گرمی او رپانی کا استعمال

حامد علی

یہ 12جنوری 2007ء کا واقعہ ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک ادارے نے عوام کے لیے ایک مقابلہ منعقد کرایا۔ مقابلہ بڑا واہیات تھا۔۔۔یہ کہ کون مرد یا عورت طویل عرصہ اپنا بول روکے رکھتا ہے۔ دوران مقابلہ ایک نرس نے ریڈیو اِسٹیشن فون کیا، انتظامیہ کو بتایا کہ یہ بڑا خطرناک مقابلہ ہے لہٰذا اْسے فوراً روک دیا جائے۔ لیکن انتظامیہ نے بات سنی ان سنی کردی۔

اس زمانے میں نائٹینڈو وی گیم کو نسول شمالی امریکا میں نایاب تھے اور شائقین وڈیو گیمز ہر ممکن طریقے سے حاصل کرتے۔ چناں چہ مقابلے کا اعلان ہوا، تو ریڈیو اسٹیشن کے ایک کمرے میں 20مرد و زن جمع ہوگئے۔ اب انھیں وقفے وقفے سے مقررہ مقدار میں پانی پینا تھا۔ جو سب سے زیادہ عرصے بول روکتا ، وہ کونسول کا حقدار قرار پاتا۔

مقابلہ صبح نو بجے شروع ہوا۔ ہر کھلاڑی کو پندرہ منٹ بعد ایک گلاس پانی پینا تھا۔ مقابلے میں تین بچوں کی ماں، 28سالہ جینیفر ٹرینج بھی شریک تھی۔ وہ تین گھنٹے میں چھ لیٹر پانی چڑھا گئی۔ پھر اس کی طبیعت خراب ہوئی،تو گھر جاپہنچی۔ وہاں شام کو ماں نے اْسے مردہ پایا۔

طبی معاینے سے انکشاف ہوا کہ زیادہ پانی پینے کے باعث جینیفر کا قدرتی جسمانی توازن بگڑ گیا۔ چناںچہ وہ موت کے منہ میں پہنچ گئی۔

طبی اصطلاح میں یہ کیفیت’’مسمومیت آب‘‘کہلاتی ہے۔ لوسی ڈیوڈسن نامی خاتون نے یہ مقابلہ جیتا۔ جب لوسی نے انعام لیا، تو اس کی طبیعت بھی بگڑی ہوئی تھی۔ اْس کی خوش قسمتی کہ اْسے جلد طبی امداد مل گئی ورنہ وہ بھی اگلے جہان پہنچ جاتی۔

بعدازاں جینیفر کے والدین نے ریڈیو اسٹیشن پر مقدمہ دائر کر دیا۔ عدالت نے ریڈیو اِسٹیشن کو مجرم قرار دے ڈالا۔ چناں چہ ریڈیو اسٹیشن نے مقتولہ کے والدین کو ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم بطور ہرجانہ ادا کی۔

اعتدال بہترین راہ ہے یہ حقیقت ہے کہ پانی اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ پانی نہ ہو،تو زندگی کا برقرار رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اب انسان ہی کو لیجیے۔ ہمارے جسم کا ’’66فیصد حصہ‘‘ پانی پر مشتمل ہے۔

یہ مائع خون میں بہتا، خلیوں میں بستا اور تمام خالی جگہوں میں ملتا ہے۔ سخت سردی ہو، تب بھی یہ بول، فضلے، سانس یا پسینے کی صورت ہمارے بدن سے خارج ہوتا ہے۔

جسم میں پانی کی کمی خطرناک ہوتی ہے۔ یہ طویل عرصہ برقرار رہے،تو انسان کو گور میں دھکیل دیتی ہے۔ لیکن اسی طرح کوئی انسان یا حیوان زیادہ پانی پی لے، تو موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے

اسی طرح امریکا میں نوجوان لڑکے لڑکیاں پارٹیوں یا کلبوں میں رات گئے تک ناچتے اور ہلا گلا کرتے ہیں۔ اس دوران وہ نشہ بھی کرتے ہیں۔ جب ان میں خشکی جنم لیتی ہے، تو پھر وہ کثیر مقدار میں پانی پی کر اْسے دور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

تب وہ مسمومیت آب کا شکار ہوکر جان سے گزر جاتے یا شدید بیمار ہوجاتے ہیں۔ کھیلوں میں بھی یہ خلل عام ہے۔ دوران کھیل پسینا خوب نکلتا ہے۔ کھلاڑی جب تھک ہار کر پانی زیادہ پی لیتا تو مسمومیت ِآب اْسے آن دبوچتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہر چھے میں سے ایک کھلاڑی کبھی نہ کبھی اس خلل کا نشانہ بنتا ہے۔ تب پانی کی زیادتی اس کا خون پتلا کردیتی ہے۔

خون کا پتلا ہونا طبی اصطلاح میں ’’ہائپوناٹریمیا‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کیفیت میں خون میں نمکیات کی کمی جنم لیتی ہے۔ عام طور پر ہمارے خون کے ہر لیٹر میں135تا 145ملی مولزنمکیات پائی جاتی ہیں۔

ان کی شرح 135 ملی مولز سے کم ہوجائے، تو ہائپوناٹریمیا پیدا ہوتا ہے۔ جب ہمارے بدن میں نمکیات کی شدید کمی جنم لیتی ہے تو مسمومیت آب ہمیں چمٹتی ہے۔ سر درد، تھکن، متلی، قے، پیشاب کی زیادتی اور ذہنی پراگندگی اس بیماری کی نمایاں علامات ہیں۔

انسانی بدن میں گردے خون کو اپنی لاکھوں چھلنیوں میں چھان کرآلائشوں سے پاک کرتے ہیں۔ یہی عضو جسم میں پانی، نمکیات اور دیگر مائعات کی مقدار بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ انسان مختصر وقت میں بہت زیادہ پانی پی جائے، تو گردے اْسے تیزی سے چھان نہیں پاتے۔ یوں زائد پانی خون میں داخل ہوجاتا ہے۔

خون میں شامل زائد پانی رفتہ رفتہ خلیوں میں داخل ہونے لگتا ہے۔ وہ اس کی جگہ بنانے کے لیے غبارے کی طرح پھول جاتے ہیں۔ قدرت نے بیشتر خلیوں کو لچک دار بنایا ہے کیونکہ وہ چربی یا عضلات رکھتے ہیں، لیکن دماغ کے خلیے، نیورون بالکل لچک پذیری نہیں رکھتے۔

وجہ یہ ہے کہ کھوپڑی میں نیورون کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ اس جگہ خون اور دیگر مائعات بھی ملتے ہیں۔ اس لیے نیورون پھولنے کی بالکل جگہ نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دماغ کا پھولنا عموماً جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

کئی انسان تھوڑے وقت میں کئی گلاس پانی چڑھا جاتے ہیں۔ حالانکہ اس عمل سے دماغی خلیوں میں پانی داخل ہوسکتا ہے۔ جیسے ہی دماغ میں پانی پہنچے، وہ پھولنے لگتا ہے۔ تب تشنجی دورے، بے ہوشی، سانس لینے میں رکاوٹ اور آخرکار موت انسان کو آدبوچتی ہے۔

آج بھی بہت سے لوگ زیادہ پانی پینے کو تندرستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ چند سال قبل امریکی طبی ادارے، ڈارٹ مائوتھ میڈیکل سنٹر سے تعلق رکھنے والے پروفیسرہینزوالتین نے یہ جاننے کے لیے پورے ایک برس تحقیق کی کہ کیا واقعی آٹھ گلاس روزانہ پانی پینے سے صحت ملتی ہے۔

خاتمۂ تحقیق پر پروفیسر ہینز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آٹھ گلاس روزانہ پانی پینا غلط نظریہ ہے۔ اْلٹا زیادہ پانی پینے سے نہ صرف ہائپو ناٹریمیا جنم لیتا ہے، بلکہ مطلوبہ مقدار میں پانی نہ پینے والا فرد خود کو مجرم محسوس کرتا ہے۔ گویا صحت مند رہنے کے لیے آٹھ گلاس پانی پینا قطعاً ضروری نہیں۔

پروفیسر جوزف وربیس امریکی جارج ٹائون یونیورسٹی میڈیکل سنٹر سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسمومیت آب عموماً محض زیادہ پانی پینے سے نہیں چمٹتی بلکہ یہ خلل عموماً اس وقت جنم لیتاہے جب پانی کی کثرت کے ساتھ ساتھ ایک ہارمون، واسو پریشن بھی جنم لے۔ یہ ہارمون دماغی عضو، ہائپو تھالاس پیدا کرتا اور غدہ نخامیہ اِسے خون میں چھوڑتا ہے۔ یہی ہارمون گردوں کو حکم دیتا ہے کہ پانی بچانا شروع کرو۔

انسان جب جسمانی مشقت کرے، تو واسو پریشن خون میں پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً بھاگتے یا سائیکل چلاتے ہوئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوران مشقت انسان خوب پانی استعمال کرے تب بھی واسوپریشن اْسے یہی ہدایت دیتا ہے کہ پانی کا تحفظ کرو۔

ایک صحت مند گردہ آرام کی حالت میں فی گھنٹا آٹھ سو ملی لیٹر تا ایک لیٹر پانی جسم سے خارج کرتا ہے۔ گویا انسان گھنٹہ بھر میں ایک لیٹر پانی پی لے،تو کوئی منفی صورت حال جنم نہیں لیتی۔

لیکن انسان میراتھن میں حصہ لے یا کوئی مشقت والا کام کرے، تو واسوپریشن گردوں کو پانی بچانے کی ہدایت دیتا ہے۔ تب گردے فی گھنٹا صرف سو دو سو ملی لیٹر پانی خارج کرتے ہیں۔

چناں چہ انسان ایسی صورت حال میں 800ملی لیٹر تا ایک لیٹر پانی فی گھنٹاپیئے، تو پسینا نکلنے کے باوجود جسم میں پانی کی مقدار بڑھتی جاتی ہے۔

اسی لیے ماہرین سبھی کھلاڑیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ دوران کھیل یا ورزش پسینا نکلنے اور پانی پینے کے مابین توازن رکھیں۔

مطلب یہ کہ اگر کھیلتے یا بھاگتے ہوئے فی گھنٹا آدھا لیٹر پانی نکل رہا ہے، تو اتنا ہی پانی پیجئے۔ یہ نہیں کہ غٹاغٹ ایک دو لیٹرپانی چڑھا جائیں۔ تب موت آپ کے در پر دستک دے سکتی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں