معاشرے میں گھر کو بنیادی اہمیت حاصل ہو ہے۔جس میں افرادکے درمیان خوش گوار تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے کیوں کہ اس کا اثر نہ صرف معاشرے پر پڑتا ہے بلکہ نسلوں پر پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے گھر یا خاندان کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر خصوصی توجہ دی ہے اور ہر ایک کا دائرہ کار متعین کر دیا ہے۔اب اگر کوئی اپنے دائرہ کار سے نکل کر دوسرے فرد کے دائرہ کارمیں دخل دیتا ہے یا دوسرے کواس کی مرضی کے خلاف مجبور کرتا ہے تو یہیں سے’گھریلو تشدد‘ کی شروعات ہوتی ہے۔
اٹھارہویں صدی تک شوہر کے ذریعے بیوی پر تشدد کرنا اور ان کومارنا قانونی لحاظ سے قابلِ قبول تھا۔انیسویں صدی میں یورپ میں جب سیاسی بے داری آئی تو امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ملکوں میں بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔1850میںامریکہ کی Tennesseeوہ پہلی ریاست تھی جہاں عورت پر تشدد کے خلاف قانون بنا۔بیسویں صدی کے آغاز تک پورے یورپ میںعورتوں پر تشدد کے خلاف سختی کی جانے لگی تاہم پولس کبھی کبھار ہی اس جرم میں کسی کو گرفتار کرتی تھی۔
1970کے آس پاس فیمینزم (Feminism)، عورتوں کے حقوق اور ان کی تحریک کے تحت گھریلو تشدد کے خلاف باقاعدہ آواز بلند کی گئی اور اس کو بطور اصطلاح استعمال کیا جانے لگاتھا۔
موجودہ زمانے میں گھریلو تشدد یا ڈومسٹک وائلنس ایک معروف اصطلاح بن گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ مرد اور عورت کے باہم ہونے کی صورت میں مرد کی جانب سے عورت پر کسی بھی قسم کا جسمانی، ذہنی یا نفسیاتی دباؤ خواہ وہ کسی بھی قسم کا ہو اب قانونی اصطلاح میں گھریلو تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ اور یہ اصطلاح اب اتنی معروف ہوگئی ہے کہ ہر تعلیم یافتہ انسان اس کے صحیح معنی و مفہوم سے واقف ہوگیا ہے۔
گھریلو تشدد کو اگر دیکھا جائے تو یہ ایک سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہے جو افراد کے باہم رہنے سے وجود میں آتا ہے اور سماجی و معاشرتی ذہنی سانچہ کا خاندانی پس منظر وغیرہ اس میں اہم رول ادا کرتے ہیں، جن خاندانوں اور معاشروں میں عورت کی عزت و تکریم مفقود ہوتی ہے۔ وہاں یہ عام چیز ہے لیکن جہاں عورت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور باعزت انداز میں دیکھا جاتا ہے وہاں یہ چیزیں مشکل ہی سے نظر آئیں گی۔
بعض لوگوںکو لگتا ہے کہ تشدد دراصل باہمی رشتوں کا ایک فطری نتیجہ ہے،لیکن ایسا نہیں ہے ۔لوگ عموماً دوسروں کا غصہ گھر وں میں آکر اپنی بیویوں پر نکالتے ہیں۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے ایک انسان کو دوسرے انسان پر بزورِ قوت غالب آنے کی کیفیت کا اظہار ہوتاہے۔
گھریلو تشدد کی قسمیں
جسمانی تشدد:اس میں مارنا ،پیٹنا،دھکا دینا،زخمی کرنا،درد پہنچانااورجسم پر تیزاب پھینک دینا وغیرہ شامل ہیں۔
جذباتی اور ذہنی و نفسیاتی تشدد:اس میں لفظوں سے چوٹ پہنچانا،ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا،حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا اور دھمکی دیناوغیرہ شامل ہیں۔
مالی تشدد: اس میں پیسہ نہ دینا ،جمع خرچ روک لینا،تنخواہ نہ دینا، بلا اجازت املاک پر قبضہ کر لینا اور اسے خرچ کر دینا وغیرہ آتا ہے۔
جنسی تشدد:اس میں زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنا،جنسی طور پر ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرناوغیرہ شامل ہیں۔
گھریلو تشدد ایک ’عالمی مرض‘ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔مجموعی طور سے دنیا کی ایک تہائی عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ان پر ظلم و تشدد کرنے والوں میں زیادہ تر ان کے شوہر،سابق شوہر،بوائے فرینڈ، سابق بوائے فرینڈ (جو مغربی کلچر کا خاص حصہ ہیں) اور دیگر قریبی رشتہ دار ہوا کرتے ہیں۔بعض رپورٹس کے مطابق ہر سال35% عورتیں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔کچھ نے تو اسے 70%بتایا ہے۔ 20.9میلین جبری مزدوری کر رہے لوگوں میں55% عورتیں اور لڑکیاں ہیں۔اسی طرح 4.5میلین لوگ جو زبردستی قحبہ خانوں میں دھکیلے گئے ہیں ان میں98% لڑکیاں اور عورتیں ہیں۔
2011/12کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں7.3% یعنی 1.2میلین عورتیںگھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔ 31%یعنی 5میلین عورتیں16 سال کی عمر میں گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔اسی طرح ایک ہفتے میں دو عورتیں اوسطاً شوہر کی طرف سے یا سابق شوہر کی طرف سے قتل کر دی جاتی ہیں۔40%سے70% کے بیچ کناڈا،آسٹریلیا،ساؤتھ افریقہ ، اسرائیل اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں عورتیں اپنے پاٹنروں کے ذریعہ قتل کی جاتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق عالمی سطح پر% 38 عورتیں قتل ہوئیں جن کو ان کے پاٹنر یا ایکس پاٹنر کی طرف سے قتل کیا گیا تھا۔زبردستی شادی کیے جانے پر 1,468 لڑکیوں کی موت کے واقعات ہوئے۔
ہندوستان کی صورتِ حال
خواتین پر تشدد میں ہندوستان کازامبیا کے بعد دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ہندوستان کی چائلڈ اینڈ فیملی ویلفیئر امور کی وزارت کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی70% عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔
نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ کے مطابق ہر 3 منٹ پر ایک عورت پر کسی نہ کسی ظلم کی وجہ سے کیس درج کیا جاتا ہے۔ہر29 منٹ پر ایک عورت سے جنسی زیادتی کی جا تی ہے۔ہر 60منٹ پر ایک عورت جہیز کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے اور ہر 9منٹ پر ایک عورت سے اس کے شوہر یا شوہر کے رشتہ داروں کی طرف سے تشدد کیا جاتا ہے۔ 7.5%عورتیں ذہنی تشدد کی وجہ سے خودکشی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ان میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں طرح کی عورتیں شامل ہیں لیکن زیادہ تر شادی شدہ عورتیں ہی اس کا شکار ہوتی ہیں۔
نیشنل کرائم برانچ کی رپورٹ2012 کے مطابق خواتین کے خلاف کل2,44,270 کیسز سامنے آئے۔2011میں ان کی تعداد2,28,650 تھی۔یعنی اس میں6.4% کا اضافہ ہوگیا۔ان میں شوہر اور اس کے رشتہ داروں کی طرف سے بیوی پر تشدد کے43.6%،عورت کی عصمت پر حملہ کرنے کے18.6%،اغوا کے15.7%،جنسی زیادتی کے10.2%،عورت کی بے عزتی کرنے کے3.8%،جہیز کی وجہ سے استحصال کے3.7%،جہیز کی وجہ سے موت کے3.4% ،عورتوں اور لڑکیوں کی اسمگلنگ کے01.0% اور عورتوں کے خلاف دیگر جرائم کے0.1% واقعات ہوئے۔
ریاستوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آسام 89.54%،تری پور86.95%،ویسٹ بنگال 70.30%، دہلی69.75%، آندھرا پردیش 66.05%، راجستھان 63.75%، کیرلہ61.21%، اڑیسہ58.79%، جموں کشمیر 58.60% اور ہریانہ50.31% کے ساتھ سرِفہرست رہے۔
گھریلو تشدد کے اسباب
شوہر اور اس کے رشتہ دار ، بیوی یا خاندان کی بہو پر ظلم کوئی نئی چیز نہیں، ہندوستانی سماج کے لوگ صدیوں سے ظلم کرتے آئے ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ 1979 میں ہوئی ایک ریسرچ سے پتہ چلا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ’ان چاہا حمل‘ ہے۔(NIHFW Servey 1979)
1995 کی رپورٹ کے مطابق تشدد کی ایک بڑی وجہ شوہر کے ماں باپ تھے کہ گھر میں کس کی چلے گی؟۔2004 کے سروے میں شوہر کا کم پڑھا لکھا ہونا ،شراب اور دیگرمنشیات کی لت وغیرہ کو بنیادی اسباب میں سے بتایا گیا ۔
2000 میں’ اسکول آف سوشل سائنس‘ ، جے این یو کے ہریہر ساہو نے گھریلو تشدد پر ریسرچ کی۔ان کے مطابق اس کی مختلف وجوہات ہیں: شوہر کا بیوی کودھوکہ باز سمجھنا، بیوی کے گھر سے پیسے اور تحفے کا نہ آنا، بیوی کاساس اور سسر کی عزت نہ کرنا، شوہر کو بنا بتائے بیوی کا باہر چلے جانا، بیوی کا گھر اور بچوں کی ذمہ داری نہ لینا، بیوی کا کھانا ٹھیک سے نہ بناناوغیرہ ۔دیگر وجوہات میں تعلیم کی کمی ،گھر میںسر پرست افراد کی جاہلیت اور حقوق نسواںسے بے اعتنائی، غربت و افلاس ،لڑ کی اور لڑ کے کی مر ضی کے خلا ف شادی جو کہ گھر یلو نا چا قی کا سبب بنتی ہے،آپسی حقوق سے نا وا قفیت،بے جا پابندی ،اسلا م سے دوری اور تقوی کا خا تمہ،عورتوں کو فر ما ں بر داراور مطیع بنا نے کی خو اہش،غیر ا خلاقی قو ا نین کی تائید چاہنا اورشک کی بنا پر تشد د کرنا وغیر ہ وغیرہ ہیں۔
ہندوستان میں گھریلو تشدد کے خلاف ایک بل پاس کیا گیا جس کا نام ’خانگی تشدد سے تحفظِ خواتین بل 2005‘رکھا گیا ۔لیکن اس کا ایک نقصان دہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ اس کا استعمال آپسی رنجشوں کی وجہ سے بدلہ لینے،بلا وجہ مردوں کو ڈرانے دھمکانے،بلیک میل کرنے، انتقام لینے اوران میں خوف و ہراس پیدا کرنا وغیرہ میں ہو رہا ہے۔
گھریلو تشدد کو بڑھاوا دینے میں کچھ حد تک عورتوں کی کمزوری کا بھی اہم کردار ہے۔وہ سمجھتی ہیں کہ یہ مرد ذات کا حق ہے۔خصوصاً بر صغیرمیں اس طرح کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ UNICEFکی 2012کی رپورٹ میں 57% لڑکوں اور53% لڑکیوں نے جن کی عمر15سے19 کے درمیان تھی ،بیوی کو مارنا صحیح ٹھیرایا۔اسی طرح جارڈن اور افغانستان میں90%،مالی میں87%اور سینٹرل افریقن ریپبلک میں80% عورتوں نے تشدد کو صحیح کہا۔
تشددکے نتیجے میں عورتوں کو جسمانی معذوری ، دائمی صحت کے مسائل،ذہنی بیماریاں ،محدود مالی حالت اور ناپائیدارتعلقات کا ہونا جیسے غیر معمولی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے بھی بڑے ہو کر اسی راہ کو اختیار کر لیتے ہیں اور وہ بھی تشدد کرتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 750,000بچے بچیاں گھریلو تشدد کے گواہ ہیں ۔اس سے ان کے اندر مایوسی،جارحانہ رویہ،تشدد پسندی،جرائم پسندی کے رجحانات پیدا ہو تے ہیں۔
اسلام کا نظریہ
یورپ نے گھریلو تشدد کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مختلف کوششیں کی ۔انہوں نے عورتوں کو ’خود مختار‘بنایا،ان کو ہر طرح کے ’حقوق‘ عطا کیے اور ان کو مکمل ’آزادی‘ دے دی گئی حتی کہ انہیںان کے والدین،بھائی ،شوہر اور اولاد سے بھی آزاد کر دیا گیا۔لیکن ان تمام تدابیر سے بھی گھریلو تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام نے گھریلو تشدد کا صحیح حل پیش کیا ہے۔اس نے عورت اور مرد کے سامنے ایک ایساخاندانی نظام دیاجس میں دونوں کی فطرت کا خیال رکھا گیا اور دونوں کو ایک دوسرے کا مددگار اور رفیق بنایا۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں،یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ ‘‘ (التوبۃ:71)
اسی طرح اس نے دونوں کے دائرہ کار متعین کر دیے اور اسی کے مطابق انہیں ذمہ داریوں سے نوازا ،ساتھ ہی واضح کر دیا کہ ہر کوئی اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور اس سے اسی کے مطابق باز پرس کی جائے گی۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آگاہ ہو جاؤ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔پس امام(امیر المومنین)لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بار ے میں سوال ہوگا۔‘‘ (بخاری)
ساتھ ہی اسلام نے مردوںکو عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے،ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے اور معاف کرنے کی تاکید کی ۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘ (النسا:19)
متعدد احادیث میں بھی عورتوں سے اچھا سلوک کرنے کی ہدایت دی گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہواور میں ،تم میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوںکے لیے بہتر ہوںاور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے چھوڑ دو یعنی اسے برائی سے یاد نہ کیا کرو۔ ‘‘ (الترمذی:1828)
اسی طرح آپ ؐنے ایک اور جگہ فرمایا:
’’مسلمانوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔‘‘ (الترمذی:1161)
ساتھ ہی اسلام نے مردوں کو عورتوں پر تشد د کرنے سے بھی واضح الفاظ میں منع کر دیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے کہ پھردوسرے دن اس سے ہم بستر ہوگا۔‘‘ (بخاری:5204)
اسلام میں کہا گیا کہ شوہر بیوی کو کسی طرح کی چوٹ نہ پہنچائے،اس کا خون نہ بہائے، اسے مار ے نہیں اور نہ ہی بیوی کے جسم کا کوئی حصہ توڑے۔
ایک دفعہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیوی پر شوہر کے کیا حقوق ہیں؟آپؐنے فرمایا: ’’جب توکھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے، لباس پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے نہ برا کہے، بات چیت بھی صرف گھر کی حد تک کرے‘‘۔(ابو دائود)۔
اگرچہ قرآن کریم میں بعض حالات میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس میں بھی پہلے سمجھانے، پھر نفسیاتی طریقے سے متنبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اس کے بعد بھی نہ سمجھیں تب کہیں جا کر ضرورت بھرمارنے کی اجازت دی ہے لیکن اس کو بھی ناپسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ۔ خواب گاہوں میں ان سے علاحدہ رہو اور مارو،پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے نہ تلاش کرو،یقین رکھو کہ اوپر اللہ تعالی موجود ہے جو بڑا اوربالاتر ہے۔‘‘ (النسا:34)
اس طرح سے اسلام نے گھریلو تشدد کا راستہ بند کر دیا ہے۔