گلدستہ

رضیہ شمع

’’بھئی میں تو تھک گئی ہوں تم لوگ جاؤ اور آگے گھوم آؤ۔‘‘ میں نے ٹھنڈی گھاس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ اصرار کے بعد مان گئے۔ قریب ہی بینچ پر دو خواتین بیٹھی تھیں، ماں بیٹی معلوم ہوتی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میرے دونوں بچے بھاگتے ہوئے آئے: ’’ممی یہ دیکھئے، ہم آپ کے لیے کیا لائے ہیں۔‘‘ ایک بہت خوبصورت گلدستہ مجھے دیتے ہوئے بولے۔
’’ارے کتنا پیارا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ممی! ہمیں پتہ ہے کہ آپ کو گلدستے پسند ہیں۔ ادھر مالی بیٹھا تیار کررہا تھا، ہم نے اس سے بڑی مشکل سے لیا ہے۔ پہلے تو مانتا ہی نہ تھا، مگر جب ہم نے اسے پیسے نکال کردیے تو ایک دم مان گیا۔ ہمیں تو ہر قیمت پر اپنی ماں کی خوشی چاہیے۔‘‘ زویا بولی: ’’ممی ویسے آج کل تو مصنوعی پھولوں کا اتنا رواج ہورہا ہے کہ کبھی کبھی اصل و نقل کی پہچان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہمارے کالج میں فائن آرٹس کی لڑکیاں بہت عمدہ پھول بناتی ہیں۔ میں آپ کو لاکر دوں گی۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں مجھے تو اصلی پھول پسند ہیں۔ ان میں جو نزاکت اور خوشبو ہے وہ ان میں کہاں۔‘‘
’’اچھا ممی! ہم ذرا اور گھوم کر آتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے جاؤ!‘‘ اور میں گلدستے کو ہاتھ میں لے کر اس میں گم ہوتی گئی۔ وہ گلدستہ بھی بالکل ایسا ہی تھا، آج سے بائیس سال پہلے جب میں ایک سادہ سی لڑکی تھی، ہمارا ایک چھوٹا سا گھر تھا، جس میں ہم چار افراد رہتے تھے، امی، ابو، باجی اور ماں۔ ہم غریب لوگ تھے۔ زندگی کی اتنی سہولتیں میسر نہ تھیں۔
ابو کی چھوٹی سی دوکان تھی، اس کے باوجود ہم قناعت کے ساتھ مطمئن زندگی گزارتے تھے۔ باجی جو ان پڑھ تھیں۔ ابو نے باجی کے لیے ایک اچھا لڑکا ڈھونڈ لیا۔ وہ بنگلور کے ایک آفس میں کلرک تھا۔ پھر جلد ہی باجی کی شادی ہوگئی اور باجی اپنے گھر چلی گئیں۔ میرے بہنوئی بہت اچھے تھے۔ میرا کوئی بھائی نہ تھا مگر انھوں نے یہ کمی پوری کردی۔ میں انہیں بھیا کہتی تھی۔ باجی ہم سے ملنے آتیں تو اس شہر کی تعریفیں کرتیں۔ وہ کہتیں: ’’انجو! بنگلور بہت اچھا شہر ہے، بہت بڑا بہت پیارا، لوگ اسے باغوں کا شہر کہتے ہیں۔ وہاں رات کا تو پتہ ہی نہیں چلتا، لوگ رات بھر گھومتے رہتے ہیں، دوکانیں کھلی رہتی ہیں۔ تمہارے بھیا مجھے شام کو گھمانے لے جاتے ہیں اور ہم رات گئے لوٹتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کو خوف نہیں آتا ؟‘‘
’’بھئی اپنے شہر میں اپنے وطن میں خوف کیسا؟ وہاں لوگ اپنے کام میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان فضول باتوں کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔‘‘ باجی اس شہر کی اتنی تعریفیں کرتیں کہ اسے دیکھنے کے لیے میرا دل مچلنے لگتا۔ میں نے امی ابو سے کئی بار باجی کے ساتھ جانے کی ضد کی مگر وہ ٹال جاتے کہ تمہارے بغیر گھر بالکل خالی ہوجائے گااور ہم اداس ہوجائیں گے۔
ایک بار باجی کی آمد پر میں نے ان کے ساتھ جانے کے لیے بہت اصرار کیا پھر باجی اور بھیا کی مدد سے امی ابو کو راضی کیا اور میں ان کے ساتھ چلی گئی۔ وہ میرے خوابوںکا شہر تھا۔ روشنی ہی روشنی، سکون ہی سکون۔ باجی کا گھر شہر کے اہم اور گنجان آباد علاقے میں دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا پیارا گھر تھا۔ باجی اور بھیانے مجھے مقدوربھر گھمایا پھرایا اور اہم مقامات دکھائے۔ باجی گھر کا سارا کام خود کرتیں۔ میں ان کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتی تو وہ کہتیں تم کام کرنے تھوڑی آئی ہو، آرام سے بیٹھو۔ میں گھر میں بور ہونے لگی۔
باجی کے ہمسائے بھی بہت محبت کرنے والے تھے۔ باجی کے محلے میں خاصے تعلقات تھے۔ کچھ دنوں میں ہمسایوں کے چند بچوں سے میری دوستی ہوگئی۔ وہ مجھ سے کہانیاں سننے آیا کرتے۔ باجی کے گھر سے تھوڑی دور ایک پارک تھا جسے سب باغیچہ کہتے تھے۔ اس میں پھولوں کے علاوہ تین جھولے بھی تھے۔ چار بجے وہاں بچے آنا شروع ہوجاتے اور جھولوں پر بچوں کی بھیڑ ہوجاتی۔ میں باجی سے پوچھ کر چار پانچ بچوں کو ساتھ لے کر باغیچے میں چلی جاتی۔ گو میں ان بچوں سے کافی بڑی تھی، مگر بچوں کے ساتھ بچی بن جاتی اور ان کے ساتھ جھولے جھولتی اور کھیلتی رہتی۔ جھولے کم تھے اور بچے زیادہ۔ ہمیں جھولوں کے لیے کافی انتظار کرنا پڑتا۔ آخر میں نے بچوں کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا کہ باقی بچے تو چار بجے آتے ہیں ہم تین بجے باغیچے میں آیا کریں گے اور خالی باغیچے میں جی بھر کر لطف اٹھائیں گے۔ اگلے دن ہم نے ایسا ہی کیا اور پھر ہم روزانہ ہی ڈھائی تین بجے باغیچے میں ہوتے۔
اس باغیچے کا ایک بوڑھا مالی بھی تھا۔ میلے کپڑے پاؤں میں ٹوٹی سی چپل۔ وہ باغیچے کی بڑی حفاظت کرتا اور پھولوں کے قریب تو کسی کو پھٹکنے بھی نہیں دیتاتھا۔ ایک دن ہمارے ساتھی بچے نے ایک پھول توڑ لیا۔ مالی بابا نے ہمیں بہت جھڑکیاں دیں۔ ہم مالی بابا سے بہت ڈرتے تھے۔ اس نے مجھے کئی بار ڈانٹا تھا کہ تم لوگ وقت سے پہلے کیوں آجاتے ہو۔ میں نے کہا: ’’مالی بابا! ہم آپ کا کوئی نقصان نہیں کرتے۔‘‘ ایک ماہ ایسے ہی گزر گیا۔ ایک دن بھیا آفس سے لوٹے تو ان کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔ ابو نے لکھا تھا کہ انجو کو جلدی چھوڑ جاؤ، کالج کھل رہے ہیں۔ میں نے تیاری شروع کردی۔ واپس آنے سے ایک دن پہلے ہم باغیچے میں گئے تو باغیچہ خالی پڑا تھا۔ ہم گھنٹہ بھر کھیلتے رہے۔ واپس آنے سے پہلے میں مالی بابا کے پاس گئی۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ میں نے کہا:
’’بابا! ہم جارہے ہیں۔‘‘
’’تو جاؤ۔‘‘وہ بے پروائی سے بولا۔
’’میرا مطلب ہے میں جارہی ہوں۔‘‘
’’تو کل پھر آجاؤگی۔‘‘ وہ بولا
’’نہیں بابا! اب میں کبھی نہیں آؤںگی۔ میں اپنے گاؤں جارہی ہوں، اپنے گھر۔‘‘ بابا ایک دم چونک گیا۔ ’’تو تمہارا گھر یہاں نہیں ہے۔‘‘
’’میں تو یہاں مہمان تھی۔ اپنی باجی سے ملنے آئی تھی۔‘‘
’’اوہ تو تم باہر سے آئی ہو۔‘‘ بابا کے چہرے پر بے پناہ شفقت پھیل گئی۔ ’’بیٹی تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی۔ میں ایسے میں تمہیں ڈانٹتا رہا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں بابا! آپ بڑے ہیں ڈانٹ لیا تو کیا ہوا۔‘‘ بابا بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ سب کچھ میں نے اسے پہلے کیوں نہیں بتایا پھر وہ جذبات سے مغلوب ہوکر بولا: ’’ٹھہرو، میں ابھی آتا ہوں اور وہ جاکر بڑی بے دردی سے پھول توڑنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بہت پیارا سا گلدستہ بناکر لے آیا اور مجھے دیتے ہوئے کہا: ’’یہ لے جاؤ۔‘‘ میں نے گلدستہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو بابا کی آنکھوں میں محبت، خلوص، شفقت، ہم وطنی اور تمام نیک جذبے سمٹ کر آنکھوں میں تیرنے لگے۔ میں عجیب احساس لیے گھر آگئی اور گلدستے کو ایک گلاس میں پانی بھر کر باجی کے کمرے میں ایک چھوٹی سی ٹیبل پر رکھ دیا۔ میں نم آنکھوں سے گلدستے کو دیکھنے لگی۔ ایک ایک پھول اور پتی سے بابا کی شفقت کے جذبے پھوٹ رہے تھے۔ میں سوچنے لگی: ’’ہم خواہ الگ الگ شہروں میں رہتے ہیں، زبانیں الگ ہیں مذہب الگ ہیں مگر وطن ایک ہے، ہم سب ایک ہیں، ایک جذبے میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں۔‘‘ صبح جب ہم گھر سے اسٹیشن کے لیے ٹیکسی میں سوار ہونے لگے تو میں نے گلدستہ بھی اٹھالیا۔ بھیا بولے: ’’انجو یہ پھول ہیں، یہ اتنے لمبے سفر میں کہاں لیے پھروگی، یہ تو راستے ہی میں مرجھا جائیں گے۔‘‘ میں نے اسے دوبارہ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، یہ پھول کبھی نہیں مرجھائیں گے، کبھی نہیں۔‘‘ اس کے بعد میرا کبھی بنگلور جانے کا اتفاق نہ ہوا۔ باجی وہ گھر چھوڑ کر ایک دوسرے بڑے گھر میں منتقل ہوگئیں۔ باجی کئی بار آئیں مگر میں نے باجی سے اس گلدستے کے متعلق کبھی نہیں پوچھا، صرف اس خوف سے کہ باجی کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ وہ گلدستہ مرجھا گیا تھا۔
’’ یہ دونوں آپ کے بچے ہیں۔‘‘ عورت کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ وہ ماں بیٹی مجھے اکیلا دیکھ کر میرے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ ’’ہاں وہ میرے بچے ہیں۔‘‘ آپ کا بیٹا بہت اچھا ہے۔ آپ سے کتنی محبت سے بات کررہا تھا۔ میرا بیٹا بھی ایسا ہی تھا۔‘‘ وہ آہ بھر کر بولی۔
’’اب کہاں گیا؟‘‘
’’فوت ہوگیا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ میں نے ہمدردی سے پوچھا۔ پھر وہ بولی: ’’بنگلور تواب بڑا غیر محفوظ شہر بن گیا ہے۔ کبھی فساد تو کبھی بم دھماکے۔ کاش وہ نہ جاتا!‘‘ میں اس سے آگے کچھ نہ سن سکی۔ مجھے یوں لگا جیسے باجی کی ٹیبل پر پڑا گلدستہ مرجھا گیا ہے اورکسی نے اٹھا کر اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ہے اور اس کی خوشبو کوڑے کے تعفن میں گم ہوتی جارہی ہے۔ پتہ نہیں وہ خواتین کب اٹھ کر چلی گئیں۔ جب میرے بچے واپس آئے تو میں زاروقطار رو رہی تھی۔ ’’ممی کیا ہوا؟‘‘ انھوں نے بے قابو ہوکر مجھے تھام لیا۔’’کچھ نہیں ہوا۔‘‘
’’نہیں ممی، خدا کے لیے بتائیے، کیا ہوا ہے آپ کو!‘‘
’’بچو! میرا گلدستہ۔‘‘ میں نے روتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا گلدستے کو‘‘ انھوں نے پوچھا۔ ’’وہ مرجھا گیا ہے، بکھر گیا ہے، اس کی خوشبو اڑ رہی ہے۔‘‘ عثمان حیرانی سی بولا: ’’ممی کیا ہوگیا ہے آپ کو، باہر نکل کر بھی وہی ڈپریشن، وہی پاگل پن کی باتیں۔ گلدستہ تو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ تروتازہ اور خوشبو سے مہکتا ہوا۔ یہ دیکھئے!‘‘ میں نے کہا: ’’بیٹا میری ایک بات مانوگے؟‘‘
’’ہاں ممی، میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔‘‘
’’میں چلتے چلتے تھک گئی ہوں۔ میرے ہاتھ کمزور ہوگئے ہیں۔ یہ گلدستہ پکڑ لو۔ اپنے ہاتھوں میں مضبوطی کے ساتھ!‘‘ میرے بیٹے نے میرے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ’’بس اس ذرا سی بات کے لیے رو رہی ہیں آپ!‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں