گھریلو تشدد کا شکار عورت

عمیر انس

گھریلو تشدد کا لفظ خواتین کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوگیا ہے کہ اب خواتین کے لیے اس سے آزادی پانا مشکل نظر آرہا ہے، دور جدید کی تمام تر آزادی کے نعروں سے باوجود گھریلو تشدد کا دائرہ مسلسل پھیل کر نہ صرف خواتین کی روز مرّہ کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن رہا ہے بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے باوقار زندگیگزارنے کے لیے بھی چیلنج بنتا نظر آرہا ہے۔

ذرا ان اعداد و شمار پرنظر ڈالیے جو عالمی ادارے نے ہندوستان کی خواتین پر جاری کئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان کی ۷۰ فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمر ۱۵ سے ۴۹ سال کے درمیان ہے تشدد کی شکار ہیں۔ ہندوستان گھریلو تشدد کے معاملوں میں صرف مصر اور زامبیا سے پیچھے ہے جہاں ۹۴ اور ۹۱ فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو اپنی کرائم رپورٹ میں کہتا ہے کہ ہر تین منٹ پر عورتوں کے خلاف ایک جرم انجام دیا جاتا ہے۔ ہر پندرہ منٹ پر چھیڑ چھاڑ اور ہر ۲۹ منٹ پر جنسی تشدد کیا جاتا ہے، ہر گھنٹہ پورا ہونے سے پہلے ہی ڈرانے دھمکانے کا معاملہ پیش آتا ہے۔ جبکہ درون خانہ شوہر نام دار کی پر تشدد کارروائیاں ہر دس منٹ پر انجام دی جاتی ہیں۔ یہ ہے اس ملک کی تصویر جہاں عورت درگا، کالی، سرسوتی، لکشمی، پاروتی اور سیتا کے روپ میں پوجی جاتی ہے لیکن تصویر یہ کہہ رہی ہے کہ اس ملک میں خواتین کا بڑا حصہ دروپدی کے حال میں گزر بسر کررہا ہے۔

خواتین پر تشدد کے کئی مطلب ہیں۔ اس کے اخلاقی اور سماجی پہلو کو ایک لمحہ کے لیے موخر کردیں اور صرف اقتصادی پہلو کو لیں تو اندازہ ہوگا کہ خواتین کے خلاف پر تشدد حرکتوں سے ہم خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں اور اپنی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ہندوستان میں اگر کسی عورت پر تشدد ہوتا ہے تو اس کا اثر اس کے سات دنوں کے کام کاج پر پڑتا ہے، اس کے نتیجے میں لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، رپورٹ کہتی ہے کہ گھریلو تشدد کے معاملے میں امریکہ بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ اور وہاں ۱۲ بلین ڈالر کا سالانہ نقصان خواتین پر تشدد کی وجہ سے ہوتا ہے۔

عموماً جن وجوہات کو بہانا بناکر خواتین پر تشد دکیا جاتا ہے ان میں بچوں کی دیکھ ریکھ میں غفلت کو ذمہ دار مانا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں چلے جانا، شوہر سے بحث و مباحثہ کرنا، کھانا پکانے میں دلچسپی نہ دکھانا یا وقت پر کھانا تیار نہ کرنا۔ دوسرے مردوں سے گفتگو کرنا یا پھر اس کے ساتھ صحبت سے انکار کرنا وغیرہ بھی اسباب میں شامل ہیں۔

لیکن ماہرین سماجیات کا خیال ہے کہ بات صرف اتنی نہیں ہے۔ خواتین کے خلاف ’’تشدد‘‘ میں ایک اہم وجہ یہ ہے کہ خاتون کے پاس پراپرٹی ہے یا نہیں۔ کیرلہ میں ہوئے سروے نے یہ بتایا کہ جن عورتوں پر تشدد ہوا ان میں ۴۹ فیصد کے پاس پراپرٹی جیسی چیزنہیں تھی جبکہ جو کسی طرح کی پراپرٹی کی مالک ہیں ایسی خواتین کی صرف سات فیصد تعداد تشدد کا نشانہ بنائی گئی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ گھریلو تشدد کرنے والے یہ مجرم کون ہیں، اگر شوہر کو ہٹا دیں تو اس کے بعد تشدد کرنے والے قریب کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔ شوہر، سسرال، یا اپنے ہی گھر کے چچیرے، پھپھیرے رشتہ دار خاندان کی لڑکیوں کو نشانہ تعذیب بناتے ہیں۔ اور اسی طرح کے بیشتر معاملات میں معاشی حیثیت کا خیال تو ہوتا ہی نہیں بلکہ اخلاق و کرادر میں آیا، فساد ذمہ دار ہے، ساتھ میں وہ عائلی نظام ہے جو مشترکہ خاندانی نظام کے نام پر صدیوں سے اس ملک میں چلا آرہا ہے، جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے اس مشترکہ خاندانی نظام پر اخلاقی فساد کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔

گھریلو تشدد کی وجہ سے صرف عورت کو ہی نہیں بلکہ پورے گھر کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ اپنے گھروں میں اپنی بیویوں اور رشتہ داروں کے ساتھ پرتشدد کارروائی کرتے ہیں۔ اس گھر میں بچوں کی نفسیات پر برے اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے خواہ بچوں میں مایوسی کی کیفیت ہو یا انتہا پسندی کا رجحان یا پھر بچے کا گھر سے پوری طرح بے توجہ ہوکر بری صحبت میں رہ کر نشہ کا عادی ہونا، یہ سب عورت پرتشدد کا نتیجہ ہے لیکن ان سب کے باوجود تشدد جاری ہے، گھروں کی تصویر بگڑ رہی ہے، اور معاشرے میں روزانہ نئے زاویے بن رہے ہیں۔ عورتوں میں ردعمل کی تحریک بھی زور پکڑ رہی ہے۔ اور عورت اور مرد عزت و وقار اور حقوق و اختیارات کی جنگ لڑنے کے لیے آمنے سامنے ہوگئے ہیں۔

اسلامی معاشرہ

ہندوستان کے گھروں میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے مسلم گھر بھی الگ نہیں ہیں۔ مسلم گھروں میں پرتشدد ہنگامے معمول کی بات ہوتے جارہے ہیں۔ زبانی تشدد ہو یا جسمانی تشدد یہ تو موجود ہے ہی، البتہ یہ ضرور ہے کہ جنسی تشدد کے معاملے میں مسلم معاشرہ دوسرے معاشروں سے بہتر حالت میں ہے لیکن اس خوبی پر فخر کرنے والے لوگ دوسرے طریقوں سے تشدد اختیار کرتے ہیں۔ متعدد روایتی گھرانوں میں اس کا سلسلہ جاری ہے۔ ذات برادری اور جہیز کی سرحدیں قائم ہیں ان سرحدوں کو توڑ کر آنے والے گھرانے بھی تشدد سے خالی نہیں ہیں۔ پچھلے مہینوں میں حجاب کے اندر ہی ایسے گھرانوں کا تذکرہ کیا جاچکا ہے جو روایتی اسلام کا دم بھرتے تھے اور دلہن کو جلا کر مارنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر کا فقدان ہی ان تمام مسائل کا سبب ہے۔ جہاں اسلامی نقطہ نظر کا دعویٰ کرنے والے ہیں ان کی اپنی ذاتی تشریحیں ایسی ہیں جو انھیں تشدد کے چور دروازے فراہم کردیتی ہیں۔ اسلام کا اس سلسلے میں موقف واضح ہے۔ تشدد اور جبر جیسی کسی چیز کے لیے اسلامی تعلیمات میں قطعی گنجائش موجود نہیں ہے۔ خواہ کتنا بڑا جرم ہی کیوں نہ سرزد ہوجائے۔ کیوں کہ ہر طرح کی قانونی کارروائی کے لیے عدالت ہے۔ اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیںہے۔ اسی لیے پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں حمیت کے نام پر لڑکیوں کو قتل کرنے والے گھرانے مجرم کی صف میں شامل مانے جاتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ خواتین کے سلسلے میں روایتی مسلم ذہن بھی ہندو تہذیب سے متاثر ہے اور وہ بھی ہندو معاشرے کی طرح عورتوں کو اپنی ملکیت تصور کرتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی ایک مقدس معاہدہ ہے جس کا احترام فریقین کو محبت و مودت سے کرنا ہے۔ محبت و مودت اور خیر خواہی میں جتنے اصرار اورسختی کی گنجائش ہے اس کی اجازت اسلام نے دی ہے۔ قرآن میں عورتوں کو مارنے کے بارے میں جو کچھ آیا ہے وہ اسی قسم کے مارنے کے لیے ہے نہ کہ ’’اذن عام ہے جارحیت کے لیے‘‘ ۔

آج دنیا بھر میں خواتین کا رجحان اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف اسلام کی یہی تعلیمات ہیں جو عورت کو زیادہ محفوظ اور زیادہ محترم بناتی ہیں۔ اگر ہندوستانی معاشرے میں بھی عورت کا قابلِ احترام مقام واپس لانا ہے تو اس کے لیے اسلامی تعلیمات اس کی روح کے ساتھ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت مسلمانوں کی بھی ہے اور غیر مسلموں کی بھی۔ اعداد و شمار کے خوفناک مناظر اس وقت کم ہوسکتے ہیں۔ جب ہم خواتین کو رفقاً بالقواریر(آبگینوں کو بڑے احتیاط اور نرمی سے رکھو) کے مطابق حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیں۔

اگر مسلم سماج میں خواتین پر تشدد کے بڑھتے رجحان کا اندازہ کرنا ہے تو الہٰ آباد ہائی کورٹ میں پڑے جہیز اور جہیز کے سبب دلہن سوزی کے واقعات کو دیکھ سکتے ہیں جو گذشتہ تین سالوں میں تیز رفتاری سے بڑھے ہیں۔ اور اس کا سبب مسلم سماج میں بھی جڑ پکڑ رہا جہیز کا لالچ اور اسلام سے غفلت ہے۔

یہ وقت ہے کہ سماج پر نظر ڈالنے کے بعد مسلم معاشرہ خود احتسابی کی طرف آئے اور دیکھے کے وہ کہاں کھڑا ہے؟ ورنہ بہت جلد وہ بھی انہیں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوجائے گا جس سے عام ہندوستانی معاشرہ جوجھ رہا ہے۔

ہو بہ ہو

ایڈس سے شرح نمو کے متاثر ہونے کا پروپیگنڈہ

قومی ایڈس کنٹرول تنظیم (ناکو) نے ایک جائزہ کے ذریعہ ملک کو آگاہ کیا ہے کہ اگر ایڈس پر کنٹرول نہیں پایا گیا تو ملک کی اقتصادیات متاثر ہوسکتی ہے۔ ایڈس کا برا اثر محض متاثرہ خاندانوں تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ پوری اقتصادیات میں پھیل جائے گا۔ ناکو کے مطابق متاثرہ خاندانوں کو ایڈس کے علاج کے لیے زیادہ خرچ کرنا ہوگا جس سے بچت اور سرمایہ کاری میں گراوٹ آئے گی، مجموعی اقتصادیات میں شرح نمو گرے گی، محنت کی مانگ بھی کرے گی اور صحت مند خاندان بھی زد میں آجائیں گے۔ اور ان کے روزگار کے مواقع اور تنخواہیں کم ہوجائیں گی۔ ناکو نے اندازہ لگایا کہ ان اسباب سے ملک کی اقتصادی شرح نمو میں 0.86 فیصد کی گراوٹ آئے گی۔ اس لیے ملک کو ایڈس کنٹرول پر خرچ بڑھانا چاہیے۔

ایڈس پر کنٹرول ہونا چاہیے اس سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن کیا ایڈس کا اتنا برا اثر پڑنے کو ہے؟ سوال اہم ہے، کیوں کہ ملک کے عوام دوسرے امراض سے بھی متاثر ہیں، جیسے ٹی بی، ملیریا، بلڈپریشر، شوگر وغیرہ۔ کس بیماری کے علاج کو اولیت دی جائے یہ طے کرنے کے لیے مختلف بیماریوں کا صحیح جائزہ لینا ضروری ہے۔

ناکو کے جائزہ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2005میں ملک میں 1,11,608ایڈس کے مریض ہونے کی اطلاع ہے۔ جب کے ۵۲ لاکھ لوگ ایچ آئی وائرس متاثر ہیں۔ (واضح ہو کہ وائرس کا ایڈس کے مرض میں تبدیل ہونا غیر یقینی رہتا ہے۔)متعدد لوگوں کے جسم میں وائرس داخل ہوچکا ہوتا ہے۔ مگر وہ عام زندگی جیتے ہیں۔دوسروں میں یہی وائرس ایڈس کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اور آدمی کی بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، تب وہ ٹی بی یا دوسرے امراض سے جلد ہی متاثر ہوجاتا ہے۔ ناکو کا تجزیہ ہے کہ آئندہ ۵ برسوں میں وائرس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں ۵ گنا اضافہ ہوگا۔ اور 2.50لاکھ لوگ اس متاثر ہوسکتے ہیں۔ لیکن ناکو کی رپورٹ میں یہ واضح نہیں ہے کہ ان 2.50لاکھ میں کتنے مریضوں میں یہ وائرس ایڈس کی شکل اختیا رکرلے گا۔ حال میں ۵۲ لاکھ ایچ آئی وائرس مریضوں میں سے 1,11,608میں ایڈس کا مرض پایا گیا ہے۔ اس تناسب کی بنیاد پر آ نے والے دنوں میں ایڈس کے مریضوں کی تعداد تقریباً5,55,000ہوجائے گی۔ یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ۱۰ یا ۲۰ لاکھ لوگ ایڈس سے متاثر ہوجائیں گے۔ ان ۲۰ لاکھ میں سے کچھ کی موت ہوجائے گی۔ اور کچھ کی کام کرنے کی صلاحیت کم ہوجائے گی۔ مان لیتے ہیں کہ کل اثر ۵ لاکھ لوگوں کے موت کے برابر ہوگا۔

ملک کی آبادی ۲۰۱۰ میں تقریباً ۱۱۰ کروڑ ہوجائے گی۔ان میں آدھے بچے اور بوڑھے مان لیے جائیں تو کام کرنے والے کی تعداد ۵۵ کروڑ ہے۔ ان میں سے ۵ لاکھ کی موت کے برابر ایڈس کا برا اثر پڑنے کا اندازہ ہے۔ یعنی ہزار میں ایک آدمی کی اقتصادیات میں خدمت بے اثر ہوجائے گی۔ عام حساب بتاتا ہے کہ ملک کی آمدنی اور شرح نمو میں 0.1فیصد کی گراوٹ اس سبب سے آسکتی ہے۔ مگر ناکو نے اندازہ لگایا ہے کہ شرح نمو میں 0.86فیصد کی گراوٹ آئے گی۔ اس تضاد کا سبب یہ ہے کہ مطالعہ میں ناکو نے خواہ مخواہ ہی مان لیا ہے کہ ملک کے کل عوام کی پیداواری صلاحیت میں 0.8فیصد کی گراوٹ آئے گی۔ عوام کی پیداواری صلاحیت میں اتنی بھاری گراوٹ آنے کو ناکو نے کوئی وضاحت نہیں پیش کی ہے۔ ہزار میں محض ایک آدمی کے برابر اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ناکو خواہ مخواہ ہی ایڈس کے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے۔

ہر سرکاری مشینری کی طرح ناکوبھی چاہتا ہے کہ اس کے بجٹ میں اضافہ ہو۔ اس لیے ناکو بھی چاہتا ہے کہ اس کے بجٹ میں اضافہ ہو۔ اس لیے ناکو کے لیے یہ دکھانا ضروری تھا کہ ایڈس کا زبردست برا اثر پڑے گا۔ یہ دکھانے کے لیے ناکو نے بغیر کسی بنیا دکے مان لیا کہ ملک کے کل عوام کی پیداواری صلاحیت میں 0.8فیصد کی گراوٹ آئے گی۔ اور یہ نتیجہ نکال لیا کہ اقتصادی شرح نمو میں 0.86فیصد کی گراوٹ آئے گی۔

ناکو جیسی تنظیم کے ذریعہ ایڈس کے اثر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے پیچھے امیر ممالک کی سیاست ہے۔ ان ممالک کو ہندوستان میں ٹی بی یا ملیریا کے پھیلنے سے کم خطرہ ہے بلکہ ایڈس سے زیادہ ہے۔ امیر ممالک کے لیے ہندوستان میں ٹی بی اور ملیریا سے کروڑوں لوگ مرے تو چلے گا۔ مگر ایک لاکھ لوگ بھی ایڈس سے متاثر ہوجائیں تو ان کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ اس لیے ان کے مفادات بڑھانے والے اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام نامی ادارہ نے ناکو کو محض ایڈس کا سروے کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کرایا۔ اقوام متحدہ نے ملک کی وزارت صحت کو مختلف امراض کی اقتصادیات پر تقابلی مطالعہ کے لیے سرمایہ نہیں دیا۔ کیوں کہ ان کا مقصد ایڈس کو روکنے کا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ناکو جیسی سرکاری تنظیموں کے افسران اقوام متحدہ کے ذریعہ بچھائے گئے جال میں بخوشی پھنس جاتے ہیں۔ شاید ان افسران کی نظر ریٹائرمنٹ کے بعد ان تنظیموں میں صلاح کاری کے ٹھیکوں پر ہوتی ہے۔ اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لیے یہ ملک کو گمراہ کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔

حقیقت میں ناکو کے ذریعہ کرائے گئے مطالعہ کی بنیاد ہی غلط ہے۔ ناکو نے یہ دکھایا ہے کہ ایڈس کا اقتصادیات پر برا اثر پڑے گا، مگر کیا ملیریا، ٹی بی، بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ امراض کا برا اثر نہیں پڑے گا؟ دیکھنا چاہیے تھا کہ مختلف امراض کا کتنا برا اثر پڑے گا۔پھر یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ مختلف امراض پر کنٹرول پر کتنا خرچ آئے گا۔ تب موازنہ کیا جاسکتا تھا کہ سرکار کے لیے ایک کروڑ روپے ٹی بی کے اوپر خرچ کرنا سود مند ہے یا ایڈس کے علاج پر۔

ایڈس کے علاج کے لیے سرکاری خرچ بڑھانے میں ایک اور مسئلہ ہے۔ ناکو نے پایا ہے کہ ہندوستان میں ایڈس کافروغ خاص طور سے ازدواجی زندگی سے باہر جنسی رشتوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ یعنی بد کردار ایڈس سے زیادہ متاثر ہیں۔ ملیریا اور ٹی بی کے امراض بدکرداری سے نہیں بلکہ جراثیم سے پھیلتے ہیں۔ ملیریا کے جراثیم تالاب وغیرہ میں پنپتے ہیں جن کی صفائی کرنا سماج اور سرکار کی ذمہ داری ہے۔ یعنی ایڈس سے وہ لوگ زیادہ مثاثر ہیں جو بدکردار ہیں، جب کہ ملیریا سے وہ زیادہ متاثر ہیں جن کے گاؤں میں سرکاری محکمہ غیر محترک ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزارت صحت کے پاس محدود وسائل کو ایڈس کے علاج میں لگائیں یا ملیریا کے علاج میں؟ یا سرمایہ کو بدکرداروں کے علاج میں یا اس کے علاج میں جو سرکاری بد انتظامی کے شکار ہیں۔ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ایڈس کے مریضوں کو ان کی بدکرداری کے پاپ سے آزاد کرکے ناکو جیسی تنظیمیں ملک میں ایڈس کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ ملک کو ایسی سرکاری تنظیموں کے ذریعہ کیے جارہے غلط پروپیگنڈوں سے بچ کر رہنا چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146