گُڈّا

انور کمال

[مادہ پرستی پر مبنی نظام نے انسان کو ایک قابلِ فروخت شئے میں تبدیل کردیا ہے۔ اور اسے خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ کئی گھروں میں شادی کا مسئلہ سنگین صورت اختیارکرتا جارہا ہے۔ اگر انسان انسانیت کا دامن تھام کر ایک خوشگوار معاشرہ تعمیر کرے گا تو ’گڈا‘ کی سائرہ اور شکیلہ کی زندگیاں سوالیہ نشان نہیں بنیں گی۔]

’’تو پھر کیا ہوا…‘‘ جہاں آرا بیگم نے چھوٹی بوا کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

دوپہر کے تین بج چکے تھے۔ آنگن میں سورج کی سفید روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ گھر کے صحن کے قریب ایک مہندی کا پودا لگا ہوا تھا۔ پودے کے سائے میں ایک گلہری اخروٹ کتر رہی تھی۔

چھوٹی بوا نے پہلو بدلتے ہوئے کہا: ’’پھر کیا ہوگا… ہم تو چھوٹے لوگ ہیں۔ عارص…‘‘ چھوٹی بوا جہاں آرا بیگم کو عارص کہہ کر پکارا کرتی تھیں۔

آرام کرسی کی پشت سے سرلگا کر جہاں آرا بیگم نے کہا: ’’اس میں چھوٹے بڑے لوگوں کی کونسی بات ہے؟…‘‘

’’نہیں عارص… چھوٹے اور بڑے لوگوں میں ایک بہت بڑا فرق پایاجاتا ہے…‘‘

’’وہ فرق کیا ہے…؟‘‘

’’یہی تو میں کہنے جارہی ہوں…‘‘ چھوٹی بوا نے پان کی ایک گلوری بناکر جہاں آرا بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’دیکھو! بات کا رخ بدل رہا ہے…‘‘ جہاں آرا بیگم نے کہا۔

’’ارے ہاں! بات تو شادی کی چل رہی تھی…‘‘

’’ہاں! میں تو اسی کے بارے میں پوچھ رہی تھی…‘‘

چھوٹی بوا نے کہنا شروع کیا: ’’تو میں کہہ رہی تھی کہ اس عورت کی عمر پچیس سال کی ہے اور میرے چھوٹے بیٹے کی عمر صرف سترہ سال ہے۔‘‘

’’لڑکے کی عمر تو بہت کم ہے…‘‘جہاں آرا بیگم نے درمیان میں ہی دخل دیا۔

’’ہاں عارص! اس عورت نے تو میرے بیٹے پر جادو کردیا ہے…‘‘

’’کیسا جادو…؟ تم نے تو کہا تھا کہ وہ عورت طلاق شدہ ہے اور ایک بچے کی ماں بھی ہے۔‘‘

’’ہاں…! لیکن … مجھے یہ بات پہلے معلوم نہیں تھی۔ اس نے نہ تو میری اجازت لی اور نہ ہی مجھے پتہ لگنے دیا… چھوٹی بوا نے ایک لمبی سانس لے کر کہا۔ اس نے تو اس عورت سے شادی کرلی ہے۔‘‘

’’اوہ…!‘‘ جہاں آرا بیگم کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا، تھوڑی دیر بعد چھوٹی بوا نے آنگن کی طرف دیکھ کر کہا: ’’بہت گرمی ہے۔‘‘

’’لیکن یہ دالان تو سورج کی زد سے بچ کر ہے۔‘‘ جہاں آرام بیگم نے کہا۔

’’لیکن اس سال وانم باڑی میں کچھ زیادہ ہی گرمی ہے۔‘‘

’’ہاں! کچھ ایسا ہی محسوس ہورہا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا۔

’’یہ کونسا مہینہ چل رہا ہے عارص؟‘‘

’’رجب کا…‘‘

’’تب تو رمضان المبارک قریب آگئے ہیں…‘‘

’’ہاں … لیکن تمہیں رمضان کی فکر ابھی سے کیوں شروع ہوگئی ہے۔‘‘ انھوں نے دریافت کیا۔

’’نہیں عارص… میں تو آپ ہی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔‘‘ وہ بولی۔

’’میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہو۔‘‘ جہاں آرا نے بوا کی طرف دیکھا۔

’’یہی کہ آپ اپنی ذمہ داریوں سے کب سبکدوش ہوں گی؟‘‘ جہاں آرا بیگم نے کوئی جواب نہیں دیا البتہ وہ کسی خیال میں کھوگئیں۔

تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد چھوٹی بوا نے جہاں آرا بیگم سے پوچھا:’’آپ کے بچوں کو دیکھے ہوئے بہت دن ہوگئے، اب کیسے ہیں وہ…؟‘‘

’’اب تو کافی بڑے ہوگئے ہیں…‘‘ انھوں نے جواب دیا۔

’’آپ کا لڑکا ندیم کیا کررہا ہے؟‘‘

’’بینک میں آفیسر ہے۔‘‘

’’اس کی شادی ہوگئی کیا؟‘‘ بوا کی اس بات پر وہ قدرے چونک سی گئیں پھر کچھ سنبھل کر کہا: ’’کیسے ہوتی… اس سے چھوٹی دو بہنیں جو ہیں۔‘‘

’’ارے ہاں! میں تو بھول ہی گئی تھی… آپ کی بڑی لڑکی کا نام سائرہ ہی تو ہے نا…‘‘ چھوٹی بوا نے پوچھا

’’ہاں!‘‘ جہاں آرا بیگم نے مختصراً جواب دیا۔

’’دوسری لڑکی کا نام کیا ہے؟‘‘ میں تو اب بھول رہی ہوں۔ وہ بولی

’’شکیلہ۔‘‘

’’سائرہ کی شادی ہوگئی کیا…؟‘‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سائرہ کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ چھوٹی بوا نے یہ سوال کیا۔

’’ابھی نہیں۔‘‘ جہاں آرا بیگم نے جواب دیا

’’دوسری لڑکی بھی تو شادی کے لائق ہوچکی ہوگی۔‘‘ اس نے دریافت کیا۔

’’ہاں! سائرہ کی عمر اب تیس سال کی ہوچکی ہے، اور شکیلہ چوبیس سال کی ہوچکی ہے۔‘‘ ان کی آواز دھیمی تھی۔

’’ماشاء اللہ آپ کا تو کھاتا پیتا گھر ہے، لیکن ابھی تک لڑکیوں کی شادی کیوں نہیں ہوئی ہے۔‘‘

’’کوئی مناسب رشتہ ملے گا تو ہوجائے گی شادی بھی۔‘‘ انھوں نے کہا۔

’’لیکن کوشش بھی تو کرنی چاہیے۔‘‘ بوا بولی

’’یہ کام اتنا آسان نہیں ہے، جتنا تم سمجھ رہی ہو… شادی کے لیے چند ضروری باتوںکا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ شادی سے پہلے لڑکے کا حسب نسب اور کسب کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پھر لڑکے کی آمدنی اور اس کی صحت کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ قدوقامت، جسمانی بناوٹ اور شکل و صورت کے لحاظ سے لڑکی اور لڑکے کی جوڑی، ٹھیک ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ لڑکا آئندہ چل کر ذمہ داریاں سنبھال سکتا ہے یا نہیں…؟‘‘

یہ سن کر چھوٹی بوا نے درمیان ہی میں کہا: ’’گویا آپ بال کی کھال نکالنا چاہتی ہیں۔‘‘

’’نہیں! یہ حقیقت ہے کہ جو شادی جلد بازی میں کی جاتی ہے، ا س کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔‘‘ جہاں آرا بیگم نے گفتگو کو جاری رکھا۔

’’مگر… ایک ذمہ داری سے تو سبکدوش ہو ہی سکتے ہیں۔‘‘ بوا نے رائے ظاہر کی۔

’’اگر ہم اپنی لڑکیوں کو بوجھ سمجھ کر کسی بھی لڑکے سے شادی کرادیں تو آئندہ چل کر پیش آنے والے برے نتیجے کے ہم خود ذمے دار ہوں گے… اس کی مثال ایسی ہوگی، جیسے جان بوجھ کر ہم اپنی لڑکیوں کو اندھے کنوئیں میں دھکیل دیں۔‘‘ جہاں آرا بیگم نے دلیل پیش کی۔

’’لیکن … کبھی کبھی اچھائی کی بھی تو امید رکھنی چاہیے…‘‘ بوا نے امید دلائی۔

’’تم کہیں یہ تو نہیں کہنا چاہتی ہو کہ جتنی بھی لڑکیوں کی شادیاںزیادہ عمر ہونے کے باوجود نہیں ہورہی ہیں، اس کے ذمہ داران کے والدین ہوتے ہیں۔‘‘ انھوں نے پوچھا۔

’’میں آپ کے اوپر الزام رکھنا نہیں چاہتی، آپ تو سمجھ دار ہیں۔‘‘چھوٹی بوا نے کہا۔

’’اچھا تو سائرہ ہی کی مثال لے لو… جہاں آرا بیگم کہنے لگیں… اب تک سائرہ کے جو کئی رشتے آئے تھے وہ موزوں نہیں تھے۔ لوگوں کے ظاہر اور باطن میں تضاد… مکر کا چکر … جیسے شادی نہ ہو، بلکہ سودا گری ہو… اس بازار میں اخلاق و انسانیت کہیں روپوش ہوگئی ہے۔ اس کی تلاش ہے مجھے۔‘‘ ان کی سانسیں اندرونی ہلچل کو آشکارا کررہی تھیں۔ ایک وقفہ کے بعد پھر سے انھوں نے کچھ کہنا چاہا… لیکن چھوٹی بوا درمیان میں ہی بول پڑیں۔

’’آپ کا نظریہ ٹھیک ہے۔ لیکن میں تو پھر بھی یہی کہوں گی کہ شادی بیاہ کے معاملے میں دیری نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

’’مجھے اس بات کا احساس ہے، لیکن یہ بات میرے بس میں نہیں کہ جب دل میں بات آئے، اسی وقت پوری ہوجائے۔‘‘ انھوںنے کہا۔ اور چھوٹی بوا کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے، اور کیا نہ کہے، اس لیے اس نے خاموشی اختیار کرلی۔

سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپ چکا تھا، ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی تھی، اچانک جہاں آرا بیگم گھڑی دیکھتی ہوئی اٹھیں… ’’اوہو، عصر کا وقت قریب آگیا ہے، میں جلدی سے وضو کرلوں…‘‘

’’آپ کی بیٹی سائرہ کہاں ہے…؟‘‘ چھوٹی بوا نے پوچھا۔

’’بالائی منزل پر ہوگی۔‘‘ یہ کہتی ہوئی جہاں آرا بیگم صحن پار کرکے باغیچے کی طرف بڑھ گئیں، اور چھوٹی بوا زینے کی طرف بڑھ گئیں۔

سائرہ اپنے کمرے سے باہر نکل ہی رہی تھی کہ اس کی نظر سامنے سے آتی ہوئی چھوٹی بوا پر پڑی … سائرہ نے منہ پر انگلی رکھ کر چھوٹی بوا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا… پھر اس نے بڑی آہستگی سے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کرلیا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ چھوٹی بوا نے پوچھا۔

’’خاموش …‘‘ سائرہ نے سرگوشی کی۔’’وہ جاگ جائیں گے، ابھی ابھی سوئے ہیں۔‘‘

’’وہ کون…؟‘‘ چھوٹی بوا نے حیرت سے پوچھا۔

’’کیا آپ میرے شوہر کو نہیں جانتیں…؟‘‘

’’کیا کہا… تمہارا شوہر!‘ ‘ چھوٹی بوا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’’زیادہ باتیں مت کرو… اگر نیند میں خلل پیدا ہوا تو ان کو غصہ آجائے گا…‘‘

’’یہ کیا بہکی بہکی باتیں کررہی ہو سائرہ!… تمہاری امی تو…؟‘‘

’’آپ کو میری باتوں پر یقین کیوں نہیں آرہا ہے… وہ عاجزی سے بولی: ’’میں تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں… اگر آپ کو یقین نہیں آرہا ہو تو … آئیے … انہی سے پوچھ لیتے ہیں…‘‘ یہ کہتے ہوئے سائرہ نے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔

کمرے کے اندر ایک خالی پلنگ تھا، سائرہ نے خالی پلنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’دیکھا آپ نے وہ سورہے ہیں…!‘‘

اچانک کمرے کے باہر کچھ آہٹ سی ہوئی… سائرہ کی چھوٹی بہن شکیلہ کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے چھوٹی بوا کو انگلی کے اشارے سے خاموش رہنے کے لیے کہا… پھر وہ بوا کو پلنگ کے قریب لے گئی … تکیہ کے نیچے ہاتھ ڈال کر کچھ ریزگاری نکالی اور بوا کی طرف بڑھاتے ہوئے آہستہ سے بولی… ’’دیدی کے لیے ایک گڈا خرید کر لادو نا…!‘‘

شکیلہ کی مٹھی میں رائج الوقت سکے نہیں تھے۔ اور سائرہ خالی خالی نظروں سے پلنگ کی طرف دیکھتی رہی۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں