اولاد کی دینی تعلیم و تربیت والدین کی ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے۔ اس کو کما حقہٗ پورا کرنے میں دیگر افراد اور ادارے بہترین معاون تو بن سکتے ہیں۔ لیکن نہ وہ والدین کا نعم البدل بن سکتے ہیں، نہ بچے والدین سے بے نیاز ہوسکتے ہیں۔ اگربچے کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ توجہ اور دلچسپی سے حصہ لیں تو وہ استاد سے بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اگر بچہ صرف اساتذہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور وہ اپنے والدین کی شفیق توجہ اور تربیت سے محروم ہوجائے تو اس کی سیرت میں ایک خلا پیدا ہوجائے گا جس کا کسی اور ذریعہ سے پُر ہونامحال ہے۔ ایک کامیاب مربی میں ہمدردی، بے غرض محبت، شفقت اور صبر و تحمل وغیرہ جیسے اوصافِ حمیدہ کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ وہ والدین اور خصوصاً ماں کا طرئہ امتیاز ہوتے ہیں۔ اسی فطری اہلیت کی وجہ سے ماں کی گود کو بچہ کا اولین مکتب کہا جاتا ہے جو عقلاً اور تجربتاً صحیح ہے۔
اگر کسی ملک میں حکومت اسلامی نظام تعلیم کو رائج کردے اور اسی کے ساتھ ساتھ عام سوسائٹی بھی صالح اور پاکیزہ ہوجائے تب بھی والدین شخصی طور پر اولاد کی تعلیم و تربیت سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ بچوں کی تعمیر سیرت میں انہیں بہرحال اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر مدارس میں غیر اسلامی ہی نہیں بلکہ ایک حد تک مخالف اسلام نظام تعلیم جاری ہو۔ عام ماحول ذہنی اعتبار سے الحاد یااوہام کی آماجگاہ اور اخلاقی حیثیت سے گندہ ہو۔ اسلام سے انحراف اور بغاوت کے لیے تو حالات سازگار بلکہ حوصلہ افزاء نظر آئیں اور اسلام کی قدروں پر قائم رہنا مشکل ہوجائے۔ تو ایسے تشویشناک اور نازک حالات میں والدین کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اگر والدین بھی اپنے فریضۂ منصبی سے غفلت اور بے اعتنائی برتیں تو بچے کو صحیح تعلیم و تربیت کہاں ملے گی؟ ان کے دین و اخلاق کا مستقبل کیا ہوگا۔ اس بدیہی حقیقت کا ادراک ایک عامی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔
بہر حال موجودہ مدارس میں بچوں کے سادہ ذہن کو جن تعلیمات سے متاثر کیا جارہا ہے اور جس گندے ماحول کی مسموم فضا میں ہمارے نونہال سانس لے رہے ہیں اس کے پیش نظر اس وقت والدین کی اولین توجہ کاطالب اور ان کا انتہائی اہم فریضہ اگر کوئی ہے تو یہی کہ اپنے گھروں کو دینی تعلیم و تربیت کا گہوارہ بنائیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں بذات خود حصہ لیں۔ ہوا کا رخ تو کچھ ایسا نظر آرہا ہے کہ اب اگر ہر ماں کی گود بچے کی اولین درسگاہ و تربیت گاہ نہیں بنتی اور ہر باپ اپنی توجہ اور وقت کا کچھ حصہ اپنے نورِ نظر کی تربیت پر نہیں دیتا تو اس کا اولین اور دور رس اثر اولاد کی زندگی پر اور بالواسطہ پوری امت مسلمہ پر پڑے گا۔ ان کی اولاد اس حیات فانی میں بھی نقصان اٹھائے گی اور حیات جاودانی کو بھی خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
اسی احساس ذمہ داری کے تحت اپنے بچوں کی گھر پر دینی تعلیم کے لیے کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں باقاعدہ کوشش کی جارہی ہے جو بڑی حد تک ابھی تجرباتی دور سے گزر رہی ہے تاہم اس کے امید افزا اثرات نظر آرہے ہیں۔
اس تجربہ سے کون لوگ زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟ میرا خیال ہے اس کا مجموعی پروگرام سب کے لیے مفید ہوگا۔ ویسے یہ زیادہ قابل عمل ایک ایسے گھرانے کے لیے ہے جہاں ماں سمجھدار اور اوسط درجہ کی تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ بچوں کے لیے روزانہ کم از کم دو گھنٹے دے سکے اور باپ بھی باقاعدگی سے توجہ دیتا رہے۔
گھریلو تعلیم کے لیے ہم جو کوشش کررہے ہیں اسے چھ ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱) نظم (۲) منصوبہ (۳) تعلیم (۴) کتابت (۵) روزنامچہ (۶)ہفتہ وار اجتماع
نظم
ہم نے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے گھر میں ایک نظم قائم کرنا سب سے مقدم سمجھا۔ تقریباً ویسا ہی نظم جیسا مدرسے میں ہوتا ہے۔ طلباء کی درجہ بندی، حاضری اور اوقات کی پابندی، ماہانہ اور سالانہ امتحان متعینہ نصاب تعلیم وغیرہ۔
گھر میں چار بچے ہیں۔ ایک بھتیجی اور بھانجی ان دونوں پر میری بہن نگراں مقرر کی گئی ہیں۔ میرے دو چھوٹے لڑکے ہیں جن پر ان کی ماں نگراں ہے میں ان دونوں کے کام پر نگاہ رکھتا ہوں۔ اوقاتِ درس میں یہ دونوں ’’معلمہ‘‘ بن جاتی ہیں اور بقیہ اوقات میں مودب اور اتالیق۔ میرا گھر بچوں کے لیے ایک طرح سے اقامتی درسگاہ کے مشابہ بن گیا ہے۔ میری غیر موجودگی میں میرے ذمہ کے فرائض بہ حیثیت قائم مقام میری اہلیہ انجام دیتی ہیں۔
منصوبہ
ہم ہر بچے کے لیے الگ الگ اس کی عمر اور استعداد کے لحاظ سے ماہانہ تعلیمی منصوبہ تیار کرتے ہیں یعنی اعتدال کو ملحوظ رکھ کر مختلف کتابوں کے صفحات یا اسباق متعین کرلیتے ہیں۔ پھر دونوں نگراں پوری کوشش کرتی ہیں کہ مہینہ ختم ہونے تک کسی طرح اس منصوبے کو مکمل کرلیں۔ اس غرض سے وہ وقفہ وقفہ سے رفتار تعلیم کا اندازہ بھی لگاتی رہتی ہیں اور مہینے کے اختتام پر منصوبے کی روشنی میں بچے کے تمام مضامین کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک ماہانہ امتحان کے ذریعہ بچے کی رفتار ترقی کا بھی اندازہ کیا جاتا ہے۔ پھر اگلے مہینے کے لیے نیا منصوبہ تیار کرلیا جاتا ہے۔ ابھی تک ہم نے کوئی سالانہ منصوبہ نہیں بنایا ہے۔
تعلیم
تعلیم کے لیے ہم نے کتابی، زبانی اور علمی تینوں طریقے اختیار کیے ہیں۔ میری اہلیہ میرے ایک بچے کو جس کی عمر پونے چھ سال کی ہے قرآن مجید اور اردو پڑھاتی ہیں اور میرے دونوں بچوں کو جن میں دوسرا تقریباً تین سال کا ہے۔ زبانی سیرت اور اخلاقی کہانیاں سناتی ہیں اور وضو، نماز کی عملی تعلیم دیتی ہیں۔میں زبانی مسنون دعائیں سکھاتا ہوں۔ بچیاں قرآن پڑھ چکی ہیں، کچھ اردو بھی پڑھ لیتی ہیں۔ روزانہ قرآن کی تلاوت کرتی ہیں اور عام دینی کتب و سیرت کا مطالعہ کرتی رہتی ہیں۔
تعلیم کے بارے میں پابندی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کسی دن بے وجہ ناغہ نہ ہونے پائے نیز کتابی تعلیم میں زیادہ پڑھانے کے بجائے کم پڑھا کر ان اسباق کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کی زیادہ فکر کی جاتی ہے۔ بار بار آموختہ پڑھوایا اور لکھوایا جاتا ہے۔
زبانی تعلیم میں روز مرہ مسنون دعاؤں کے ایک ایک دو دو لفظ روزانہ سکھائے جاتے ہیں۔ پھر جب دعائیں پوری یاد ہوجائیں تو اسے روزانہ اوقات مقررہ میں پڑھنے کی عادت ڈلوائی جاتی ہے۔ تلقین کے لیے حکم یا ہدایت کے بجائے تذکیر کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مثلاً سوتے وقت یہ نہیں کہتے کہ ’’دعا پڑھ کر سوجاؤ‘‘ بلکہ جب بچے بستر پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کے سامنے صرف اتنا کہا جاتا ہے۔ اللّٰہم اور بچے خود پوری دعا پڑھ لیتے ہیں۔ بچے جب صبح بیدار ہوتے ہیں پہلے ہم انہیں سلام کرتے ہیں۔پھر الحمدللہ کہتے ہیں اور بچے فوراً جاگنے کی پوری دعا پڑھتے اور سب کو سلام کرتے ہیں۔ اسی طرح دسترخوان پر کھانے سے قبل اور بعد، بیت الخلا جاتے اور آتے وقت، گھر سے باہر جاتے اور اندر آتے وقت تذکیر کی جاتی ہے۔ ان کوششوں سے بڑے بچے اور بچیوں نے تو بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ میری چھوٹے بچے نے بھی جس کی عمر تقریباً تین سال ہے اہم مسنون دعائیں سیکھ لی ہیں اور انہیں روزانہ پڑھتا ہے۔
علمی تعلیم میں وضو اور نماز وغیرہ کے طریقے فرض اور سنت کا نام لیے بغیر بتائے گئے ہیں۔ البتہ بچیاں فقہی مسائل کا مطالعہ کرتی رہتی ہیں اس کے علاوہ ہفتہ وار اجتماع میں بچوں کو آدابِ محفل نشست و برخاست اور گفتگو کی عملی مشق کرائی جاتی ہے۔
لکھنا
گوناگوں مصلحتوں کے پیش نظر دونوں بچیوں کو روزانہ قرآن مجید کے ایک رکوع کا ترجمہ خوشخط لکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ بچیاں ناظرہ قرآن پڑھ چکی ہیں اور اردو بھی ضروری حد تک پڑھ لیتی ہیں۔ چنانچہ روزانہ تلاوت قرآن کے بعد ایک رکوع ترجمہ قرآن کی کتابت کرائی جاتی ہے۔ اس سے یہ مصلحت پیش نظر رہتی ہے کہ ایک طرف قرآن سے ان کی وابستگی پڑھے اورپڑھنے کے علاوہ لکھنے سے انہیں اعادہ کا فائدہ حاصل ہو مسائل اچھی طرح ذہن نشین ہوں گے۔ تیسرے روزانہ لکھنے سے خوشخطی کی مشق جاری رہے۔ بحمدللہ یہ سلسلہ بھی مفید ثابت ہورہا ہے۔ بچیاں اس میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ اس وقت بچیاں تفہیم القرآن سے ترجمہ لکھ رہی ہیں۔ یہ سلسلہ جب اتمام کو پہنچے تو کوئی اور بامحاورہ ترجمہ شروع کرانے کا خیال ہے تاکہ اس طرح مختلف تراجم نظر سے گزرجائیں۔
روزنامچہ
دونوں بچیوں کے لیے لازمی کیا گیا ہے کہ وہ روزانہ اپنے درسی اور غیر درسی مطالعہ، کتابت ترجمہ قرآن دیگر تحریری کام اور عبادات کے بارے میں روزنامچہ لکھیں۔ میری بہن ان کی نگرانی کرتی ہیں۔اس کے علاوہ میری بہن اور اہلیہ بھی اپنے اپنے روزنامچے لکھتی ہیں جس میں علاوہ اپنے ذاتی مطالعہ اور تعلّمی مشاغل کے تعلیمی فرائض کی انجام دہی کی روداد بھی لکھتی ہیں اور میں ان دونوں ڈائریوں کا مطالعہ کرکے ضروری مشورے سے دیتا ہوں۔ یہ سلسلہ پابندی اور کامیابی سے اس لیے جاری ہے کہ خود میں اپنے ذاتی مطالعہ اور جماعتی مشاغل کے علاوہ ان گھریلو ذمہ داریوں کی انجام دہی کے محاسبہ کے لیے اپنا روزنامچہ لکھا کرتا ہوں۔
ہفتہ وار اجتماع
ہمارے تعلیمی پروگرام کا ایک دلچسپ، پسندیدہ اور مفید پروگرام ہفتہ وار اجتماع بھی ہے۔ ہر ہفتہ گھر کے تمام افراد صاف ستھرے کپڑے پہن کر اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ اجتماع میں نشست و برخاست، اندازِ تخاطب، طرزِ تکلم اور دیگر آداب کی پابندی کا اہتمام کیا جاتا ہے، بچے کوئی نئی دعا، سورہ یا نظم سناتے ہیں۔ بچیاں کوئی مضمون لکھتی ہیں، بڑے افراد بھی کچھ نہ کچھ حصہ لیتے ہیں اس طرح تھوڑی دیر تک گرما گرمی اور چہل پہل رہتی ہے۔
امتحان
بالعموم مہینے میں ایک مرتبہ بچوں کا زبانی اور تحریری امتحان لیا جاتا ہے اور کامیابی پر ترغیبی انعام بھی دیا جاتا ہے۔اگرچہ یہ تعلیم طریقہ ایک عرصہ سے جاری ہے مگر بعض وجوہ سے درمیان میں خلل بھی ہوتا رہا۔ کبھی سفر، کبھی علالت، کبھی مہمانوں کی آمد، کبھی خود کہیں مہمان جانا، بہر حال ان وجود سے تسلسل قائم نہ رہ سکا جس کی وجہ سے ابھی تک معیار مطلوب تک رسائی تو نہ ہوسکی، تاہم اس پروگرام کی افادیت پر ہم نظری طور پر بھی متفق ہیں اور عملی طور پر بھی اس کو بہتر سمجھتے ہیں۔ بشرطیکہ استقلال سے جاری رکھا ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت ایک صبر آزما کام ہے، عرصۂ دراز تک خاموش اور مسلسل کرتے رہنے سے اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔