حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
کُلُّ اُمَّتِیْ مُعَافًی اِلّاَ الْمُجَاھِرِیْنَ
’’ میری امت کے ہر شخص کی معافی ممکن ہے، سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے ۔ ‘‘
انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ گناہ کے کام ، ناشائستہ کام اور غلط کام دوسرے انسانوں کی نگاہوں سے چھپا کر کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر لوگوں کو اس کے اس غلط کام کا علم ہوجائے گا تو سماج میں اس کی رسوائی ہوگی۔ اگر کوئی شخص کھلے عام گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی فطرت مسخ ہوچکی ہے۔وہ شرم و حیا سے عاری ہوگیا ہے۔ اسے نہ اللہ تعالی کا کوئی خوف رہ گیا ہے اور نہ سماج کا کوئی دباؤ اس کے اوپر باقی رہ گیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ایسے شخص کے اعلانیہ عمل کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا ہے۔
علانیہ گناہ کی ایک صورت اسی حدیث میں آگے یہ بتائی گئی ہے کہ کسی شخص سے رات کی تاریکی میں کوئی گناہ سرزد ہو جائے، اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا ہو ، کسی دوسرے کو اس کی خبر نہ ہوپائی ہو ، لیکن وہ خود ہی اس پردے کو پھاڑ دے، اس راز کا افشا کردے اور اپنے دوستوں کو فخریہ انداز میں بتادے کہ اس نے گزشتہ رات فلاں عمل کا ارتکاب کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے کسی بندے سے نفس یا شیطان کے بہکاوے میں آکر کسی گناہ کا ارتکاب ہوجائے تو وہ فوراً اس کی طرف پلٹے ، ندامت کا اظہار کرے اور اس سے توبہ و استغفار کرے اور معافی مانگ لے ۔ اللہ تعالی ضرور اس کی توبہ قبول کرے گا اور اپنی رحمت اور فضل سے اسے ڈھانپ لے گا ۔لیکن اگر کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کرے اور اس پر نادم ہونے کے بجائے اس کی تشہیر کرے تو یہ ڈھٹائی ہے اور اللہ تعالی کے مقابلے میں ڈھٹائی دکھانے والوں کو وہ کسی صورت میں معاف نہیں کرے گا ۔