مجموعہ کلام :گزرگاہِ خیال شاعر: محمد ایوب بسملؔ اعظمی
ناشر: ایڈشاٹ پبلی کیشنز1-104-B، سمیتا ایس کونIII،نیا نگر میرا روڈ، (ایسٹ) ممبئی 401107
…………
محمد ایوب بسملؔ اعظمی ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ تین سال قبل ’’رقصِ بسملؔ‘‘ ادبی دنیا میں پیش کرچکے ہیں، جس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے۔ شاعری میں آپ کا سلسلہ تلمذ اقبال سہیلؔ مرحوم سے جاملتا ہے وہ اس طرح کہ شاعری میں آپ نے اپنے ماموں مرتضیٰ حسن اکملؔ سے فیض حاصل کیا ہے جو اقبال سہیلؔ مرحوم کے شاگرد تھے۔ مدرسۃ الاصلاح کے ذہین ترین طالب علموں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ان لوگوں کی صحبت اور فیض کے باعث بسملؔ اعظمی کے فن میں پختگی اور فکری بالیدگی پیدا ہوئی۔
بسملؔ صاحب نے زندگی کا اکثر حصہ تعلیم و تعلم اور علمی سرگرمیوں میں بسر کیا ہے ممبئی کے مشہور تعلیمی ادارہ ’’انجمن خیر الاسلام‘‘ سے منسلک رہے۔ حال ہی میں انجمن کے کرلا ہائی اسکول سے بحیثیت ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اب بھی تعلیمی سرگرمیوں میں منہمک ہیں۔
’’گزرگاہِ خیال‘‘ میں ستانویں غزلیں اور بیالیس نظمیں ہیں۔ مجموعہ کی ابتدا حمد و نعت سے ہوتی ہے۔ نعت کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
یہ فخر ارض مدینہ کو صرف حاصل ہے
سکون ملتا ہے یاں آ کے بیقراروں کو
بسملؔ صاحب کی یہ خوبی ہے کہ صلہ و ستائش کی پرواہ کیے بغیر مشق سخن کررہے ہیں۔ یہ ان کی افتاد طبع کا کمال ہے کہ ممبئی جیسے شہر میں بھی وہ گروہ بندیوں سے آزاد تعمیری اقدار کی نشرواشاعت میں اپنا حصہ بٹارہے ہیں۔ بسملؔ صاحب کی غزل میں تلمیحات، استعارے، صنائع و بدائع اور دیگر فنی لوازمات کا برمحل استعمال ملتا ہے۔ وہ فنی لوازمات سمونے کے لیے شعر نہیں کہتے بلکہ شعر میں برجستہ یہ چیزیں آجاتی ہیں جو ان کی طبیعت میں آمد کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ چند شعر بطور نمونہ:
خدا کا خوف تھا نمرود کی خدائی میں
بتوں کے شہر میں رہتے تھے بت شکن تنہا
فسانے جرأت و ہمت کے ہیں بہت لیکن
جہان عشق میں فرہاد و کوہ کن تنہا
ابھی کھل جائے گا مجنوں کی محبت کا بھرم
ایک پتھر کوئی دیوانے کو مارو تو سہی
بسملؔ صاحب کا لہجہ اس وقت بڑا سخت ہوجاتا ہے جب وہ سیاسی منافقت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ فساد ظلم و جور کی داستان ان کی غزل میں گہرائی تک سمائی ہوئی ملتی ہے۔ مثلاً:
تجھ پہ الزام کوئی دھر نہ سکا میرے سوا
تیری صورت مرے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب تو باقی نہ رہا مجرم و منصف کا سوال
ایک ہی صف میں ہر ایک شخص کھڑا ہو جیسے
بسملؔ کی شاعری کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ پیغامی شاعر ہیں، جہاں قوم و ملت کا درد بھی ہے اور اس کا درماں بھی۔ ان کی زمانہ کی رفتار پر گہری نظر ہے۔ حالات کی سنگینی، نفرت و عداوت کی فراوانی، شقاوتِ قلب و بے حس انسانیت سے قطع نظر نئی نسل کو جہدوعمل، سعیٔ پیہم کا پیغام دیتی ہے۔ دیکھیے:
آؤ ذہنوں میں نئی فکر و نظر پیدا کریں
پھر شبِ تاریک سے نورِ سحر پیدا کریں
زندگی کے عزیز لمحوں میں
سعیٔ و فکر و نظر کی بات کرو
جس سے ممکن ہے کہ کھوجائے کہیں عقل و شعور
اب اسی شدتِ جذبات سے لڑنا ہوگا
علاوہ ازیں کتنے ہی ایسے اشعار ہیں جو ذہن کو جھنجھوڑ کر عمل کی راہ پر لاکھڑا کرتے ہیں۔ بسملؔ اعظمی صاحب کی نظموں میں کافی تنوع ہے۔ رومانس سے سیاسی بصیرت تک ان کی فکر رسا پرواز کرتی ہے۔ وہ ماحول میںبنیادی حقیقتوں سے گریز پا نہیں بلکہ ان کے ترجمان دکھائی دیتے ہیں۔ ’’غریب‘‘، ’’بھکاری‘‘، ’’ماضی‘‘، ’’محشر خیال‘‘وغیرہ دل پر گہرا تاثر چھوڑتی ہیں ان کی اکثر نظمیں کسی نہ کسی اخلاقی و اصلاحی پہلو کو نمایاں کرتی ہیں مثلاً: ’’معلم‘‘، ’’بیٹی کے نام‘‘، ’’مجاہد‘‘، ’’سائنس‘‘ ایسی ہی نظمیں ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی تربیت کی غرض سے لکھی جانے والی نظمیں بھی اپنا یہی وصف رکھتی ہیں۔ مثلاً: ’’لوری‘‘، ’’چلو اسکول چلیں‘‘، ’’امن کا گیت‘‘ وغیرہ۔مجموعی لحاظ سے ’’گزرگاہِ خیال‘‘ صالح و تعمیری ادب کا حامل مجموعہ ہے جو کسی بھی سنجیدہ اور باذوق شخص کے مطالعہ اور لائبریری میں موجود رہنے کے قابل ہے۔ کاغذ و طباعت عمدہ وجاذب نظر، سرورق دیدہ زیب رنگوں سے مزین ہے۔ ۲۲۴ صفحات کی کتاب مطبوعہ ڈیڑھ سو روپئے میں بھی گراں نہیں۔ جبکہ کچھ فیصد رعایت تو خریدا رکو مل ہی جاتی ہے۔