ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو انسان کی زندگی کا ایک انتہائی اہم اور بنیادی حصہ ہے۔ آپ کو کسی سے کچھ پوچھنے، بتانے یا بات کرنے کے لیے الفاظ ہی کا استعمال کرناہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کی قابلیت اور صلاحیت اپنی جگہ لیکن دوران گفتگو اس کےالفاظ کا جادو انسان کی شخصیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اس کے الفاظ یا تو شخصیت کا اچھا تاثر قائم کرتے ہیں یا لوگوں کی نظر میں اس کی منفی شبیہ بنادیتے ہیں۔
ہماری گفتگو میں الفاظ کے ساتھ ساتھ لہجے اور انداز کا بھی بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ ہمارا لہجہ اور انداز گفتگو، الفاظ کے درست انتخاب کے باوجود کئی بار لوگوں کے دل میں الٹا یا منفی تاثر قائم کر سکتا ہے، بلکہ کرتا ہے۔ اس لئے گفتگو میں جہاں الفاظ کا مناسب استعمال اہم ہے وہیں لہجے اور انداز گفتگو کو درست، نرم اور دلکش بنانا بھی بہت ضروری ہے۔
گفتگو میں جذبات کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ اب یہ جذبات پر منحصر ہے کہ وہ محبت لیے ہیں یا پھر نفرت۔ اسی طرح ہمارے الفاظ اور طرز گفتگو ہمارے اندرون کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ پیار و محبت کا رنگ لئے ہوئے دل کو چھو لینے والے الفاظ، طنز کے نشتر چبھاتے بہ ظاہر عام الفاظ، عزم و حوصلہ سے بھرپوردلوں میں عزم و عمل کی جوت جگاتے الفاظ، اسی طرح مایوسی میں ڈوبتے اچھلتے الفاظ جو دلوں کو پژمردہ کردیں، ان تمام کو ہمارے لب و لہجے سےسمجھا جاتا ہے اور سمجھا جا سکتا ہے۔
کیونکہ ہمارا معاشرہ ہی ہماری اصل دنیا ہے، جس میں ہم جیتے ہیں، اس لئے گفتگو کی معاشرتی و سماجی اہمیت بھی ہے اور اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔ ہماری گفتگو یعنی ہمارے الفاظ اور لہجہ یا تو ہمیں لوگوں سے جوڑتا اور ان کے دل میں ہمارے لئے قبولیت اور قربت و محبت کے بیج بوتا ہے یا پھرنفرت و نا پسندیدگی پیدا کر کے ہمیں لوگوں سے کاٹنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ مختصرا ہم کہ سکتے ہیں کہ ہمارے منہ سے نکلنے والے الفاظ ہماری دنیا کو بناتے بھی ہیں اور اسی طرح بگاڑ بھی سکتے ہیں۔
گفتگو اور اس میں استعمال ہونے والے الفاظ کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ بولتے ہیں وہ ہماری آخرت بھی بناتا یا بگاڑتا ہے۔ ہم جب بات کرہے ہوتے ہیں تو یا تو ہم اچھی بات اور اچھے الفاظ سے اپنی آخرت کے لئے نیکیاں سمیٹ رہے ہوتے ہیں یا پھر نا مناسب الفاظ یا غلط باتیں بول کر اپنی آخرت بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس بات سے آگاہ فرمادیا ہے کہ:
’’ بندہ ایک بات اپنی زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کو خوش کرنے والی ہوتی ہے۔ بندہ اس بات کو اہم نہیں جانتا، لیکن اللہ اس بات کی وجہ سے اس کے درجہ بلند کرتا ہے، اسی طرح آدمی اللہ کو ناراض کرنے والی بات بول جاتا ہے اور اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، حالانکہ وہی بات اسے جہنم مین لے جا گراتی ہے۔‘‘ (بخاری)
حدیث کی کتابوں میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر حضرت بابوبکر کے پاس گئے۔ وہاں پہنچ کر دیکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اپنی زبان کو کھینچ رہے ہیں۔عمرؓ نے جب یہ دیکھا تو کہا کہ اللہ آب کی مغفرت کرے،اسے چھوڑئے۔ حضرت ابوبکرؓنے انہیں جواب دیا کہ اس زبان ہی نے مجھے تباہی میں ڈال دیا۔ ظاہر ہے زبان ہی سے الفاظ ادا ہوتے ہیں اس لئے غلط یا صحیح الفاظ یا باتیں بولنے کی ذمہ دار زبان ہی ہے، چنانچہ ہمیں ہمارے رسولﷺ نے اس بات کی تاکید فرمائی ہے کی مومن اگر بولے تو اچھی بات بولے ورنہ خاموش رہے۔
ایک مرتبہ حضور پاکﷺ نے صحابہ سے پوچھا: ’’جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہم تو مفلس اسی کو سمجھتے ہیں جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو! آپؐ نے فرمایا کہ میری امت کا اصل مفلس وہ آدمی ہے جو قیامت کے دن نیکیوں کا پہاڑ لے کر حاضر ہوگا مگر کسی کا حق مارا ہوگا، کسی کا ناحق خون کیا ہوگا، کسی کا مال مارا ہوگا اور کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کو تکلیف پہنچائی ہوگی۔۔۔ پھر یہ سب اس سے اپنا حق طلب کریں گے اور بدلہ میں اس کی نیکیاں ان دعوےداروں کو دے دی جائیں گی یہاں تک کہ نیکیاں ختم اور حق باقی رہے گا تو اس صورت میں ان دعوےداروں کے گناہ بدلہ کے طور پر اس کے کھاتے میں ڈال دئے جائیں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ اسے گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائےگا۔
زبان اور الفاظ کے سلسلے میں غور کرنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ہماری زبان سے نکلنے والے الفاظ قیامت کے دن ہمیں مفلس اور دیوالیہ نہ بنادیں۔
اللہ کے رسولﷺ نے گفتگو کے دوران ہمیں اپنے لہجے اور اور جذبات کو بھی مثبت اور دلکش رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا:
“تبسمک لوجہ اخیک صدقہ” اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملناصدقہ (بڑی نیکی) کا کام ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ مومن نہ تو کسی پر لعنت بھیجتا ہے باور نہ طنزو تعریض کے تیر چلاتا ہے۔
دوسری جگہ آپﷺ نے فرمایا کہ مومن مومن کا آئینہ اور ایک دوسرے کا بھائی ہے۔ وہ تباہی اور بربادی کو اس سے دور کرتا ہےاورپیچھے سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔
ان دونوں حدیثوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گفتگو کے دوران ہمیں مخاطب کے لیے کس قسم کے جذبات اور کیسا لہجہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمیشہ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے الفاظ جو ہماری زبان سے ادا ہوتے ہیں وہ کسی کے لیے تلوار بن سکتے ہیں جو یا تو قتل کرتی ہے یا زخمی کرتی ہے اور آپ جانتے ہیں ، پرانی کہاوت ہے کہ تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے مگر زبان اور الفاظ کا زخم مندمل نہیں ہوتا۔ گویا ہمارے الفاظ جو ہماری زبان سے نکلتے ہیں وہ کسی کے لئے تسلی،خوشی اور محبت کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور کسی کے جذبات کو مجروح بھی کرسکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زبان سے نکلنے والے الفاظ کو کسی کے لئے بھی زخم کا باعث بنانے کے بجائے انہیں پھول بنائیں کہ کے سامنے والا ان سے خوشی و مسرت محسوس کرے۔ رسول پاکﷺ کا یہ قول ہمارے ذہن میں ہر وقت رہے کہ ’’ زیادہ تر لوگ اپنی زبان کی فصل کاٹنے کے نتیجہ ہی میں ہی جہنم میں ڈالے جائیں گے۔‘‘
جہاں تک خواتین کی بات ہے تو عام طور پر وہ اس معاملے میں بے احتیاط واقع ہوتی ہیں۔ چار خواتین کہیں جمع ہوجائیں تو بس کسی کی غیبت، ٹوہ اور طنز و تعریض شروع۔ ایسے میں باشعور خواتین کو چاہیے کہ وہ ٹوک دیا کریں اور موضوع بدل دیں، یا پھر خود ہی اس جگہ اٹھ جائیں۔ اس طرح ہماری آخرت تو کم از کم محفوظ رہے گی۔