انسان طبعی اعتبار سے کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
خُلِقَ الْاِنْسَانَ ضَعِیْفاً۔
یہ کمزوری اس اعتبار سے ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات اس کی طبیعت پر شیطان غالب آجاتا ہے اور وہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ لیکن اللہ رب العزت کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کے لیے تو بہ کا دروازہ کھولا اور مزید یہ کہ انسان کے اچھے اعمال ایک طرف تو اس کو نیکیوں کا حقدار بناتے ہیں ، دوسری طرف اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تَنْہَوْنَ عَنْہٗ نُکَفِّرُ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیْماً۔ (النساء)
’’اگر تم ان بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو ہم تمہاری چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو جھاڑ دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ (جنت) میں داخل کریں گے۔‘‘
اس آیت میں بھی ایک خاص انعام خداوندی ذکر کیا گیا ہے وہ یہ کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچ گئے تو تمہارے چھوٹے گناہوں کو ہم خود معاف کردیں گے اور اس طرح تم ہر طرح کے بڑے چھوٹے اور کبیرہ و صغیرہ گناہوں سے پاک و صاف ہوکر عزت و راحت کے اس مقام میں داخل ہوسکو گے جس کا نام جنت ہے۔
آیت مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی دو قسمیں ہیں گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ۔
کبیرہ گناہوں سے بچنے کا مطلب ہے کہ تمام فرائض و واجبات کو ادا کیا جائے کیوں کہ فرائض و واجبات کا ترک کرنا خود ایک بڑا گناہ ہے چنانچہ جو شخص تمام فرائض وو اجبات کی ادائیگی کا اہتمام کرے اور تمام کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے تو اس کے اس اہتمام کے نتیجہ میں حق تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہوں کو معاف کردے گا۔
اس کی وضاحت اللہ کے رسول ؐ نے اس انداز میں فرمائی کہ ’’جب کوئی شخص نماز کے لیے وضو کرتا ہے تو ہر عضو کے دھونے کے ساتھ ساتھ گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ چہرہ دھویا تو آنکھ کان ناک وغیرہ کے گناہ، کلی کرلی تو زبان کے گناہ اور پاؤں دھوئے تو پاؤں کے گناہ دھل گئے پھر جب وہ مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کاہر قدم نہ صرف ایک نیکی کو قائم کرتا ہے بلکہ ایک گناہ کو مٹاتا بھی ہے۔
کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے نہیں معاف ہوتے۔ اگر کوئی شخص کبیرہ گناہوں میں مبتلا رہتے ہوئے وضو اور نماز ادا کرتا رہے تو محض وضو نماز اوردوسرے اعمال صالحہ سے اس کے صغیرہ گناہوں کاکفارہ نہیں ہوں گے اور کبیرہ گناہ تو اپنی جگہ ہیں ہی۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ جس کام سے شریعت اسلام میں منع کیا گیا ہے وہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے مختلف مقامات پر گناہوں کی نوعیت اور ان کی سنگینی کو واضح فرمایا ہے۔ اور حالات کی مناسبت سے کہیں تین، کہیں چھ، کہیں سات اورکہیں اس سے بھی زیادہ کبیرہ گناہ بیان فرمائے ہیں۔ اس سے علمائے امت نے یہ سمجھا کہ کسی عدد پر انحصار کرنا مقصود نہیں بلکہ گناہوں کی نوعیت خود واضح کرتی ہے کہ گناہ کس درجہ کا ہے۔
امام ابن حجر مکیؒ نے اپنی کتاب الزواجر میں کبیرہ گناہوں کی ایک فہرست دی ہے اور ہر ایک کی مکمل تشریح بھی کی ہے ان کی اس کتاب میں کبائر کی تعداد چار سو سرسٹھ تک پہنچتی ہے۔
بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں جو سب سے بڑے ہیں میں ان سے تمہیں باخبر کرتا ہوں، وہ تین ہیں اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔
اسی طرح بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے آنحضرت ﷺ سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ پھر پوچھا اس کے بعد کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ سے مارڈالو کہ وہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگا، تمہیں اس کو کھلانا پڑے گا۔ پھر پوچھا اس کے بعد کونسا سب سے بڑا گناہ ہے؟ فرمایا کہ اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرنا۔ بدکاری خود ہی بڑا جرم ہے اور کیونکہ پڑوسی کے اہل و عیال کی حفاظت بھی اپنے اہل و عیال کی طرح انسان کے ذمہ لازم ہے اس لیے یہ جرم انتہائی سنگین ہے۔
صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دینے لگے۔ فرمایا کہ ہاں جو شخص کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو یہ بھی ایسا ہی ہے کہ جیسے تم نے اس خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دی ہوں کیوں کہ یہی ان گالیوں کا سبب بنا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے شرک اور قتلِ ناحق اور یتیم کا مال ناجائز طریق پر کھانے، سود کی آمدنی کھانے، جہاد سے بھاگنے، پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے، ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور بیت اللہ کی بے حرمتی کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا’’خائب و خاسر ہوئے اور تباہ ہوگئے‘‘ تین دفعہ اسی کلمے کو دہرایا۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ یہ محروم القسمہ اور تباہ و برباد کون لوگ ہیں تو آپؐ نے جواب دیا۔ ایک وہ شخص جو تکبر کے ساتھ پائجامہ یا تہبند یا کرتہ اور عباء کو ٹخنوں کے نیچے لٹکاتا ہے۔ دوسرے وہ شخص جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرکے احسان جتلائے، تیسرے وہ آدمی جو بوڑھا ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہو، چوتھے وہ آدمی جو بادشاہ یا افسر ہونے کے باوجود جھوٹ بولے، پانچویں وہ آدمی جو عیال دار ہونے کے باوجود تکبر کرے، چھٹے وہ آدمی جو کسی امام کے ہاتھ محض دنیا کی خاطر بیعت کرے۔
نسائی و مسند احمد وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ چند آدمی جنت میں نہ جائیں گے۔ شرابی، ماں باپ کا نافرمان، رشتہ داروں سے بلا وجہ قطع تعلق کرنے والا، احسان جتلانے والا، جنات و شیاطین یا دوسرے ذرائع سے غیب کی خبریں بتلانے والا اور دیّوث یعنی اپنے اہل و عیال کو بے حیائی سے نہ روکنے والا۔
کسی بزرگ نے فرمایا کہ چھوٹے گناہ اور بڑے گناہ کی مثال محسوسات میں ایسی ہے جیسے چھوٹابچھو اور بڑا بچھو یا آگ کے بڑے انگارے اور چھوٹی چنگاری کہ انسان دونوں میں سے کسی کی تکلیف کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی لیے محمد بن کعب قرطبی نے فرمایا کہ اللہ کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ گناہوں کو ترک کیا جائے۔
جو لوگ نماز تسبیح کے ساتھ گناہوں کو نہیں چھوڑتے ان کی عبادت مقبول نہیں۔ اور حضرت فضیل بن عباسؒ نے فرمایا کہ تم جس قدر کسی گناہ کو ہلکا سمجھو گے اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک بڑا جرم ہوجائے گا۔ سلف صالحین نے فرمایا کہ ہر گناہ کفر کا قاصد ہے جو انسان کو کافرانہ اعمال و اخلاق کی طرف دعوت دیتا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت معاویہؓ کو ایک خط میں لکھا کہ بندہ جب خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کے مداح بھی مذمت کرنے لگتے ہیں اور دوست بھی دشمن ہوجاتے ہیں۔ گناہوں سے بے پرواہی انسان کے لیے دائمی تباہی کاسبب ہے، صحیح حدیث میں ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر توبہ اور استغفار کرلیا تو یہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کی تو یہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے اور اس کا نام قرآن میں رَین ہے۔ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ یعنی ان کی بداعمالیوں نے ان کے دلوں پر زنگ لگادیا۔ البتہ گناہوں میں مفاسد اور نتائج و اثرات کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق ضروری ہے اس فرق کی وجہ سے ہی کسی گناہ کو کبیرہ اور کسی کو صغیرہ کہا جاتا ہے۔
اللہ کے رسول نے معمولی معمولی اور چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی باز رہنے کی تاکید کی ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا: ایاک و محقرات الذنوب۔ (خبردار انتہائی معمولی اور چھوٹے سے گناہ سے بھی باز رہو۔) اور ایسا اس لیے ہے کہ اگر انسان چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بے پرواہ ہوجائے تو ایک طرف تو اس کا بڑے گناہوں کی طرف جانا آسان ہوجاتا ہے دوسرے اس کے نامۂ اعمال میں چھوٹے چھوٹے گناہوں کا ملکر بوجھ اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ ڈر ہے کہ حسنات اور نیکیوں کے مقابلے میں ان کا پلڑا بھاری نہ ہوجائے۔