آخرکارڈومسٹک وائلنس بل نے قانونی صورت لے لی ہے۔گذشتہ 26اکتوبر سے یہ قانون کشمیر اور یونین ٹیریٹوریز کو چھوڑ کر ہندوستان کی سبھی ریاستوں میں نافذ کر دیا گیا ہے۔ادارہ حجاب نے پچھلے سال جب یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیاگیا تھا تب اپنے قارئین کو اس قانون کے مختلف منفی اور مثبت پہلووں سے آگاہ کیا تھا۔اب جب کہ قانون بن گیا ہے اور ملک کے مختلف عدالتوں نے اس قانون کے تحت متعدد مقدمے بھی فیصل کر دیے ہیں تو آنے والے رد عمل نے ہندوستانی معاشرے کے سامنے متعدد اندیشے اور خدشات کے دروازے کھول دیے ہیں۔جو لوگ قانون کے ذریعے عورتوں کو تحفظ دینے کی وکالت کرتے ہیں ان کی اصل منزل اور اصل نشانے کو سمجھنے اور سمجھانے کا وقت آلگا ہے۔
یہ قانون جسے متعدد پہلووں سے تاریخی قانون قرار دیا جارہا ہے اب تک کے قوانین سے الگ ہے۔اس کے تحت پہلی بار عوریتں اپنے شوہروں کی زیادتیوں کے خلاف قانون کا سہارا لے کر انہیں جیل بھیجنے اور معاوضہ حاصل کرنے کااختیار استعمال کر سکتی ہیں۔یہ قانون جہیز کے لیے بنائے قانون سے بھی الگ ہے اس کے تحت اب کوئی بہن اپنے کفیل بھائی کے خلاف بھی کاروائی کر سکتی ہے جیسا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک مقدمے میں ایک بھائی کوپندرہ سو روپیے ماہانہ اپنی بہن کودینے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔
خواتین کے تحفظ اور انکے امپاورمنٹ کے لیے پہلے بھی قانون بنتے رہے ہیں اور تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ حکومتوں کے نزدیک ایک گھر کو چلانے کے لیے صرف قانون کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔انسانی اقدار اور محبت پر مبنی زوجین کا فطری رشتہ اسی قانونی زبان نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔اسی طرح خواتین کے لیے چلائی جا رہی بیشتر تحریکوں کا بھی یہی حال ہے جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ ہر خاتون کے ہاتھ میں قانون کا بینت تھما دے جس سے وہ اپنے شوہروں پر دھونس جما کر ایک غیر فطری معاشرہ تشکیل دے۔حالیہ دنوں میں خود انہی تنظیموں نے اعتراف کیا ہے کہ جہیز ایکٹ کا بھی بے جااستعمال کیا جا رہا ہے۔دوسری طرف خواتین تحریکات جس طرح سے عورتوں کی نجات کے لیے کام کر رہی ہیں اس کے مطابق مرد و عورت دو باہم متحارب گروہ ہیںجن میںسے ہر ایک بہر صورت ایک دوسرے کے حقوق کو چھیننے سے ہی باقی رہ سکتا ہے۔عورت کی ایک ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے ہر عورت یہ محسوس کر سکے کہ مرد و عورت کو باہمی کشمکش کی بنیاد پر پیدا کیا گیا ہے۔اور انکی تاریخ اسی کشمکش سے پر ہے۔اس طبقے کے نزدیک لڑکی کا بھائی اگر اپنی بہن کو کسی غلط کام سے روکتا ہے تو یہ گھریلو تشدد ہو گا۔یہاں تک کہ والدین بھی اگر اپنی بیٹی کو سیاہ سفید کا فرق بتانے کی کوشش کریں تو ممکن تو ہے کہ یہ بھی گھریلو تشدد ہو۔اسی طرح سے ایک شوہر اپنی بیوی سے اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے ذرا بھی بے احتیاطی کر تا ہے تو یہ گھریلو تشدد ہوگا اور ایسے شوہر کو یہ تحریکں زانی شوہر کا درجہ دے کر قانون کے کٹگھرے میں کھڑا کرنا چاہتی ہیں۔در اصل یہ قانون انہیں تحریکات کا نتیجہ ہے جسکے تحت اب بھائی ،شوہر،والدین کی بڑی تعداد اب جیلوں میں نظر آئے گی۔جہاں تک قانون کے نفاذ کی بات ہے تو یہ طے ہے کہ پچھلے سبھی قوانین کی طرح اس کا بھی بے جا استعمال کثرت سے ہو گا اوراہمارے قانونی اور انتظامی اداروں کی نااہلی اور رشوت خوری کی سزا معاشرتی اقدار اور سماجی اداروں کو ادا کر نی پڑے گی۔جیسا کہ فیملی کورٹ1984اورجہیز ایکٹ کے ساتھ ہواہے۔
اس قانون پر اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی اوردیگر لوگوں نے نکتہ چینی کی ہے۔سماج وادی پارٹی نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ اس قانون سے ہندوستان میں ’’فیملی‘‘ادارے کو نقصان پہونچے گا۔در اصل دیکھا جائے تو یہ اور ان جیسے دوسرے قوانین کی زد اصلاًخاندانی نظام پر ہی ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانی حکومت کے پاس فیملی سسٹم کے لیے کوئی نمونہ موجود ہی نہیں ہے۔بازار اور ہوس پر مبنی تصور آزادی کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہر طرح کی ایسی روایتی ،مذہبی یا سماجی بندش کو ختم کر دیا جائے جو ایک عورت کو محفوظ رکھتی ہو۔اس طرح کے قوانین کا نتیجہ ہی ہے کہ آج کے نوجوان کے لیے شادی ایک مشکل چیز ہے اور بدکرداری آسان ترین عمل ۔حکومت اور میڈیا ،تفریحی میڈیا ناجائز رشتوں کو ’’محفوظ سیکس ‘‘قرار دے کر جنس کے سوداگر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔نتیجہ ہے کہ بڑے اور تعلیم یافتہ گھروں میںطلاق کی نوبتیں سب سے زیادہ پیش آ رہی ہے جہاں عورت کو یہ فریب دلایا گیا ہے کہ اسے شراب نہیں پینے دینا،پارٹیوں میں نہ جانے دینا،شوہر کے دوستوں میں بیویوں کا تبادلہ وغیرہ اسکی آزادی میں خلل ہے۔اور اسکے خلاف احتجاج در اصل انکے حقوق کی جنگ ہے۔کسی نسواں تحریک کی طرف سے یہ آواز نہیں اٹھا ئی جاتی کہ لڑکیوں کو رات کی شفٹ نہیں کرنی چاہیے۔لڑکیوں کو شراب پروسنا اور بار میں کام نہیں کرنا چاہئیے۔لڑکیوں کی عصمت و عفت کے لحاظ سے جتنے بھی خطرناک زون ہیں،تحریکات نسواں کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔اس کے برخلاف ان کا طرز عمل یہ ہے کہ بدکاری کو قانونی درجہ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ہم جنسی ان کے نزدیک بنیادی حق ہے۔اور ’’رضا کارانہ جنسی عمل ایک قانونی عمل ہے جسے اب عدالت نے بھی ناقابل اعتراض قرار دے دیاہے۔شادی سے پہلے جنسی عمل ان کے نزدیک ترقی پسند ہو نے کی علامت ہے۔ اخبارات کے پاس دس دس کالم ڈیٹنگ کے آداب بتانے کے لیے تو ہیں لیکن انسانی رشتوں کے وقار کے بارے میں کچھ لکھنا ان کے لیے رجعت پسندی کی علامت ہے۔نوجوانوں کے درمیان سروے کا ڈھونگ رچا کر سماجاجیات کا نصاب اور اس کارخ بدلا جا رہاہے۔گذشتہ سال ہندوستان کے تین بڑے رسائل نے اس بات پر سروے شائع کیاکہ ہندوستان کے نوجوان جنسی عمل کے بارے میں کافی بولڈ ہوتے جا رہے ہیں جو انکے پختہ فکر ہونے کی علامت ہے۔دیکھا جائے تو یہی سب ہے جسے یہ لوگ ہندوستانی معاشرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی خدمت کے عوض انہیں دنیا کے بڑے بڑے اداروں سے اربوں ڈالر کے فنڈ ملتے ہیںاور اسی کام کے لیے انہیں سارے اوارڈ ملتے ہیں۔یہ تنظیمیں کتنی خوبصورتی کے ساتھ ہندوستان کا سماجی تانا بانا برباد کر رہی ہیں اور کیسے ہماری معاشرتی حساسیت کو معاشرتی حیوانیت میں تبدیل کر رہی ہیں اس بات کا اندازہ ہماری حکومت کو کرنا چاہیے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اپنے فیملی سسٹم کے لیے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتی اور سماجی اداروں کو متاثر کرنے والے عناصر کے عزائم کو بے نقاب کرتی لیکن حکومت پوری طرح انکے آگے سرنگوں ہے۔ عورتوں کے سلسلے میں قوانین کا لگاتار سلسلہ بدترین ایجنڈہ کا خوشنما لباس ہے۔اس لیے ایسے سبھی قوانین کا از سر نو جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ جس ملک میں براک میزائیل خریدنے والے وزراء موٹی رشوتیں کھاتے ہیں،فیملی قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے بھی ان کی بددیانتی کا امکان موجود ہے۔
اسلامی تصور
جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو ا نکے لیے فیملی ایک باقاعدہ ادارہ ہے۔ جہاں مرد و عورت کی حیثیت یکساں طور پر اللہ کے یکساں بندے کی ہے۔اپنے حقوق اور فرائض کے بارے میں مسلم خاندان ایک مکمل یونٹ ہے۔جس میں ہر ممبر کے ذمہ کچھ کام مشترک ہیں اور کچھ کام کچھ ممبروں کے لیے مخصوص ہیں۔کچھ کام ایسے ہیں جن کے لیے دونوں کو اختیار ہے ۔ البتہ پسندیدگی اور ترجیح اس بات کو دی گئی ہے کہ اختیاری کاموں میں ایسے کاموں کا اختیار کریں جو اس کے مقاصد زندگی میں زیادہ معاون ہوں نہ کہ اس سے ٹکرانے والے ہوں۔مثال کے طور پر والد اور گھر کے بڑے مردوں کو کفالت کا ذمہ دیا گیا ہے۔ماتحتوں کی تعلیم و تربیت یہاں تک کہ مناسب افراد سے انکی شادیوں کی ذمہ داری بھی ان کو دی گئی ہے۔عورت کو بہرحال دنیا میں تجارت اور نوکری کاحق حاصل ہے۔لیکن جب یہ نوکری اس کے بچوں کی پرورش اورمعاشرتی اقدار میں زہر کھولنے لگے تو اس اختیار کی سرحد ختم ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں جہاں تاجر خواتین کے نام ملتے ہیں وہیں ایسی عظیم ماؤں کے نام ملتے ہیں جنکے جیالوں کے سبب انسانیت انہیں یاد رکھتی ہے۔
اسلام کے نزدیک مرد وخواتین کی حیثیت کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
’’لوگو،اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدہ کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو‘‘ (سورہ نساء :۱)
اسلام نے نکاح کو مودت ،رحمت اور باعث تسکین قرار دیا ہے۔شادی کا ادارہ اسلام کے نزدیک ایک ذمہ دارانہ ادارہ ہے جو خواتین کو تحفظ اور انکی نگہ بانی کا ذمہ دار ہے۔عورتوں کو اللہ کے رسول ؐنے آب گینوں سے مثال دی ہے۔انکے حقوق اور اختیارات ہی نہیں بلکہ معاشرے کے لیے انکی ذمہ داریوں اور انکے فرائض پر بھی اسلام نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عورت و مرد ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ہیں،مد مقابل نہیں۔لیکن دور حاضر کی فیمنسٹ تحریکات تہذیب انسانی کے ان دوپہییوں کو باہم ٹکرانا چاہتی ہیں۔اور معاشرے کو بعض سرمایہ پرستوں ،ملٹی نیشنل کمپنیوں،اور انکے تیار کردہ معاشرتی فلسفوں کی طرف لے جا نا چاہتی ہیں۔ اس بڑے ایجنڈے کو پوراکر نے کے لیے وہ صرف لباس اور فیشن ہی نہیں بلکہ اس کی عصمت و عفت کو بھیسامانِ تجارت بنانے کے لیے آمادہ ہیں۔معاشرتی نظام خاص طور پر اسلام کا معاشرتی نظام ان کے اس ایجنڈے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لیے انکی تحریکات کی سب سے نمایاں ضرب مسلم ملکوں اور دوسری بڑی مسلم آبادی کے ملک ہندوستان پر ہے۔
قانون برائے لاقانونیت
مغربی اقدار عورتوں کو بااختیار بنانے کی بات کرتی ہیں۔اورا س کے لیے لازمی طور پر عورت کو ملکیت میں بڑا حصہ دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب جب عورت ملکیت سے محروم ہوئی تواسکی دست نگری میں اضافہ ہواہے اور اس کی اس مجبوری کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔موجودہ قانون ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ خاص طور پر ملکیت سے محروم خواتین کے لیے تریاق قرار دیا جا رہا ہے۔اس قانون کے نفاذ کے بعد آنے والی خبریں اس بات کی تصدیق بھی کرتی ہے۔
عورت کی یہ محرومی ہندوستان کے ہندو معاشرے کی تاریخ ہے۔ لیکن مسلم معاشرے کی تاریخ سیاہ کرنے میں خود مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔وراثت میں خواتین کو انکا جائز حصہ نہ دینا،مہر اور نفقہ میں ڈنڈی مارنا،طلاق کے حق کو مردانہ طاقت کی علامت سمجھنا ،عورتوں کے ساتھ مار پیٹ کو شرعی حق سمجھنا،مسلم معاشرہ کا مرض بنتا جا رہا ہے۔اس مرض نے ایسی تحریکوں کے لیے کمزور راستے کھول دیے ہیں۔ یہ قانون کسی اور کے لیے ہو یا نہ ہو مسلم معاشرہ اور مسلم دانشوروں کے لیے ضرور قابلِ غور ہے۔