باہری گیٹ پر دستک ہوئی۔’’سعدیہ! کُنڈی کھولو باہر دروازے پر کوئی آیا ہے۔‘‘ خدیجہ نے سِلائی مشین پر کپڑے سیتے ہوئے کہا۔’’ جی امّی۔۔۔۔دیکھتی ہوں ۔‘‘ سعدیہ نے کہا اور جا کر دروازہ کھولا تو سامنے بی بی امیرن کھڑی تھیں۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر داخل ہو کر بولیں’’ ارے خدیجہ۔۔۔۔ہو گیاسب کام۔۔!‘‘ خدیجہ جو سِلائی مشین پر کپڑے سی رہی تھی،سر اُٹھا کر بولی:’’آئیے بیٹھیے۔۔۔اِس بار آپنے بڑے دِنوں بعد چکر لگایا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ بس۔۔۔ ویسے ہی ادھر نہیں آئی۔۔۔ کوئی خاص بات نہیں۔۔۔آج میں نے سوچا کپڑے ہی دھو لوں،اس لیے چلی آئی۔‘‘ امیرن بی بی نے جواب دیا۔
’’اچھا اچھا۔۔۔پانی آنے ہی والا ہے۔۔۔دھو لیجئے کپڑے۔‘‘ خدیجہ نے کہا اور ساتھ ہی سعدیہ کو چائے بنانے کو کہا۔
’’ جی امّی۔۔۔ابھی بنا دیتی ہوں۔‘‘ سعدیہ نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
امیرن بی بی پچھلے محلّے میں رہتی تھیں۔ساٹھ سال کے پیٹے میں تھیں۔اکیلی رہتی تھیں۔کوئی اپنا رشتے دارنہیں تھا۔شادی کے کچھ سال بعد ہی شوہر کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ چھپر تان کے رہتی تھیں ۔نہ کوئی بجلی پانی کا انتظام تھانہ کوئی اور سہولت۔وہ یتیم تھیں ۔شوہر کے مرنے کے بعد جس کمرے میں رہتی تھیں وہ مالک مکان نے بیچ دیا اور نئے مالک مکان نے کمرا خالی کروالیا اور وہ محلے میں ایک کونے میں چھپر تان کر رہنے لگیں۔تھوڑا بہت محلے والے مدد کر دیا کرتے تھے۔بی بی امیرن نے خود سے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگاتھا۔کھانا وہ خود پکاتی تھیں،ادھر اُدھر سے لکڑی گھاس پھوس اکٹھا کر کے۔ کوئی پیسے دیتا تو رکھ لیتیں۔۔۔شاید کسی بڑی ضرورت کے لیے۔محلے کے کسی گھر میںنہیںجاتی تھیں سوائے خدیجہ کے گھر کے وہ بھی کپڑے دھونے کے لیے۔ کپڑے کے نام پر ایک گلابی جوڑا تھا اور بس۔۔۔ پانی آ گیا تھا اور بی بی امیرن نے جھولے سے ریشمی کپڑے سے بنا گلابی جوڑا نکالا اور اُسے دھونے لگیں۔کافی دیر تک وہ سوٹ کو دھوتی رہیں۔سعدیہ نے چڑ کر اپنی ماں خدیجہ سے کہا: ’’ امّی۔۔۔کتنی دیر ہو گئی ہے۔آپ کچھ کہتی کیوں نہیں۔۔۔؟اور سٗوٹ بھی تو دیکھو کتنا بے کارسا ہے۔۔۔ بس فالتو میںوقت برباد کرتی ہیں۔ ایسے کپڑے کا تو میں ۔۔۔پونچھا بھی نہ لگاؤں۔‘‘ خدیجہ نے بیٹی کو گھورا’’آہستہ بولو۔۔۔ایسا نہیں کہتے۔۔۔ہمارا کیا لے جاتی ہے۔‘‘
’’ ہوں۔۔۔جسے یہ گلابی سوٹ کہہ رہی ہے،وہ کہیں سے بھی گلابی نہیں لگتا۔اتنے سالوں سے بلکہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اُنہیں اسی سوٹ کو پہنے دیکھا ہے۔۔۔جگہ جگہ سے پھٹا ہوا۔‘‘ سعدیہ نے کہا:’’ارےبس کر،کتنا بولے جا رہی ہے۔ تمہیں پتا تو ہے وہ نیا ہو یا پرانا سوٹ لیتی ہی نہیں۔۔۔ جا۔۔ جا کر دیکھ دھو لیا ہوگا۔۔اور ہاں اُنہیں کھانا دے دینا۔سعدیہ نے مزید کچھ نہیں کہا اور چپ چاپ چلی گئی۔خدیجہ نے اپنے دل میں سوچا یہ آج کل کے بچے کسی کا احساس ہی نہیں کرتے۔اتنے میں بی بی امیرن کمرے کے باہر آ کر بیٹھ گئی۔تبھی سعدیہ کھانا لے آئی۔ ’’بی بی۔۔۔ کھانا کھا لیجئے۔‘‘ بی بی امیرن نے کہا: ’’اچھا۔۔۔ آج کیا پکایا ہے۔‘‘
سعدیہ نے کہا:’’جی۔۔۔آلو سالن بنا ہے۔‘‘
’’ اچھا ٹھیک ہے ۔۔ایک روٹی دے دو‘‘اور بی بی امیرن کھانا کھانے لگیں۔جیسے ہی اُس نے خالی برتن رکھا ۔خدیجہ اپنا کام ختم کر کے آ گئی۔
’’ بی بی۔۔۔تمہارے لیے بہت اچھا سوٗٹ کا کپڑا لائی ہوں،ذرا ناپ دے دینا۔۔۔تمہارے لیے نیا جوڑا بناؤں گی۔پُرانے جوڑے کا پیچھا چھوڑ دو۔‘‘ خدیجہ نے کہا۔’’ نہیں۔۔۔نہیں مجھے نہیں چاہیے ،کوئی بھی کپڑا مجھے تو بس یہی پہننا ہے۔‘‘ بی بی امیرن نے صاف انکا ر کر دیا۔
’’ ارے۔۔کیوں نہیں بی بی۔۔۔تم ضد پر کیوں اڑی ہو۔۔۔چھوڑ دو یہ ضد۔۔کیوں تم ایسا کرتی ہو؟‘‘
’’ یہ ضد نہیں ہے۔بیٹی یہ میرے مرحوم شوہر کی نشانی ہے۔وہ میرے لیے پہلی بار یہ گلابی جوڑا خرید کر لائے تھےاور مجھے جوڑا دے کر کہا تھا’تجھ پر یہ رنگ اچھا لگتا ہے۔جیسے گلاب کا پھول، بی بی امیرن جیسے ماضی میں کھو گئیں اور خود کلامی میں بولیں’’ اور کہا تھا جاؤ پہن کر آؤ۔‘‘
اور جب میں یہ جوڑا پہن کر آئی تھی تو پتا ہے خدیجہ اُنہوں نے کیا کہا تھا: ’’ کیا کہا تھا بی بی‘‘ خدیجہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
بی بی امیرن کھوئے کھوئے لہجے میں بولیں: ’’اُنہوں نے کہا تھا’’میں چاہتا ہوں کہ تو ہمیشہ یہی رنگ پہنے‘‘ گھر سے باہر کسی کام سے گئے تھے اور۔۔۔ اور۔۔۔ واپس نہیں آئے،آئی تو صرف اُن کی موت کی خبر۔۔۔بس اُس دِن سے کوئی اور رنگ تو کیا ۔۔میں نے کوئی اور کپڑا بھی نہیں پہنا۔‘‘
اتنا کہہ کر بی بی امیرن زارو قطار رونے لگیں۔میری بھی آنکھیں بھر آئیں ۔بڑی مشکل سے چپ کرایا۔ میں نے دیکھا اُن کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔کمزور بھی تو ہو گئی تھیں۔شام کو وہ گھر چلی گئیں۔
کئی دِنوں تک وہ نہیں آئیں ۔محلہ کی ایک عورت سے پتا چلا کہ بی بی امیرن بہت بیمار ہیں۔رات کوخدیجہ نے اپنے شوہر کو بتایا۔
وہ فوراً بی بی امیرن کے یہاں جانے کو تیار ہو گئے اور تھوڑا سا کھانا بھی ساتھ لے لیا۔وہاں جا کر پتا چلا کہ گھر سے باہر پانی لینے گئی تھیں۔پیر پھسلنے سے وہیں گر گئیں۔کافی چوٹیں آئی تھیں۔گلی کے لڑکوں نے اُٹھا کر گھر پہنچایا تھا۔دونوں کوبی بی امیرن کو اس حال میں دیکھ کر کافی دُکھ ہوا۔خدیجہ کے شوہر نے کچھ دوائی وغیرہ لا دی اور خدیجہ نے کھانا کھلا دیا۔کچھ دیر کے بعد دونوں گھر واپس آ گئے۔
اب بی بی امیرن کا گھر سے باہر نکلنا بند ہی ہو گیا تھا۔ خدیجہ روز کچھ نہ کچھ پکا کر سعدیہ کے ہاتھ بھیج دیتی اور ایک دو دن بعد بی بی امیرن کے یہاں اُسے دیکھ بھی آ تی۔ایک دِن خدیجہ نے آلو گوشت بنایا اور سوچابی بی امیرن کو بہت پسند ہیں،اُسے کھلا کر آتے ہیں۔
خدیجہ نے اپنے شوہر کو ساتھ لیا اورکھانا لے کر بی بی امیرن کے یہاں چل دی۔گھر کے قریب پہنچنے پر دیکھا کہ کچھ عورتیں بی بی امیرن کےگھر سے نکل کر جا رہی ہیں۔خدیجہ کا ماتھا ٹھنکا۔وہ دونوں جلدی سے گھر میں داخل ہوئے دیکھا بی بی امیرن ہڈیوں کا ڈھانچہ بنیں چارپائی پر پڑی ہیں۔محلے کی کچھ عورتیں چارپائی کے گرد بیٹھی تھیں۔بی بی امیرن اس دُنیا سے اپنا ناتہ توڑکر ابدی نیند سو رہی تھیں۔ دونوں کو صدمہ ہوا۔ بی بی امیرن کا کوئی رشتے دار نہیں تھا اس لیے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں تدفین کی تیاری ہونے لگی۔آج اُس نے نیا جوڑا پہنا تھا جس کا کوئی رنگ نہیں تھا اور جس گلابی جوڑے کو اُس نے اپنی جان سے لگا کر رکھا تھا آج وہی جوڑا کوٗڑے دان میں پڑا تھا۔