گم شدہ دوست کی تلاش

مرزا خالد بیگ

آج میں آپ کو اپنے ایک مرحوم دوست کا ذکر سناتا ہوں۔ اس کے مرنے کی تصدیق تو نہیں ہوسکی لیکن مجھ سے بچھڑنے سے پہلے جس طرح ملا، اس سے مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ضرور مرگیا ہوگا۔ کیونکہ وہ موت کو سب سے بڑی سچائی کہتا تھا۔ بہرحال وہ زندہ ہو یا سچ مچ مرگیا ہو(اللہ اس پر رحم فرمائے) مرحوم کا یہی معنی ہے۔ اسی لیے میں اسے مرحوم ہی لکھوں گا۔ تاکہ اللہ اس کے حال پر رحم کی بارش کرتا رہے (آمین!)
تو میں ذکر کررہا تھا اپنے مرحوم دوست کا۔ عجیب آدمی تھا، بلکہ بے حد عجیب۔ نہیں، اسے عجیب نہیں کہا جاسکتا، بلکہ نرالا کہہ سکتے ہیں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے وہ نرالا ہی تھا۔ شکل و صورت تو عام سی تھی، لیکن دیکھنے والوں کو ذرا سا الگ دکھائی دیتا تھا۔ بھری محفل میں لگتا تھا کہ وہ محفل میں ہوتے ہوئے بھی تنہا ہے۔ اور تنہائی میں بھی اپنے آپ میں انجمن نظر آتا۔ پہلے پہل اس سے ملیے تو لگتا تھا کہ یہ تو لوہے کا چنا ہے۔ لیکن جب ذرا گھل مل گئے تو لگا کہ یہ تو کپاس کا پھول ہے۔ انتہائی نرم۔ کوئی آزردہ دل ذرا دیر کے لیے اس کے پاس بیٹھتا تو آزردگی بھول کر پھول کی طرح کھل اٹھتا اور اپنے غم بھلا دیتا۔ سیروسیاحت کا شوقین تھا۔ لیکن ہر ملاقات کے بعد جب رخصت ہوتا تو اس کے مخصوص الفاظ کانوں سے ٹکرا کر فضا میں بکھر جاتے۔ جب وہ کہتا: ’’اچھا دوست زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ کہا سنا معاف کرنا۔‘‘
اور جب وہ قدم بڑھاتا ہوا نکل جاتا تو کچھ دور جاکر پلٹتا اور اپنا داہنا ہاتھ ہوا میں لہرا کر مسکراتے ہوئے دوبارہ اپنی راہ لیتا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ بھی کچھ کم غمگین نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس کے جانے کے بعد سب کے ذہن میں ایسی کیفیت رہتی کہ پتہ نہیں وہ دوبارہ کب آئے گا۔ مجھ سے اس کی بہت بے تکلفی تھی۔ جب ترنگ میں ہوتا تو اس کی باتیں بہت بھلی لگتی تھیں۔ کیونکہ بے تکلفی میں وہ بالکل بناوٹ اور تصنع سے بالاتر ہوجاتا۔ اس کا ایک مخصوص انداز تھا، میرے ساتھ بات کرنے کا ۔ میرے قریب آتا میری آنکھوں میں آنکھیںڈالتا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہتا: ’’یار خالد! سچ بتا، تو مجھ سے بور تو نہیں ہوتا کیونکہ میں جتنی باتیں تجھ سے کرتا ہوں، کسی اور سے نہیں کرتا۔ جب تجھ سے بات کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میں اپنے آپ سے بات کررہا ہوں۔‘‘ پھر باتوں میں لگ جاتا۔
ایک دن بہت اچھے موڈ میں میرے پاس آیا کہنے لگا: ’’یار خالد! تھک گیا ہوں۔ اب کسی جگہ ٹھکانہ رکھنا چاہتا ہوں۔ جہاں رک کر کچھ لکھنے پڑھنے اور جو کچھ سیکھا ہے دوسروں کو سکھانے کا کام کروں۔ اور اپنی اصلاح کی فکر کروں۔‘‘ مجھے لگا کہ گھومتے پھرتے اسے کوئی جگہ راس آگئی ہے، جہاں یہ سستانا چاہتا ہے تاکہ تازہ دم ہوکر کچھ کرنے کے لائق بن جائے۔ بہت خوش خوش دکھائی دیتا تھا اور ہمیشہ اپنے آشیانے کا ذکر کرتا اور اکثر یہ شعر گنگناتا:
تن پہ سایہ کرنے کو سائباں تو ملتا ہے
روح کے سلانے کو آشیاں نہیں ملتا
لیکن مجھے لگا کہ اس کو آشیاں بھی مل گیا ہے، اسی لیے اتنا خوش دیکھا گیا جتنا پہلے کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ اور آشیاں کی تیاری میں وہ تنکہ تنکہ جوڑنے میں لگ گیا۔ سہانے خواب بسانے لگا۔ اور خوابوں کی تعبیر کی فکر میں جٹ گیا پھر نہ جانے میرے مرحوم دوست کو کیا ہوگیا کہ چپ سادھ کر بیٹھ گیا اور جب میں چھیڑ چھیڑ کر پوچھتا کہ آخر بتا تو سہی کیا بات ہے جو اتنا اداس ہوگیا ہے، صرف مسکرا کر یہ شعر پڑھا اور مجھے گھورنے لگا:
یہ درد ہمارا اپنا ہے، یہ درد متاع عام نہیں
اس درد کی کوئی شکل نہیں، اس درد کا کوئی نام نہیں
خدا جانے کس درد میں تھا جو اسے اس قدر قیمتی بھی سمجھتاتھا اور زبان پر بھی نہ لاتا تھا۔
ایک اور عادت تھی اس کی جب حد سے زیادہ پریشان اور دکھی ہوتا تو بات چیت چھوڑ دیتا۔ شاید ڈرتا تھا کہ کہیں شکایت زبان پر نہ آجائے۔ اسی لیے میں جب اصرار کرکے پوچھتا تو آنکھیں موند لیتا اور دومنٹ بعد جب کھولتا تو دو موتی اس کے گالوں پر اترآتے اوروہ انھیں ہتھیلیوں سے پونچھتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوتا: ’’یار خالد! تو نے درد کا پوچھ لیا یہی بہت ہے، ورنہ آج کسے فرصت ہے۔ دیکھ آنسو درد کے ہوں یا غم کے یا خوفِ خدا کے، یہ روح کا مرہم ہیں، سکون دیتے ہیں۔‘‘ یہ بھی کہتا تھا کہ ستارے اور آنسو بالکل ایک جیسے ہیں۔ پھر گنگناتا:
نیند راتوں کی اڑادیتے ہیں، ہم ستاروں کو دعا دیتے ہیں
روز اچھے نہیں لگتے آنسو، خاص موقعوں پہ مزا دیتے ہیں
پھولوں سے بھی اس کو بہت لگاؤ تھا۔ کہتا تھا کہ انسانوں کے چہرے پھول جیسے ہوتے ہیں پھر ان سے نفرت کیسے کرسکتے ہیں۔ ہاں چبھن تو سہنا ہی پڑتی ہے ورنہ پھولوں کی راحت کیونکر ملے گی۔ وہ پھولوں اور انسانوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس کی اس سادگی اور فطرت پر مجھے کبھی غصہ آتا اور کبھی پیار۔ غصہ اس بات پر آتا کہ کہیں اپنا نقصان نہ کرلے اور پیار اس بات پر آتا کہ چلو ایک جگہ نقصان اٹھالے گا تو دس جگہ اسے سینے سے لگانے اور تھام لینے والے مل ہی جائیں گے۔
ایک اور بات تھی اس کی۔ کہتاتھا کہ میں بہت بے شرم ہوں۔ زندگی میں اس قدر حادثوں اور بیماریوں کے باوجود زندہ ہوں۔ شاید اسی لیے اپنے آپ میں شرمندہ رہتا تھا اور کہتا تھا کہ اب تک جو زندہ ہوں یہ بے شرمی کی زندگی ہی تو ہے جو گزار رہا ہوں۔ ورنہ شرم والا ہوتا تو کبھی کا شرم سے مرگیا ہوتا۔ اسی لیے تو یہ بھی کہتا تھا کہ یار میں تو مٹی کا بنا ہوں لیکن میری مٹی میں خلوص اور بے لوثی بھی ہے۔ غلطیوں کا پتلا مانتا تھا اپنے آپ کو۔ غلطی مان لینے اور الزام تک قبول کرلینے سے نہیں گھبراتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ جو آج الزام دیں گے کل وہی صفائی بھی دیں گے۔ کہتا تھا کہ انسان میں اچھائیاں خامیوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اسی لیے اچھائیوں کی قدر کرتا اور اپنے بارے میں بھی یہی کہتا تھا کہ ’’شاید مجھ میں کوئی اچھی بات ہے جو لوگ میری غلطیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور میری غلطیوں اور خامیوں کے ساتھ ہی مجھے چاہتے ہیں۔‘‘ پتہ نہیں کس مٹی سے بنا تھا کہ اس سے اختلاف کرنے والے بھی اسے سراپا محبت مانتے تھے۔ وہ دھوپ میں سایہ کی طرح تھا۔ جب آخری دفعہ ملنے آیا تو پہلی دفعہ اسے یہ گنگناتے ہوئے سنا:
کچھ خواب سہانے ٹوٹ گئے
کچھ ساتھ پرانے چھوٹ گئے
کچھ زخم لگے تھے باہر سے
کچھ اندر سے ہم ٹوٹ گئے
کچھ کشتی اپنی شکستہ تھی
کچھ ہم سے کنارے روٹھ گئے
میں نے پوچھ ہی لیا کہ تجھے آخر کیا ہوگیا ہے۔ تو کہنے لگا: ’’چھوڑ یار خالد، تو بھی بے کار باتوں میں پڑگیا، ورنہ دنیا میں میرے سوا بھی بہت لوگ ہیں۔ لیکن تجھے ایک شعر سناتا ہوں، پھر یہ شعر پڑھا:
غمِ جہاں کا فسانہ بہت طویل ہے دوست
ہماری ایک شبِ غم کی داستاں کیا ہے
پتہ نہیں اس کا سینہ تھا یا سمندر، اتنے غم اپنے اندر کیسے رکھتا تھا، اس کا یقین تھا کہ غم ہی تو اصل دولت ہے۔ کہتا تھا کہ ایک غمگین لمحہ صدیوں سے زیادہ لمبا ہوتا ہے، اسی لیے غم کے لمحات انسان کی زندگی کو بامعنی بنادیتے ہیں۔
میرے خیال میں وہ انسانیت کے غم کو دنیا کی دولت اور آسائش سے زیادہ قیمتی مانتا تھا۔ تبھی تو وہ وہاں نہیں رکتا تھا جہاں اس پر مطلب پرست ہونے کا شک کیا جانے لگے۔ اور اس کے خلوص پر آنچ آئے۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ اس کو میں اور سمجھنے والے ہی سمجھتے تھے کہ وہ اصول پرست ضرور تھا، موقع پرست نہیں تھا۔ وہ اصول پرست اس لیے تھا کہ اصولوں کی خلاف ورزی اور مسلسل خلاف ورزی انسان کے باطن کو کھوکھلا کردیتی ہے اور وہ انسان کچھ بھی کہنے اور کچھ بھی کردینے سے نہیں چوکتا۔ حقیر خواہشات اوردنیوی آرام وآرائش کے لیے اصولوں کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں اصولوں کی پابندی کے لیے آرام و آسائش کو ضرور قربان کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کے لیے رنج و غم اور تکلیف و نقصانات تک برداشت کرنا پڑیں تو کرنا ہوگا، کیونکہ نہ دنیا کا آرام ہمیشہ کا ہے اور نہ دنیا کی تکلیف و غم ہمیشہ کے ہیں۔ شاید وہ اصولوں کی بات کرتا تھا، اور اپنا ایک اصول احمد فرازؔ کے اس شعر میں بتاتا تھا:
شدتِ تشنگی میں بھی، غیرتِ میکشی رہی
اس نے جو پھیرلی نظر، میں نے بھی جام رکھ دیا
اب چونکہ وہ مجھ سے بچھڑ گیا ہے، مجھے ایک ہی فکر دامن گیر ہے۔ وہ یہ کہ کہیں انجان لوگ اسے پاگل سمجھ کر پتھر نہ ماریں، یااس کے پیروں میں بیڑیاں نہ پہنادیں، وہ مارنے والوں کو روکے گا بھی نہیں اور ہنس کے سہہ لے گا لیکن مجھے تعجب ہے کہ وہ خاموش سہہ تو لیتا ہے، لیکن جن کے ہاتھ میں پتھر ہوں گے انھیں کیسے مان لیا جائے کہ وہ عقل اور ہوش والے ہیں۔
خدارا کہیں میرے دوست کی طرح کا انسان آپ کی نظر سے گزرے تو اس کی مجھے اطلاع دیجیے۔ کیونکہ اس نے کسی معصوم کی معصومیت سے کھلواڑ نہیںکیا کہ پتھروں سے مارا جائے، اور اگر وہ اس دنیا میں نہ رہا ہو تو پھر بے فکری ہے کہ دنیا اور دنیا والوں سے اسے چھوٹ مل گئی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں