دل نشین گفتگو بھی بہت بڑا فن ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اسے اپنانے کی کوشش نہیںکرتے۔اس دنیا میں اعلیٰ عہدے کو پالینا کوئی مقصد نہیں، بلکہ انسانوں سے بہتر سلوک، عمدہ گفتگو اور نفیس تعلقات بروئے کار لانا بڑا کام ہے۔ اخلاقیات کے عالم ’تھامس مین‘ نے کہا ہے، تقریر ہی تہذیب ہے اور خاموشی علیحدہ رہنے کا مقصد۔
نرم آواز
عمدہ گفتگو کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی آواز کی آہستگی اور نرمی پر نظر رکھیں اور ہماری کوئی بھی بات مقصد سے ہٹ کر نہیں ہونی چاہیے اور نہ ایسی بات ہو، جس سے کشیدگی پیدا ہو اور آپ کا مخاطب یہ سمجھے کہ آپ کا رویہ طنزیہ یا ناخوشگوار ہے۔
غصے پر قابو
غصے میں آواز تکلیف دہ حد تک بلند ہوجاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بات چیت کے دوران جذبات پر قابو رکھا جائے اور مخاطب کو یہ احساس نہ ہونے پائے کہ ہماری گفتگو میں کسی قسم کی سختی پائی گئی ہے۔ حلیمی سے گفتگو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے مخاطب کا دل موہ لینے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔
آواز اور لہجے پر قابو
دوسرا شخص آپ کی بات کا جواب جس انداز میں دیتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ آپ کی اپنی آواز ہے۔ مثال کے طور پر آواز میں طنز، خوف اور لرزش اس بات کا اظہار ہے کہ آپ نے اعتماد کھودیا ہے۔ ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے:
lآواز میں کپکپاہٹ پیدا کرکے بات کرنے والی بیویاں اپنے شوہروں کو بے زار کردیتی ہیں۔
lٹیلی فون پر بڑبڑا کر شکایت کا اظہار آپ کے کارباری معاملات میں رخنہ پیدا کردیتا ہے۔
lہتھوڑے جیسی آواز سے بات کرنے والا سیکریٹری اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
اپنی گفتگو کا جائزہ لیں
روزگار مہیا کرنے والی ایجنسیاں ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہیں کہ درخواست دہندہ سے تحریری درخواست لینے کے بجائے اسے انٹرویو کے لیے بلایا جائے، چنانچہ پہلے پہلے امیدوار کی بول چال کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے اکثر امیدوار محض اس وجہ سے قبول نہیں کیے جاتے کہ وہ اپنی آواز اور طرز گفتگو کا عمدہ نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ آپ اپنی آواز کا امتحان کرنے کے لیے مندرجہ ذیل سوالوں پر غور کیجیے:
lکیا آپ اس قابل ہیں کہ دوسرا شخص آپ کی گفتگو سے فوراً متوجہ ہوجائے؟
lکیا آپ کی آواز کسی دکھی انسان کے لیے تسلی و تشفی کا باعث بن سکتی ہے؟
lکیا آپ کی آواز میں اتنی لچک ہے کہ کسی نازک موقعے پر فوری بات منواسکیں؟
lآپ شور مچا کر بات کرتے ہیں یا اس قدر مدھم لہجے میں کہ دوسرے آپ کو بار بار کہنے پر مجبور ہوں کہ جناب ذرا بلند آواز میں بات کیجیے۔
جب آپ اپنی انفرادیت کا اندازہ کرلیں تو اپنے مستقبل کی بنیاد اور بات چیت کے طریقے کو مندرجہ ذیل اصولوں پر جانچنے کی کوشش کیجیے۔
lمجھے کس قسم کی آواز میں گفتگو کرنی چاہیے؟
lمیری گفتگو کس نوعیت کی ہوگی؟
آپ کی گفتگو کا اندازہ اس بات سے بھی ہوگا کہ بات کرنے کی رفتار کیا ہے اور کیا آپ ایک منٹ میں ایک سو پچیس الفاظ بول سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو آپ ٹھیک گفتگو کررہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ مزاج کے مطابق تقریر کی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تمام الفاظ کی ادائیگی اگر ایک ہی رفتار سے ہوتی ہے تو آپ اچھے خاصے مقرر ہیں۔ آپ کی گفتگو الفاظ کی یکسانیت سے ہورہی ہے، یعنی گفتگو کے دوران الفاظ کا ٹھہراؤ، وقفہ اور الفاظ کے ساتھ ایک مداری کا ساکھیل، یہ سب چیزیں موجود ہوں تو آپ کے خیالات و جذبات سامعین کے خیالات و جذبات سے ہم آہنگ ہوسکیں گے۔
گفتگو کے دوران اگر آپ سانس لینے کی ترکیب اپنانے میں کامیاب ہوں، یعنی گفتگو کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے اور آپ سانس لینے کے ساتھ ساتھ بات چیت بھی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی تقریر متوقع نتائج حاصل نہ کرے، اگر آپ پُر اثر تقریر کرنا چاہیے ہیں تو ضروری ہے کہ سانس کی آمدورفت درست ہو۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر آپ گفتگو یا تقریر کے دوران حد سے زیادہ منمنائیں گے، اٹک اٹک کر بولیں یا ہکلائیں گے تو نہ صرف آپ کا مضحکہ اڑے گا، بلکہ کوئی بھی آپ کی بات غور سے سننے کی زحمت گوارا نہیں کرے گا۔
آپ چاہے کتنی ہی مشکلات میں گھرے ہوں، خود کو اعتدال پر رکھ کر ہر مشکل پر قابو پاسکتے ہیں۔ اپنے جذبات کے اظہار میں اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب یہ سمجھنے لگیں کہ واقعی آپ ان پر قادر ہیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنے صحیح خیالات کا اظہار کریں، کیونکہ اس معاملے میں آپ اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں، جب آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہوں اسے حقیقی انداز میں بیان کریں۔ اگربناوٹی لب و لہجہ استعمال کیا گیا تو مخاطب کو اس کا احساس ہوجائے گا اور آپ اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس کے علاوہ صحیح الفاظ کا استعمال آپ کو خیالات کے اظہار میں بھی بہت مدد دے گا۔
آپ کا طرزِ گفتگو آپ کی انفرادیت کی نشان دہی کرتا ہے، کیونکہ تقریر اور شخصیت ایک ہی چیز ہے۔ آپ جتنا صحت مندانہ ماحول اپنا لیں گے اتنی ہی آپ فی البدیہہ، پُر اثر اور بامعنی گفتگو کرسکیں گے۔ گفتگو صرف شخصیت کے اظہار کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ اس سے آپ عوام کو بھی اپنے دائرہ اثر میں کھینچتے ہیں۔ بہرحال اگر آپ دنیا میں تحریر و تقریر کے فن کے ذریعے اپنے آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنا ماحول تبدیل کیجیے۔ اگر آپ نے خود کو تبدیل کرلیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا طرزِ گفتگو تبدیل ہوا اور گفتگو کا انداز تبدیل ہوا تو آپ نے خود کو تبدیل کرلیا اور یہی عمدہ گفتگو ایک روز آپ کو اپنے دوستوں، عزیز و اقارب اور عوام میں ہر دل عزیز بنادے گی۔