جگر کی گرمی ہوجاتی ہے۔ یہ دونوں مفروضے غلط ہیں۔ یرقان عام طور پر جراثیم (وائرس) سے ہوتا ہے اور اس میں جگر میں گرمی نہیں بلکہ وائرس کی وجہ سے سوزش (انفیکشن) ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بیماری سردیوں میں بھی اتنی ہی دیکھنے میں آتی ہے جتنی کہ گرمیوں میں۔ll