گل بانو

ڈاکٹر احمد سعید خان غوری

۴۵ برس پہلے کا واقعہ ہے۔ گل بانو ایک حسین و جمیل دوشیزہ تھی، البتہ اس کی بائیں آنکھ میں پھولا تھا۔ شادی کے پیغام آتے، مگر آنکھ کا پھولا دیکھ کر پیغام لانے والی خواتین واپس چلی جاتیں۔ گل بانو کی چھوٹی بہن گو اس جیسی خوبصورت تو نہ تھی، مگر آنکھیں بڑی پیاری اور بے عیب تھیں۔ آنے والیاں چھوٹی کا رشتہ مانگتیں۔ گھر والے یہ کہہ کر انکار کردیتے کہ بڑی کا ہوجائے تو چھوٹی کی بات کریں۔ سال پر سال گزرتے گئے۔ لڑکیوں کی عمریں بڑھتی رہیں اور والدین کے بال وقت سے پہلے سفید ہوگئے۔ ماں تومرجھائے ہوئے پھول کی طرح نظر آتی تھی۔

خدا کا کرنا ایک پٹھانی نوجوان کا رشتہ آیا وہ اسکول میں ٹیچر تھا۔ آنے والیوں نے دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔ رشتے کی بات پکی ہوگئی۔

دلہا نے جب دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا تو چیخ پڑا کہ میرے ساتھ دھوکا کیا۔ میں نے پھولے والی لڑکی قبول نہیں کی تھی۔ ’’ نکل جاؤ میرے گھر سے۔ تم میری منکوحہ نہیں ہو۔جاؤ اسی دم جاؤ میرے ساتھ تمہارے والدین نے دغا کی ہے۔‘‘

دلہن جس نے ابھی پوری طرح اپنے میاں کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ شب اول کا آغاز تھا، سہم گئی۔ تھر تھر کانپنے لگی۔ بولی: ’’یہ آنکھ میں نے نہیں بنائی، اللہ کی صنعت کاری ہے۔ میرے اختیار میں جو تھا وہ میں نے کیا۔ دین کی تعلیم حاصل کی، قرآن حفظ کیا، پردے میں رہ کر بی اے معاشیات امورِ خانہ داری کیا۔ میں اپنے علاقے کی واحد لڑکی ہوں جسے یہ اعزاز حاصل ہے۔‘‘

’’میں نے شادی ڈگری سے نہیں کی۔ بس تم فوراً نکل جاؤ میرے گھر سے۔ یہاں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

’’میرے سرتاج جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ تقدیر کا لکھا کون مٹا سکتا ہے۔ آپ مجھے بیوی نہ سمجھیں۔ میں آپ کی لونڈی ہوں۔ مجھے اپنے گھر میں رہنے دیں۔ میں اپنی تقدیر پر شاکر رہوں گی۔ آپ سے کوئی مطالبہ نہیں کروں گی۔ کسی کے سامنے زبان نہیں کھولوں گی۔ دل و جان سے آپ کی خدمت کروں گی۔‘‘ سہاگ رات دلہن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، ہچکی بندھ گئی۔ ہاتھ جوڑ کر بولی: ’’خان صاحب! مجھے گھر سے نہ نکالیں۔ مجھ بے دام کی لونڈی پر رحم کھائیں۔ میرے والدین کی عزت کا پاس کریں۔ آپ نے جو مہر کی رقم دی ہے، وہ ماں کی دی ہوئی یہ طلائی چوڑیاں بیچ کر ادا کردوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر گل بانو اٹھی اور صحن کے پار خستہ سی کوٹھری میں چلی گئی۔ ساری رات ایک جھل ملی چارپائی پر پڑی روتی رہی۔ کبھی کبھی یہ آواز سنائی دیتی: ’’اے اللہ! میں نے کیا قصور کیا ہے جس کی یہ سزا ہے؟ نہیں! میں جنم کی پاپن ہوں، منحوس ہوں میری وجہ سے میری چھوٹی بہن ابھی تک گھر بیٹھی ہے۔ میرا منحوس سایہ میرے والدین کے گھر سے اٹھ گیا ہے۔ میری پیاری ثمر بانو کی شادی اب ہوجائے گی۔میں اس گھر کی نوکرانی ہوں۔ یہ راز کسی پر ظاہر نہ کروں گی۔ ساری عمر سنگار نہیں کروںگی۔ ہندو بیوہ کی طرح میلے کچیلے کپڑے پہنوں گی۔‘‘

کوٹھڑی سے آواز آنی بند ہوگئی۔ شاید روتے روتے گل بانو کی آنکھ لگ گئی تھی۔ فجر کی اذانیں ہورہی تھیں۔ گل بانو ہڑبڑا کر اٹھی۔ جلدی سے عروسی جوڑا اتارا۔ دل سے آہ نکلی، ہائے کس چاؤ سے بنوایا تھا۔ ’’نہیں تم دلہن نہیں، نوکرانی ہو، لونڈی ہو۔ دل کڑا کیا۔ خان صاحب اس کا دلہا ابھی نہیں اٹھا تھا۔ کیا خوبصورت مردانہ چہرہ ہے، کڑیل پرکشش جسم! وہ شرما گئی۔ دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے جہیز کے بڑے صندوق سے سادہ سا جوڑا نکالا اور پہن لیا۔

سردی کا موسم تھا، سہاگ کی رات تھی، مگر وصالِ یار کہاں!

گل بانو نے خان صاحب کے غسل کے لیے پانی گرم کیا۔ مگر کچھ سوچ کر رو پڑی۔

ناشتا تیار کیا اور اپنی کوٹھڑی میں آکر ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ خان صاحب جب اسکول چلے گئے تو اس نے برتن صاف کیے، گھر میں صفائی کی۔ صحن میں جھاڑو دی۔ میلے کپڑے اٹھائے، بے ساختہ اس نے ایک بنیان کو چوم لیا۔ کیسی بھینی بھینی من موہنی خوشبو آرہی ہے۔ میلے کپڑے دھوکر دھوپ میں ڈال دیے۔ دوپہر کا کھانا تیار کیا۔ خان صاحب کے آنے کا وقت ہوا تو میز پر لگادیا۔ اور خود کوٹھڑی میں جاکر بیٹھ گئی۔

اسی طرح شب و روز گزرتے گئے۔ خان صاحب کے گھر کی کایا پلٹ گئی۔ سلیقہ اور راحت کی بہار آگئی۔ گل محمد نے ایسے سکون و آرام کے دن کہاں دیکھے تھے۔ یہ مزے اور آسائشیں دل میں گھر کرنے لگیں اس کا دل چاہتا کہ گل بانو کو آواز دے، آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ کیسا مزیدار تم نے پکایا ہے۔ قریب آکر بیٹھو، لیکن معاً اس کو آنکھ کا پھولا نظر آنے لگتا۔ پٹھان تھا اس کی گھٹی میں ضد بسی تھی۔

جب کوئی ملنے آتا تو گل بانو اچھے کپڑے پہن لیتی۔ان کی خاطر مدارات کرتی۔ خان صاحب کی تعریف کرتی کہ وہ میرا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ ہم دونوں میں بڑا پیار ہے۔ عورتیں کہتیں بانو تمہاری شادی کو دو سال ہونے کو آئے، مگر تمہاری گود ابھی خالی ہے۔ امید کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ گل بانو بظاہر شرما جاتی، مگر دل میں اک ہوک اٹھتی۔

گل بانو کی ماں ایک دن اس سے ملنے آئی: ’’بیٹا! تم اور گل محمد کبھی ملنے نہیں آئے۔ تمہارا باپ تمہاری شکل کو ترس گیا ہے۔ تم ٹھیک تو ہو نہ ۔۔۔ یہ تمہارے ہاتھوں کو کیا ہوا ہے۔ کیا گھر میں کوئی خادمہ نہیں ہے ۔۔۔۔ ہائیں تمہارے ہاتھ تو ننگے ہیں ۔۔۔ وہ سونے کی چوڑیاں کیا ہوئیں۔‘‘

گل بانو ہنس کربات ٹال گئی۔ ’’ثمر بانو کا کیا حال ہے کیا سچ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ میں ضرور آؤ ںگی۔‘‘

’’تم کانپ کیوں رہی ہو؟ یہ برف ایسے تمہارے ٹھنڈے ہاتھ، تمہیں کیا ہوا ہے۔‘‘

گل محمد کے آنے کا وقت ہورہا تھا۔ وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں یہ راز کھل نہ جائے کہ میں گھر میں مالکہ نہیں نوکرانی ہوں۔ خان صاحب بھڑک اٹھیں گے۔ وہ چاہتی تھی کہ ماں چلی جائے، کچھ خاطر بھی نہیں کرسکتی تھی۔ ماں پہلی دفعہ بیٹی کے گھر آئی تھی۔ مہمان نوازی کا خون ہورہا تھا۔ گل بانو آنسو دبائے بیٹھی رہی۔

گل بانو دل کڑا کرکے بولی: ’’ماں اب تم جاؤ۔ خان صاحب آنے والے ہیں۔ بغیر اطلاع کے تمہارا آنا ان کو ناپسند ہوگا۔‘‘

ماں، بیٹی کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گئی۔ اس نے پہلی دفعہ غور سے بیٹی کی آنکھوں میں جھانکا۔ جہاں موجود واحد آنکھ میں چھپے طوفان اسے اندرونی کہانی خاموش لفظوں میں سنا رہے تھے۔وہ سکتے کے عالم میں بیٹی کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر اس نے یکدم اسے سینے سے لگالیا۔ بیٹی نے صبر کا جو بندھ باندھ رکھا تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ وہ خوب روئی۔ اب ماں کے صبر کی باری تھی۔ آنسو پونچھ کر بولی:’’بیٹی! فتح تیری ہی ہوگی۔ ہمت نہ ہارنا۔۔۔ تیرے خاوند نے تجھے گھر سے نکالنے کے بجائے جو نوکر بنالیاہے اس سے مجھے یقین ہے کہ اس کے اندر اچھا انسان موجود ہے۔ اور وہ اچھا انسان ضرور جاگے گا۔۔۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے بیٹی اور داماد کے لیے لائے ہوئے تحفے وہیں چھوڑے اور دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوگئی۔

اس کے جانے کے چند منٹ بعد گل محمد آگیا۔ آتے ہی اس کی نظر دیسی گھی کے کنستر اور دوسرے خشک میوہ پر پڑی۔ بولا:’’یہ کون لایا تھا۔‘‘

’’اماں آئی تھیں۔ آپ کے لیے سوٹ بھی لائیں تھیں۔‘‘ گل بانو آنسو ضبط کرکے بولی۔

’’چلی گئیں کیا؟‘‘

’’ہاں۔ میں نے خود ہی بھیج دیا۔۔۔ وہ شاید اپنی بیٹی کو نوکرانی کے روپ میں نہ دیکھ پاتیں، اس لیے ۔۔۔‘‘ گل بانو کی آواز بھراگئی اور بات مکمل نہ ہوسکی، مگر گل محمد کا دل آج پہلی مرتبہ بری طرح ہلا تھا۔اس نے حسبِ معمول خاموشی سے کھانا کھایا اور کمرے میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ اس کا ضمیر آج اسے بہت تنگ کررہا تھا۔ پوچھ رہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو کس جرم کی سزا دے رہا ہے؟ کیا اس کی آنکھ کے پھولے میں اس کا کوئی قصور ہے۔۔۔ اور کیا معلوم وہ خود کب کسی حادثے کا شکار ہوکر اپاہج ہوجائے تو … آج اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ اسے یقین ہونے لگا کہ بیوی کا صبر اس پر خدا کا قہر بن کر نہ ٹوٹ پڑے۔ سوچوں کے انہی تانے بانے میں وہ الجھ کر رہ گیا۔

سردی کی لمبی رات گزرنے میں نہیں آئی تھی۔ گل محمد بار بار کروٹ بدلتا، مگر نیند کہاں! آخر مرد تھا اور گھر میں جوان، کنواری، مظلوم اور خدمت گار لڑکی اس کی بیوی کی صورت میں موجود تھی۔ وہ اٹھا اور اس کی قیام گاہ کی طرف چل پڑا۔

گل بانو کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ غریب ڈر گئی۔ سہمی سہمی بولی: ’’کون؟‘‘

’’میں ہوں گل محمد۔‘‘

’’خانصاحب کیا آپ کی طبیعت ناساز ہے؟ کیا آتش دان کی آگ بجھ گئی ہے؟‘‘

’’نہیںمیرے دل کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔‘‘ گل محمد نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔

لرزتے ہوئے ہاتھوں سے گل بانو نے دروازہ کھولا اور گل محمد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کھینچ لیا۔’’میری دلہن‘‘

گل بانو نے یہ خواب کئی بار دیکھا تھا۔ لیکن آج یہ خواب نہیں تھا۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146