’’سالن کیسا پکا ہے؟‘‘ بیگم نے شیخ صاحب کی پلیٹ خالی دیکھ کر ڈش میں سے اور سالن پلیٹ میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔ لیکن شیخ صاحب اپنے خیالات میں محو رہے اور ان کی آنکھیں سالن کی پلیٹ کو اس طرح تکتی رہیں جیسے بیگم کا سوال سالن کے مزے سے نہیں بلکہ اس کے رنگ سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر وہ خود ہی اک دم چونک کر بولے۔
’’کیا سالن؟ — ہاں سالن تو مزے کا ہے‘‘۔ بیگم شیخ صاحب کی اس غائب دماغی پر جل کر رہ گئیں۔ عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن یہ نہیں برداشت کرسکتی کہ اس کے ساتھ یا اس سے متعلق چیزوں کے ساتھ غفلت برتی جائے۔ اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ وہ چھیڑ کر ایک بات پوچھے اور جواب میں عدم توجہی ملے۔ مانا کہ شیخ صاحب سے ان کی شادی کو پندرہ برس ہوچکے تھے اور پندرہ سال بعد بھی حسین سے حسین عورت اپنے شوہر کے لیے وہ جسمانی کشش نہیں رکھتی کہ شوہر کی نگاہیں اس کے آگے پیچھے ہاتھ باندھے نہ پھرتی رہیں۔ لیکن گھریلو فضا کو سازگار رکھنے کے لیے ہر عقلمند شوہر وقتاً فوقتاً تعریفی جملے اپنی بیوی کی شان میں کہتا رہتا ہے۔ کجا کہ عورت خود منھ پھوڑ کر کہے کہ ’’اللہ ایک تعریفی جملہ کہہ دو،‘‘ اور شوہر صاحب پھر بھی تغافل احمقانہ سے کام لیں۔ بیگم نے اس جلاپے میں ہاتھ کا نوالہ میز پر پٹخ دیا اور بولیں:
’’اے لعنت جو تم سے کوئی بات کرے۔ پتہ نہیں ہر وقت کہاں کھوئے رہتے ہو‘‘۔ شیخ صاحب کو بھی احساس ہوگیا کہ ان سے غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنا دماغ ضروری خیال کرتے ہوئے کہا:
’’کھویا کہاں رہتا ہوں بازار کی کیا حالت ہے تم کو کیا پتہ؟ خرچ بھی پورا نہیں ہوتا دوکان کا۔ سوچتا ہوں کہ اگر سال بھر اسی طرح نکل گیا تو کیا ہوگا۔ اور تم کو اپنی پڑی ہے کہ سالن کا مزا کیسا ہے؟‘‘
بیگم اپنی سہیلیوں سے بھی یہی دکھڑا سن چکی تھیں کہ ان کے میائوں کی بھی نیند اسی فکر میں حرام ہو رہی ہے کہ اب کیا ہوگا۔ اس لیے انہیں شیخ صاحب کا یقین آگیا۔ لیکن شیخ صاحب کی یہ عدم توجہی اس بازار کے مندے ہونے کی پیداوار تو نہیں تھی بلکہ گذشتہ آٹھ سال سے درجہ بدرجہ بڑھتی چلی آرہی تھی اس لیے انھوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’اے جانے بھی دو۔ بازار تو مہینے دو مہینے سے مندا ہوا ہے۔ تمہارا تو برسوں سے یہی حال ہے۔ جب ایک کے چوگنے پچگنے ہو رہے تھے تب تم کب ہنسے بولے ہو جو اب تم نقصان کا بہانہ بنا رہے ہو‘‘۔
شیخ صاحب کو بے اختیار ہنسی آگئی۔ بولے
’’جب دوسری طرح کی فکر تھی اور اب دوسری طرح کی فکر ہے۔ پہلے خریدار اتنے تھے کہ مجھے سوچنا پڑتا تھا کہ ان کا پیٹ بھرنے کو مال کہاں سے لائوں۔ کس کا لائسنس خریدکر کیا مال منگائوں جو زیادہ سے زیادہ نفع ہو۔ لیکن اب یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ مال کس کے ہاتھ بیچوں۔ خریدار تو ایسے غائب ہوگئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اور دام ہیں کہ گرتے ہی چلے جارہے ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ پچھلے سال دوکان میں پچاس لاکھ روپے کا مال تھا اب وہ رکھے رکھے تیس لاکھ کا ہوگیا ہے۔ اور اب بھی اگر بک جائے تو غنیمت ہے ورنہ اور چھ مہینے بعد دس لاکھ کا رہ جائے‘‘۔
بیگم نے دوسری جماعت تک اتنا ہی حساب پڑھا تھا کہ دھوبن کے کپڑوں کا حساب جوڑ لیتی تھیں اس لیے یہ داموں کے گرنے والی بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن پچاس کے تیس لاکھ اور پھر دس لاکھ رہ جانے کی بات سن کر ان کا کلیجہ دھک سے ہوگیا اور ان کے غصہ کی جگہ ہمدردی نے لے لی اور وہ بیساختہ بولیں:
’’اے خدا نہ کرے۔ لیکن یہ دام گرے کیوں اتنے۔ اور خریداروں کو کیا ہوگیا‘‘۔
’’ہیضہ ہوگیا اور کیا ہوتا‘‘۔ شیخ صاحب جل کر بولے ’’پہلے لائسنس کم ملتے تھے، مال کم آتا تھا۔ لینے والا سوچتا تھا کہ پتہ نہیں آگے چل کر یہ چیز ملے یا نہ ملے۔ اور ملے تو پتہ نہیں کس دام پر ملے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ لے کر ڈال دو۔ اگر اپنے کام نہیں آئے گی تو بھائی فلاں کو دیدیں گے۔ لیکن اب لائسنس زیادہ مل رہے ہیں اور مال بھی زیادہ آرہا ہے۔ اس لیے لینے والا سوچتا ہے کہ دو ہی قدم پر تو دوکان ہے ضرورت پڑنے پر منگوالیں گے ابھی تو صرف کام چلانے کے لائق ہی خریدنی چاہیے۔ اور پھر دام بھی روز گر رہے ہیں اس لیے اس وقت فوری ضرورت سے زیادہ خریدنا حماقت ہے‘‘۔ بیگم صاحبہ کی سمجھ میں بات اب بھی نہیں آئی۔ بولیں:
’’تو کیا ہوا نفع زیادہ تھا تو مال کم آتا تھا اور اب نفع کم ہوگیا تو مال تو زیادہ آرہا ہے۔ اس میں نقصان کیا ہوا؟‘‘ شیخ صاحب جل کر رہ گئے بولے ’’لاحول و لاقوۃ‘‘
شیخ صاحب بیچارے آج کل واقعی مشکل میں تھے۔ ویسے تو آدمی ہوشیار تھے اور اسی ہوشیاری کی بدولت دلالی کرتے کرتے آج اپنا لاکھوں کا کارو وبار لیے بیٹھے تھے۔ لیکن حکومت کی ہر نئی درآمدی پالیسی ان کی ساری ہوشیاری خاک میں ملائے دے رہی تھی۔ غضب خدا کا جس چیز کا لائسنس پونے دو سو فیصد نفع دے کر لوگ آنکھیں بند کرکے خرید لیتے تھے آج اس کا حاضر مال پچاس فیصد نفع پر لینا انہیں دوبھر معلوم ہو رہا تھا۔ یہ تو اس مال کی کیفیت تھی جو شیخ صاحب کے اپنے لائسنس پر آتا تھا۔ اور اس مال کا تو کہنا ہی کیا جو انہوں نے بازار سے لائسنس خرید کر منگایا تھا۔ اور جس کے دام شیخ صاحب کے گودام میں پہنچنے سے پہلے ہی آدھے ہوگئے تھے۔ یہ ناقص العقل عورت کس مزے سے کہہ رہی ہے کہ کم نفع پر زیادہ مال بیچ دینا زیادہ نفع پر کم مال بیچنے کے برابر ہے۔ اس کو اپنی مزیدار ہنڈیوں کے بدلے اگر سوکھی روٹی سے پیٹ بھرنا پڑجائے تو چودہ طبق روشن ہوجائیں۔ سب معلوم ہوجائے کہ پیٹ تو دونوں ہی طرح بھرجاتا ہے۔ ہونہہ…
سوکھی روٹی کا خیال آتے ہی شیخ صاحب کے تصور میں وہ دن ابھرے جب انھوں نے چھ سو روپے ماہوار کی سیلز مینی چھوڑ کر دلالی شروع کی تھی۔ اور شروع مہینے میں صرف ایک ہزار روپے کی مزدوری ہوئی تھی۔ اس زمانے میں وہ واقعی سوکھی روٹی اور چٹنی کھاکر گذارہ کر رہے تھے۔ اور ایک وہی کیا بہت سے دوکاندار لشٹم پشٹم گذارہ کر رہے تھے اور بہت سے ادارے تو گلے گلے پانی میں آگئے تھے۔ اور کوئی معجزہ ہی ان کو تباہی سے بچا سکتا تھا۔ بالآخر معجزہ نئی امپورٹ پالیسی کی صورت میں ظاہر ہوا اور جیسے بازار کے تن مردہ نے ایک جھرجھرسی لی۔ ادھر پرانی درآمد پر اور کمٹمنٹ کے لائسنس ملے اور رفتہ رفتہ بازار ایسا سنبھلا کہ وہ لائسنس جن کے ساتھ پانچ سات فیصد خریدار کو دیا جاتا تھا تاکہ وہ استعمال ہوجائے اسی لائسنس کو ایک وظیفہ اور پنشن کی حیثیت حاصل ہوگئی کہ ادھر لائسنس آیا ادھر حسب توفیق ڈیڑھ دو سو فیصد وصول کرلیا اور وعلیکم السلام نہ ہلدی لگی نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آیا۔ نہ کچھ سرمایہ لگانا پڑا نہ کچھ درد سر برداشت کرنا پڑا۔ شیخ صاحب نے اس آندھی کے آموں سے فیض حاصل کیا۔ پیٹ بھر کے کمٹمنٹ کی درخواستیں دیں اور دوڑ دھوپ کرکے لائسنس بھی سب حاصل کیے۔ لیکن برے دن دیکھے ہوئے آدمی تھی اس لیے پیسے پیسے کی قدر کرتے تھے۔ چناچنہ انھوں نے کبھی کوئی لائسنس نہیں بیچا۔ ہمیشہ سارے مال منگائے اور روک روک کر زیادہ سے زیادہ نفع پر بیچے۔ اس نفع سے اور مال خریدا اور یہ چکر ایسا چلا کہ دو تین سال میں ہی بڑی سی دوکان، بنگلہ، کار سب ہی کچھ ہوگیا اور وہی لوگ جو کل تک نہ جانے کیا کیا کہتے تھے اب شیخ صاحب کہنے لگے۔ ’’سچ ہے مایا تیرے تین نام پرسا، پرسی، پرس رام۔‘‘ پھر اسی پر بس نہیں۔ نفع کی کسی صورت کو انھوں نے کبھی نہیں چھوڑا۔ سود تو خیر ایک معمولی سی بات ہے۔ رشوت، جھوٹے سچے کلیم انشورنس سے وصول کرنا، مال بیچ کر نہ دینا اور خرید کر نہ لینا اور زبان سے پھر جانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ کہتے تھے کہ بھائی اب تو زبان سے بیٹا بیٹی بھی پرائے نہیں ہوتے۔ ان کی بھی لکھا پڑھی ہوتی ہے تو کاروبار میں کہاں سے زبان کی بات چل سکتی ہے۔ میاں صاحب زمانہ بدل گیا ہے اور اس میں وہی پنپ سکتا ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ خود بھی بدل جائے۔ اور کوئی ان کو قائل کرنے والا نہیں تھا۔ پیٹھ پیچھے سب گالیاں دیتے تھے لیکن منھ در منھ کسی بڑے سے بڑے آدمی نے بھی ان کو برا نہیں کہا۔ شیخ صاحب بھی اس امر سے غافل نہیں تھے۔ لیکن وہ اپنے دل کو یہ کہہ کر مطمئن کرلیتے تھے کہ لوگوں کا کیا ہے یہ تو خدا کو بھی برا کہنے لگتے ہیں۔
لیکن شیخ صاحب کو اس کامیابی کی قیمت اس طرح ادا کرنی پڑی کہ ان کی صحت کا ستیاناس ہوگیا۔ ہاضمہ ایسا بگڑا کہ دو کے بجائے ایک وقت کھانے لگے اور وہ بھی پرہیزی۔ پھر انھیں سانس کی بیماری ہوگئی۔ پھر دل بھی کمزور پڑگیا۔ اور حکومت کے دبائو پر جب انکم ٹیکس سے چھپائی ہوئی دولت ڈکلیئر کرنی پڑی اور اس کا تہائی ٹیکس کی صورت میں دینا پڑا تو سچ مچ ان پر دل کا دورہ پڑ گیا۔ خیر زندگی باقی تھی اس لیے مرکھپ کر اٹھ بیٹھے اور پھر گاڑی اور زیادہ محنت سے کھینچنی شروع کردی۔ کیونکہ پچھلا نقصان بھی تو پورا کرنا تھا ۔ دوسرا نقصان شیخ صاحب کو اولاد کے بے تربیت ہوجانے کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ بیوی کو وہ دبا کر رکھتے تھے۔ ورنہ کم از کم ظاہر تو یہی کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلاکہ اولاد کے دل سے ماں کا خوف نکل گیا۔ اب رہے شیخ صاحب تو ان کو دو دونی چار اور چار دونی آٹھ سے کب فرصت کہ وہ اولاد پر توجہ دے سکیں۔ انجام ظاہر ہے، جو ہونا چاہیے تھا وہ ہوا۔ چنانچہ شیخ صاحب کی دولت بھی اولاد کے عیوب کو بمشکل چھپاسکتی۔ اور یہ غم بھی شیخ صاحب کو کھائے جارہا تھا۔ اس طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ خود کو اور بھی غرق کاروبار کیے دے رہے تھے۔
نئی امپورٹ پالیسی شیخ صاحب کے لیے بھرے ہوئے پیالے میں آخری قطرہ ثابت ہوئی اور بازار بقول ان کے بالکل ہی خراب ہوگیا۔ اس عالم میں ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹروں نے تبدیلی آب و ہوا اور کاروبار سے بالکل ہی کنارہ کشی کا مشورہ دیا۔ جو ظاہر ہے شیخ صاحب کے بس کی بات نہ تھی۔ پھر بھی وہ کوشش کرتے تھے کہ تفکرات سے اپنے کو دور رکھیں۔ لیکن بھلا ہو اس عورت کا جس نے یہ ذکر چھیڑ کر شیخ صاحب کو انہی تفکرات میں لا ڈالا جن سے بچنا ان کی صحت ہی نہیں بلکہ ان کی زندگی کے لے بھی بے حد ضروری تھا۔
اس رات شیخ صاحب کو نیند نہیں آئی۔ جتنا جتنا وہ ان خیالات کو دل سے نکالتے تھے اتنا اتنا وہ اور ہجوم کرکے آتھے تھے۔ کروٹیں بدلتے بدلتے صبح ہوئی تو شیخ صاحب پر دل کا دورہ ایک دفعہ اور پڑا۔ بیگم نے بین کرکے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ آدھے گھنٹے میں تین ڈاکٹر اعلیٰ سے اعلیٰ آگئے لیکن شیخ صاحب کی حالت نہ سدھری اور ان کو ہسپتال منتقل کرنا پڑا جہاں پہنچنے کے ایک گھنٹہ بعد شیخ صاحب اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اور ان کا سارا مال و متاع یہیں رہ گیا اور وہ بالکل خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آج لوگوں کو اندازہ ہوا کہ شیخ صاحب جو نفع کا سودا کیا کرتے تھے زندگی بھر نقصان کی تجارت کرتے رہے۔