الارم کی گھنٹی سنتے ہی جہاں آرا بیگم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھیں۔ سب سے پہلے انھوں نے ہاتھ بڑپا کر الارم بند کیا۔ ’’نہ جانے اس شفیق کو کیا ہوگیاہے!‘‘ وہ بڑبڑائیں ’’کہا تھا الارم والی گھڑی لادو تاکہ نماز کے وقت اٹھنے میں کچھ آسانی ہو، لاکر دی تو ایسی گھڑی کہ اتنے زور سے بجتی ہے کہ سینے میں دل دھڑدھڑانے لگتا ہے، گویا صور اسرافیل پھونک دیا گیا ہو۔ توبہ توبہ اب شفیق سے کوئی چیز منگواؤں، توبہ۔‘‘
نماز پڑھ کر جیسے ہی قرآن کھولا تاکہ معمول کے مطابق تلاوت کرپائیں، ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ آگیا۔ نہ جانے اس میں کیا لکھا ہوگا؟ تجسس کے ساتھ انھوں نے نظر کا چشمہ آنکھوں پر ٹکایا اور لفافہ کھول کر خط پڑھنا شروع کردیا:
’’محترمہ جہاں آرا بیگم! بہت ہی افسوس کا مقام ہے کہ جس گھر میںآپ ہی سب سے بڑی ہوں، وہیں آپ کو غیبت جیسے قبیح فعل میں ملوث پایا جائے جو حرام ہے تو اس گھر کے چھوٹے بھی آپ سے یہی کچھ سیکھیں گے۔ آپ کو چاہیے کہ خود بھی اس حرام کام سے بچیں اور بچوں کو بھی بچائیں۔ والسلام خیر اندیش‘‘
’’پتا نہیں کون منحوس ہے! ایک تو یہ منحوس لفظ میری زبان پر ایسا چڑھا ہے کہ اترتا ہی نہیں۔‘‘ ان کو اس سے پہلے والا خط یاد آگیا جس میں ان کو غلط الفاظ کے استعمال سے بچنے کی ترغیب دی گئی تھی۔
’’کیا ہوا ہے اماں! کس کا خط ہے؟‘‘ سامنے سے آتے شفیق نے سوال کیا تو وہ گھبرا سی گئیں۔
’’کچھ نہیں بیٹا ایسے ہی…‘‘ وہ تو کہو رضیہ نے بروقت آواز دے لی: ’’بیگم صاحبہ!‘‘
’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟‘‘ ان کے منہ سے گھبرائے ہوئے انداز میں نکلا اور ساتھ ہی انھوں نے پرچے کو کمر کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ رضیہ بھی ان کے گھبرانے سے گھبرا سی گئی تھی اور بھول گئی کہ وہ کیاکہنا چاہ رہی تھی۔ ’’ہاں ہاں بولو کیا بات ہے؟‘‘ انھوں نے جھنجھلا کر پوچھا: ’’وہ بیگم صاحبہ میں جاؤں؟ میری ماں کی طبیعت بہت خراب ہے۔‘‘
’’نہیں کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ان کا لہجہ سخت ہوگیا۔ ’’آج مشین بھی لگانی ہے۔‘‘
یہ سن کر رضـیہ کا چہرہ لٹک گیا اور مایوسی کے ساتھ واپس پلٹی۔ ’’اچھا ٹھہرو!‘‘ خلافِ معمول ان کی آواز نرم پڑگئی:’’تم ا س وقت چلی جاؤ، کل جلدی آکر مشین لگا لینا۔‘‘ ایسا آج پہلی بار ہوا تھا، رضیہ کا منہ کھلا کا کھلارہ گیا۔ بیگم صاحبہ نے تو کبھی پہلے چھٹی نہیں دی تھی۔ اس نے فوراً باہر کی جانب دوڑ لگادی جیسے اس کو شبہ ہو کہ مبادا بیگم صاحبہ کا ارادہ بدل نہ جائے۔ اس کے جاتے ہی جہاں آرا بیگم تھکے تھکے قدموں سے بیڈ پر بیٹھ گئیں اور ہاتھ میں پکڑا ہوا پرچہ پڑھنے لگیں۔ اس میں انہیں گھر کے نوکروں اور ماسیوں سے اچھا رویہ رکھنے کی تلقین کی گئی تھی اور باور کرایا گیا تھا کہ وہ بھی انسان ہیں اور مسلمان بھی، اور اکرامِ مسلم کو تو اللہ نے فرض کیا ہے۔ انھوں نے پرچہ تہہ کیا اور سوچنے لگیں آخر کون یہ پرچے لکھ رہا ہے۔ ان کو اس سے پہلے والا رقعہ بھی یاد آگیا جس میں انہیں فضول خرچی سے رکنے کی تلقین کی گئی تھی، حالانکہ یہ بات تو وہ بھی مانتی تھیں کہ اس ماہ انھوں نے کئی جوڑے جوان کی ضرورت سے زائد تھے، بنائے تھے۔ لیکن یہ ہے کون؟ وہ پھر تجسس کے ساتھ بڑبڑائیں۔
’’بھئی عثمان یار! کہاں جارہے ہو۔ اتنی جلدی! ابھی تو صرف رات کے نو بجے ہیں۔‘‘ خالد نے اسے روکنا چاہا۔
’’نہیں یار آج موڈ نہیں ہے۔‘‘ عثمان کے انداز میں آج بیزاری تھی۔
’’کیوں کیا ہوا؟ ایسی زبردست فلم لایا ہوں جو تم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی۔‘‘ خالد نے اسے لالچ دیا۔
’’نہیں بھئی آج فلم دیکھنے کا موڈ ہی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر عثمان نے اپنے قدم آگے بڑھا دیے۔ خالد محوِ حیرت کہ یہ عثمان کو آج کیاہوگیا؟ ’
’شاید اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘ عمیر کے انداز میں تشویش تھی۔ ’’صبح ہی سے اکھڑی اکھڑی باتیں کررہا تھا۔ کالج میں بھی اس کا رویہ ٹھیک نہیں رہا۔ آج تو رات گئے فلم بینی کا پروگرام طے تھا، ایسی زبردست فلم کا اہتمام کیا اور اب …‘‘ خالد کا انداز بجھا بجھا سے تھا۔
’’ارے ہم تو ہیں تو کیوں دل چھوٹا کررہا ہے۔‘‘ عمیر نے اس کو تسلی دی اور دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر زور دار قہقہہ لگایا اور کمپیوٹر کے سامنے جم کر بیٹھ گئے۔
عثمان خالد کے گھر سے نکلا تو خود ہی اپنے رویے پر حیرت زدہ تھا۔ آخر مجھے ہو کیا گیا ہے؟ صبح سے دل میں گھبراہٹ اور بے چینی محسوس ہورہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج جب وہ گھر پر پہنچے گا تو گھر والوں کے تاثرات کیا ہوں گے؟ دادی کا منہ تو حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جائے گا۔ اس تصور سے ہی اسے ہنسی آگئی۔ آخر مجھے ہوا کیا ہے؟ اس نے پھر اپنے آپ کو ٹٹولا اور ساتھ ہی اس کے ذہن میں کل والا منظر تازہ ہوگیا۔جب وہ رات گئے گھر پلٹا اور اپنی الماری کھولی تو سامنے ہی پڑے نیلے رنگ کے لفافے نے اس کی توجہ اپنی جانب کرلی۔ جلدی سے لفافہ چاک کیا اور اندر سے برآمد ہونے والے مختصر سے خط کو پڑھنے کے بعد سے ہی اس کے اندر ایک قسم کی گھبراہٹ اور بے سکونی ہوگئی جس نے اس کو اپنے معمولات ترک کردینے پر اکسایا تھا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے دل کو ٹٹولا۔ آج دل کیسا مطمئن ہے۔ سب گھر والوں کے ساتھ ایک دسترخوان کے گر بیٹھ کر کھانا کھانے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ اس نے محسوس کیا ابا کتنے خوش ہیں اورامی … جیسے ان کی خواہش ہو کہ وہ مجھے ہی سب کچھ کھلا دیں، اور جب میں نے دادی اماں سے صبح سے نماز کے لیے بیدار کرنے کو کہا تو کیسے انہیں اچنبھا ہوا تھا اور امی سے راز دارانہ انداز میں پوچھ رہی تھیں ’’نفیسہ کہیں میرے کان تو نہیں بج رہے‘‘ اور امی نے کیسے ان کا ہاتھ دبایا دیا جیسے انہیںخوف ہو کہ کہیں میں سن نہ لوں۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس خوشگوار تبدیلی کا سبب کیا تھا، وہ مختصر سا پرچہ یا وہ حادثہ یا پھر دونوں ہی!
جب اس نے لفافہ چاک کرکے خط پڑھا تھا، جس میں اسی کو مخاطب کرکے بتایا گیا تھا کہ تم جانتے ہو زندگی چند روزہ ہے،اور ہم محض آج ہیں کل نہیں ہوں گے، پھر کیوں نا ہم ایسی زندگی گزاریں جو ہمارے خالق کی پسندیدہ ہو اور جس میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں اور کامیابیاں پوشیدہ ہوں۔‘‘ یہ خط کیا تھا اس کے لیے ایک تازیانہ تھا۔ یہ یقینا دادی اماں کا کارنامہ ہے، ہونہہ… اس نے برا سا منہ بنایا، یہی تو زندگی ہے، پھر کسے خبر۔ لیکن جب گھر سے نکلنے کے بعد تھوڑی ہی دور اس نے وہ روح فرسا منظر دیکھا تھا تو اپنی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے رگڑ ڈالا کہ وہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ دو نوجوان اسکوٹر سواروں نے سنگل کی پروا نہ کرتے ہوئے روڈ کراس کرنے کی کوشش کی تھی اور پھر ایک موقع پر ہلاک اور دوسرا اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکا تھا۔ معاً دماغ میں ایک چھناکا ہوا تھا، خط کے الفاظ تھے: اللہ کے احکامات کو نہ ماننے والے کی یقینی بربادی۔ اُف رولز آف روڈ نہ ماننے والے کا یہ انجام تو حدود اللہ کو نہ ماننے کا انجام؟ اُف! اس کے بعد نہ تو کالج میں اس کا دل لگا اور نہ دوستوں کی رنگین محفل میں اس کو لطف آیا تھا۔
شفیق صاحب اپنے کمرے میں مطالعے میں مصروف تھے۔ اماں نے بیٹے کے کمرے میں قدم رکھا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ ماں کے فکر مند چہرے کو دیکھ کر انھوں نے پوچھا۔
’’وہ بیٹاایک بات ہے، کوئی مجھے مسلسل خط لکھ رہا ہے۔‘‘
’’خط لکھا رہے؟ کون لکھ رہا ہے خط؟‘‘ وہ پریشان ہوگئے تھے۔
’’مجھے تو تمہاری بیوی کی شرارت لگتی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’یہ دیکھو۔‘‘ انھوں نے ان کے ہاتھ میں ایک پرچہ پکڑا دیا ۔ لکھا تھا:
’’محترمہ جہاں آرا صاحبہ! عرض یہ ہے کہ آپ کھانا کھاتے ہوئے،کھانے میں بہت عیب نکالتی ہیں جو اچھی بات نہیں۔ کھانے کاادب یہ ہے کہ کھانے پر تنقید نہیں کرنی چاہیے بلکہ جو بھی اللہ نے عطا کیا ہو، شکر ادا کرکے کھا لینا چاہیے، نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں کھانا بھی میسر نہیں ہوتا۔ فقط۔ ایک خیر خواہ۔‘‘
شفیق صاحب کے ذہن میں رات کا منظر گھوم گیا۔ جب اماں نے سالن میں مرچ زیادہ ہونے کا اتنا تذکرہ کیا کہ نفیسہ بیگم کا موڈ آف ہوگیا۔ انھوں نے اماں کی طرف شرمندگی سے دیکھا ’’اچھا اماں میں معلوم کروں گا۔‘‘
’’بیٹا میں بہت پریشان ہوں، مجھے اب تک ۵ خطوط موصول ہوچکے ہیں۔ ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا ہے جانے کب کیا لکھا ہوا مل جائے۔ ذرا اپنی بیوی کو سمجھاؤ کہ ساس بیمار اور بوڑھی ہے اسے ایسے پریشان نہ کرے۔‘‘ جہاں آرا بیگم کی آواز میں رقت تھی۔ ’’میں اپنی اصلاح کی پوری کوشش کروں گی لیکن معلوم تو ہو یہ کون ہے؟ ہر وقت سوچ سوچ کر میرے سر میں درد رہتا ہے۔‘‘
ادھر شفیق صاحب نے جب بیوی کو ٹٹولا تو گویا وہ بھی بھری بیٹھیں تھیں ’’یہ تومجھے خود ان کی شرارت لگتی ہے اور الزام مجھ پر۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے بھی اپنی الماری سے پانچ خطوط شفیق صاحب کے سامنے لادھرے۔
’’تمہیں معلوم ہے نفیسہ! اماں کی تحریر ایسی نہیں ہے، وہ اتنا صاف لکھ بھی نہیں سکتیں، ان کے ہاتھ میں لرزہ ہے، پھر وہ خود اپنے آپ کو خط لکھنے سے رہیں۔‘‘
’’ہاں یہ تو ہے۔‘‘ نفیسہ بیگم بھی قائل ہوگئیں۔
جب سے وہ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ اکرام صاحب اپنی کتاب واپس لینے آگئے۔ اکرام صاحب کو کتاب دیتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بات ان کے ذہن میں آکر اٹک رہی ہو۔ ’’ارے واہ‘‘ شفیق صاحب جوش میں بسترسے اٹھ کر بیٹھ گئے، حسن البناؒ نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا جب وہ بچے تھے اور بڑوں کی اصلاح کا سوال ان کے ذہن میں پیدا ہوا تھا۔ انھوں نے اپنے چند ہم راز دوستوں کے ساتھ مل کر خطوط لکھنے شروع کیے اور بڑوں کی اصلاح بھی بحسن و خوبی کرتے چلے گئے۔ ہمارے ہاں کون حسن البنا کا شاگرد براجمان ہوا ہے۔ وہ سوچ کے گھوڑے دوڑانے لگے۔ ’’اوہو! یہ تم ہو ماریہ بی بی! ماریہ، ماریہ ! بیٹا یہاں آئیے بلکہ ایک پیالی چائے بناکر اسٹڈی روم میں لیتی آئیے۔‘‘ اور جب ماریہ چائے لے کر اسٹڈی روم میں آئی تو شفیق صاحب نے اسے اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا اور اپنے ہونٹوں پر آئی مسکراہٹ کو چھپا کر انھوں نے ماریہ سے پوچھا : ’’بیٹا یہ خطوط آپ نے لکھے ہیں؟‘‘
’’جی!‘‘ ماریہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔
’’ارے میں تو آپ کو بڑا بے وقوف سمجھتا تھا، آپ تو بڑی ہوشیار نکلیں۔‘‘ وہ کھل کر مسکرا دییے۔
’’مگر ایک سوال ہے، آپ نے مجھے کوئی خط کیوں نہیں لکھا؟ کیا مجھ میں کوئی غلطی نہیں؟‘‘ انھوں نے سوال جڑ دیا۔
’’وہ مجھے احساس تھا کہ آپ فوراً سمجھ جائیں گے۔‘‘ ماریہ نے سر جھکا لیا۔
’’اچھا اب میں منتظر رہوں گا اپنی غلطیوں کی نشاندہی کے لیے۔‘‘ انھوں نے شرارت سے ماریہ کے سر پر ہلکی سی چپت رسید کردی۔
’’لیکن ماریہ یہ رائٹنگ تو آپ کی نہیں ہے؟‘‘
’’وہ میں نے الٹے ہاتھ سے لکھا تھا۔‘‘
انھوں نے حیرت اور ستائش بھری نظروں سے ماریہ کو دیکھا: ’’مجھ کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ میری بیٹی اتنی باصلاحیت ہے، لیکن صرف یہ خیال رکھیے گا کہ آپ کی امی اور دادی کی لڑائی نہ ہو۔‘‘
’’ابو آپ پلیز کسی کو نہ بتائیے گا۔‘‘
ماریہ کا اڑا اڑا رنگ دیکھ کر وہ مسکرادیے۔
——