گھریلو جھگڑے اور ٹینشن

ڈاکٹر کاشف فراز احمد

شادی کے بعد نوبیاہتا جوڑے کو بتایاجاتاہے کہ اب تم دونوں جسمانی اورروحانی طورپر ایک ہوگئے ہو۔ مگر جسمانی اور روحانی طورپر ایک ہونے کے لئے کوشش، عقل اور سمجھوتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں بھی میاں بیوی دونوں کی طرف سے ایک جیسی کوشش انڈر اسٹینڈنگ کامظاہرہ نہیں ہوتا وہاں جھگڑے جنم لیتے ہیں ٹینشن پیدا ہوتا ہے اور علاحدگی کا خطرہ پیداہوجاتاہے اگر میاں اور بیوی مختلف ثقافتی اورمعاشی پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں تو ان کوششوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اگر بیوی کھاتے پیتے گھرانے سے کسی ایسے گھرانے میں بیاہ کرآئے جہاں پیسوں کو دیکھ دیکھ کر خرچ کرنا پڑتا ہو، وہاں جھگڑے عام ہوتے ہیں۔ اگر بیوی کوئی ایسی چیز خرید لے جس کی شوہر کی نظر میں ضرورت نہ ہو اور اس کے نتیجے میں مہینے کے آخر میں کسی اور ضروری چیز کی خریداری کا ارادہ بدل دیناپڑے تو لڑائی جھگڑے کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اگر میاں بیوی، شوہر کے کنبے کے ساتھ رہتے ہوں تو ٹینشن اور جھگڑے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے نظام میں سب افراد کی آمدنی کو اکٹھا کیا جاتاہے اور اسے گھر کے افراد پر خرچ کرتے وقت ان کی انفرادی کمائی کو نہیں بلکہ ان کی ضروریات کو دیکھا جاتاہے۔ اس کے علاوہ ایسے گھرانوں میں ایسی کیفیات اکثر رونما ہوتی ہیں جب ہر کوئی گھٹن محسوس کرتاہے۔ پھر ساس اور بہو کے روایتی جھگڑے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات گھر کشادہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سب کی نجی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اس طرح کے نظام میں جھگڑوں اور ٹینشن کی کہیں زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔
پہلے بچے کی پیدائش سے شوہر پر بعض پابندیاں لگ جاتی ہیں جو کہ زیادہ پابندیاں قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اسے اپنے اور بیوی کے درمیان ایک ’’تیسرے‘‘ کی موجودگی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اب بیوی کے پاس شوہر کی ضروریات کاخیال رکھنے کے لئے وقت نہیں ہوتا جس سے شوہر ناراض ہوجاتاہے۔ مگر یہ ایسی صورتحال نہیں ہوتی جسے ٹھیک نہ کیاجاسکے۔ اس موضوع پر کھل کر بات کرنے سے دونوں میںسمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ کچھ میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔ بیوی نگہداشت کے ایک طریقے پر اصرار کرتی ہے جب کہ شوہر کسی دوسرے طریقے پر اصرار کرتا ہے۔ گو کہ اس معاملے میں مکمل ہم آہنگی ممکن نہیں ہوتی تاہم دونوں کو کوئی ایسا راستہ اختیار کرلینا چاہیے جس سے بچوں پر کوئی اثر نہ پڑے اور وہ ماں باپ کے جھگڑوں سے فائدہ اٹھاکر بگڑنہ جائیں۔
زیادہ مطالبے کرنے والی بیوی
اکثر بیویاںاس بات کا احساس نہیں کرتیں کہ کاروبار یا دفتر میں اس کے شوہر پر کیا گزرتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے دفتری ساتھیوں کی وجہ سے پریشان ہو یا انکم ٹیکس والوں یا اپنے کاروباری حریفوں کی وجہ سے خوف زدہ ہو۔ یا مالی عدم تحفظ یا نقصان کی وجہ سے مایوس ہو۔ بیوی ہمیشہ اس سے توقع رکھتی ہے کہ وہ جب بھی گھر میں داخل ہو خوش باش اور ہشاش بشاش دکھائی دے۔ ابھی وہ گھر میں داخل ہی نہیں ہوپاتاکہ وہ اسے بچوں یا ہمسایوں کی وجہ سے پیش آنے والی اصلی یا فرضی مشکلات سنانا شروع کردیتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ اس سے یہ فرمائش بھی کردیتی ہے کہ وہ اسے باہر کہیں تفریح کے لئے یا گھمانے پھرانے کے لئے لے جائے کیونکہ وہ سارا دن گھر کے اندر قید رہتی ہے۔ جب ایسا باربار ہوتا ہے تو شوہر یا تو چڑ چڑا ہوجاتاہے یا ذہنی ٹینشن کا شکار ہوجاتاہے۔
دوسری طرف شوہر کو بھی احساس کرناچاہیے کہ گھر بچوں اور اس کی اپنی ضروریات کی دیکھ بھال اس کی بیوی کا کل وقتی کام ہے جو کبھی کبھی بڑا مشکل اور یکسانیت کاشکار ہوجاتاہے ۔اس لئے اس کام پر بیوی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی تعریف کرنے والا اور قدر کرنے والا موجود ہوتو کام کا بوجھ ہلکا محسوس ہونے لگتا ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔
جنسی معاملات
میاں اور بیوی کے درمیان ٹینشن کی ایک اور بڑی وجہ وہ ہے جس پر اکثر لوگ بات نہیں کرنا چاہتے اور جو سب سے اہم ہوتی ہے۔ یہ جنس کے معاملے میں دونوں کے درمیان عدم مطابقت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ مرد اور عورت جنس کے معاملے میں مختلف ردعمل کامظاہرہ کرتے ہیں۔ مرد اکثر جنس کی خواہش محسوس کرتا ہے جب کہ عورت کے ساتھ یہ صورتحال نہیں ہوتی۔ عورت جنس کی خواہش صرف اسی وقت کرتی ہے جب وہ ذہنی طورپر اس کی طرف مائل ہو، جب کہ شوہر کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ حیض کے دوران، حمل کے دوران یا بچے کو دودھ پلانے کے دوران عورت کے احساسات مختلف ہوتے ہیں۔ ان باتوں کو سمجھنا مرد کے لئے آسان نہیں ہوتا۔ اکثر اسے محسوس ہوتاہے کہ اس کی توہین کی گئی ہے تاہم شوہر کو بھی ان حیاتیاتی اور فطری اختلافات کو مدنظر رکھناچاہیے۔
اس کی بجائے ہمارے ملک میں بچی کو ہمارا معاشرہ والدین، بالواسطہ طورپر اور ڈھکے چھپے انداز میں یہی بتاتا ہے کہ جنس منع ہے، گناہ ہے۔ بچپن میں سیکھے گئے تصورات اور سیکھی گئی عادات، شادی کے بعد بھی برقرار رہتی ہیں۔ یہ عادات اور تصورات ان دونوں کے درمیان بہت سے جھگڑوں ، کنفیوژن اور ٹینشن کاباعث بنتی ہیں۔ شوہر کو ان سے زیادہ تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس کاغصہ ان باتوں میںبھی نکالتاہے جن کا جنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
تیسرے فریق کی مداخلت
میاں بیوی میں چاہے کتنا بھی اتفاق ہو ان کے درمیان کبھی کبھار عام گھریلو جھگڑے ضرور ہوتے ہیں لیکن اگر ان جھگڑوں میں کسی تیسرے فریق کو بھی شامل کرلیاجائے تو پھر یہ جھگڑے دوسرا رنگ اختیار کرجاتے ہیں۔ اگر شوہر اپنے والدین یا بیوی اپنے والدین سے ان جھگڑوں کاذکرکردے تو تیسرا فریق اپنی اہمیت جتانے کے لئے دانستہ یا نادانستہ طورپر ان جھگڑوں کو طول دینے سے مسرت حاصل کرنا شروع کردیتاہے اور انہیں حل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ مزید برآں تیسرے فریق کی آمد سے بہت سے غیرمتعلقہ معاملات مثلاً انا کے مسائل وغیرہ بھی درمیان میں آجاتے ہیں جو کہ دونوں فریق کے رویوں کو مزید سخت کردیتے ہیں۔ اس سے پرہیزکرنا چاہیے۔ کسی کو بھی میاں بیوی کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بچوں اور رشتے داروں کاالگ مقام ہوتاہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان پیداہونے والے مسائل ان پر کھل کر بات کرنے سے حل ہوجاتے ہیں۔ ان مسائل پر بات کرنے کی بجائے انہیں دل میں بٹھالینے سے بات بگڑ جاتی ہے۔ بات کرنے، بحث کرنے، قائل کرنے اور قائل ہونے سے میاں بیوی کے درمیان زیادہ اہم ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ کوئی بھی اپنی چڑچڑاہٹ اور غصے کو چھپاکر نہیں رکھ سکتا۔یہ کہیں نہ کہیں ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اگر دل میں چھپائی ہوئی یہ کدورتیں ایک بار پھوٹ پڑیں اور جھگڑوں کا باعث بنیں اور ان کا اظہار بچوں کی موجودگی میں ہوتو یہ بچوں کی ذہنی نشوونما کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ یہ بات اور بھی بُری ہوجاتی ہے جب بچوں کو کسی ایک فریق کی طرفداری پر مجبور کیاجاتاہے۔
ذاتی کشش
شادی کے بعد بہت سی خواتین گھریلو کام کاج اوربچوں کی نگہداشت میں اس طرح کھوجاتی ہیں کہ وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ بننا سنورنا اور شوہر کے لئے پُرکشش نظرآنا ان کے لئے کتنا اہم ہوتاہے اور وہ اپنے جسم اور کپڑوں سے متعلق بالکل لاپرواہ ہوجاتی ہیں۔ کوئی بھی شوہر ایسی خوبصورت بیوی میں زیادہ کشش محسوس کرتاہے جو شام کو بنی سنوری صاف ستھرے گھر میں اس کا استقبال کرتی ہے۔ خوشی کی یہ خاصیت ہے کہ اگر آپ کسی کو خوشی دیتے ہیں تو یہ کئی گنا بڑھ کر آپ کو واپس ملتی ہے۔ میاں اور بیوی دونوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ اس اصول کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146