جنگل کے درخت کی شاخوں پر گدھوں کا بسیرا تھا۔ گدھ بھوکے تھے۔ اسی درخت کی چھاؤں میں گیدڑ بھی بیٹھے تھے، جن کے پیٹ میں چوہے دھما چوکڑی مچا رہے تھے۔
بھوک نے گدھ اور گیدڑوں کو اتنا بے قرار کر دیا تھا کہ ان کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ زندہ جانوروں اور انسانوں پر حملہ کر کے انہیں کھا جائے، مگر جی کی چاہت تو سب کچھ نہیں ہوتی، اُن کی فطرت مردار کھانے کی تھی اور مردار جانور انہیں نہیں مل رہے تھے کیوں کہ جانوروں کی حفاظت کے لیے انسانوں کو مارنا جانوروں کے محافظوں کے لیے معمولی بات بن گئی تھی۔
گدھوں نے شہر سے جنگل میں آنے والے راستے پر ایک آدمی کو دیکھا جوتقریباً دوڑتے ہوئے جنگل میں آرہا تھا۔
آدمی گدھوں کے بسیرے والے درخت سے کچھ دور دوسرے درخت کی چھاؤں میں کھڑا ہو گیا۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو گھومانے کے بعد آسمان کی طرف سراُٹھا کر ناک کے ایک نتھنے کو انگوٹھے سے دبایا۔ سانس اندر کھینچی، پھر درمیانی انگلی سے دوسرے نتھنے کو دبا کر پہلے نتھنے سے انگوٹھا ہٹایا اور سانس چھوڑ دی۔ یہ عمل وہ دہراتا رہا۔
آدمی کے اس عمل کو ایک گدھ نے حیرت سے دیکھا اور اپنے ساتھی سےسرگوشی کی، ’’وہ آدمی کیا کر رہا ہے !‘‘
’’شہر کی ہوا گندی ہوگئی نا، اس لیے وہ آدمی جنگل کی صاف ہوا میں سانس لے رہا ہے۔‘‘
— آدمی سانس لیتے لیتے گرپڑا۔
’’ارے! کیا ہوگیا اس آدمی کو !؟‘‘ گدھ نے دوسرے گدھ سے پوچھا۔
دوسرے گدھ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پاس بیٹھے بوڑھے گدھ نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
’’گندی ہوا میں جینے والا انسان صاف ہوا میں کیسے جی سکتا ہے بھلا !؟‘‘
’’ہاں — ! اب یہ مر جائے گا پھر ہم سب مل کر اُسے کھائیں گے ! ‘‘سارے گدھ خوش ہونے لگے ۔
گدھ کی بات سن کر گیڈروں کے کان بھی کھڑے ہو گئے۔ وہ زمین پر پڑے آدمی کو تکنے لگے جو چت لیٹا دھیرے دھیرے سانس لے رہا تھا ۔
اُسی وقت شہر کی طرف سے ایک گدھ اڑتا ہوا آیا اور گدھوں کے پاس اپنے پر سمیٹ کر بیٹھا ہی تھا کہ کچھ گدھ بے ساختہ اُس سے بولے ’’ارے! کہاں بھٹک رہے ہو ؟ دیکھو ، وہ سامنے ایک انسان صاف ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے مر رہا ہے۔ ابھی کچھ ہی دیر میں صاف ہوا اُسے مار ڈالے گی، پھر ہم سب مل کر اُسے کھائیں گے۔‘‘
شہر کی طرف سے آنے والا گدھ اپنے ساتھیوں کی بات سُن کر کہنے لگا:’’میں تمہارے لیے ایک خوشخبری لایا ہوں ۔ شہر میں گائے لے جانےوالے آدمی کو ایک آدمی نے پیٹا۔ بات اتنی بڑھی کہ دنگا ہو گیا۔ خوب مارکاٹ ہوئی، سڑکوں پر انسانوں کی لاشیں ہی لاشیں ہیں، جاؤ سیرہو کر کھاؤ انسانوں کا گوشت میں تو پھر پیٹ کھا کے آیا ہوں!‘‘
یہ سنتے ہی سارے گدھ شہر جانے کے لیے اڑگئے۔
درخت کے نیچے بیٹھے گیدڑوں نے جب گدھ کی بات سنی تو وہ بھی شہر کی طرف بھاگے۔ اب انہیں یہ خوف نہیں تھا کہ گیدڑ کی جب کم بختی آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے ۔l