میاں بیوی کے درمیان معمولی باتوں پر اختلافات کی صورت میں اگر عقل مندی او رحکمت کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ازدواجی زندگی میں تلخیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن فی زمانہ ہر دو جانب سے محض جذبات ہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ حتیّٰ کہ لڑکی اور لڑکے کے والدین بھی اولاد کی محبت اور ذاتی انا کی خاطر مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسے پیچیدہ سے پیچیدہ تر کردیتے ہیں۔ خاندان کے جن بزرگوں کو درمیان میں پڑ کر صلح صفائی کرانی چاہیے وہ بھی معاملے کو محض یک طرفہ لے کر حالات خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
میاں بیوی کے تلخ تعلقات میں یو ںتو ہر دو فریق کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ لیکن ان تعلقات کو دوبارہ امن و محبت کے راستے پرڈالنے کے لیے والدین کو بھی بھر پور اور مخلصانہ کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ معاملہ کو بنانے سنوارنے اور الجھانے بگاڑنے میں ان کا رول بھی کلیدی ہوسکتا ہے۔
حضور ﷺ کی زندگی چوں کہ ہمارے لیے مکمل طور پر قابلِ تقلید اور نمونہ ہے۔ اس لیے ہمیں ازدواجی زندگی کے اس پہلو کو حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کی چہیتی بیٹی تھیں۔ ایسی کہ انہیں آپؐ اپنے جگر کا ٹکڑا اور خواتینِ جنت کی سردار کہا کرتے تھے۔ ان کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی، جو خود بھی عشرئہ مبشرہ ؓ میں سے ایک تھے، تاہم اتنے عظیم مرتبے پر فائز ان شخصیات کے درمیان بھی کبھی کبھار تلخیاں ہوجایا کرتی تھیں۔
سیرت کی کتابوں میں درج ہے کہ ایک بار دونوں کے درمیان کسی معاملے پر جھگڑا ہوگیا۔ حضرت فاطمہ زہراؓ اپنے شفیق باپ ﷺ کی خدمت میں پہنچیں۔ پیچھے پیچھے دامادِ رسولؐ حضرت علیؓ بھی گھبرائے ہوئے پہنچے اور دروازے کی آڑ میں کھڑے ہوگئے۔ سوچنے لگے کہ اگر خدانخواستہ خدا کے رسولؐ ناراض ہوگئے تو دین و دنیا دونوں تباہ ہوجائیں گے۔ حضرت فاطمہؓ نے حضورؐ سے اپنے شوہر کی شکایت کی، حال سنایا اور زاروقطاررونے لگیں۔ لیکن آپؐ نے جو ردِّ عمل ظاہر کیا وہ ہماری سوچوں کے بالکل برعکس اور گھر کو بسانے والا رویہ تھا۔ باپؐ نے بیٹیؓ کو جو اس طرح روتے دیکھا تو دل بھر آیا۔ آب دیدہ ہوگئے۔ بیٹی کو سمجھاتے ہوئے شفیق باپؐ نے کہا۔
’’بیٹی! میں نے تمہارا نکاح اس شخص سے کیا ہے، جو قریش کے جوانوں اور اسلام لانے والوں میں سب سے افضل ہے۔‘‘
’’بیٹی! میاں بیوی میں کبھی کبھی ایسی باتیں ہوہی جاتی ہیں۔ وہ کون سے میاں بیوی ہیں جن کے درمیان کبھی کوئی رنجش کی بات نہ ہوتی ہو اور بیٹی! یہ کیسے ممکن ہے کہ مرد سارے کام ہمیشہ عورت کی مرضی کے مطابق ہی کیا کرے اور اپنی بیوی سے کچھ نہ کہے۔ جاؤ، اپنے گھر جاؤ، خدا تمہیں خوش اور آباد رکھے اور میں تم دونوں کو خوش دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھوں۔‘‘
بیٹی خوش ہوگئیں اور حضرت علیؓ کا دل بھی بھر آیا۔ آڑ سے نکل کر سامنے آئے۔ آنکھوں میں آنسو آئے۔ رقت کے انداز میں حضرت فاطمہ سے کہا۔
’’خدا کی قسم! آئندہ تم ایسی کوئی بات نہ دیکھو گی جس سے تمہارے نازک دل کو دکھ پہنچے۔‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دل بھی بھر آیا اور کہنے لگیں کہ ’’غلطی تو میری ہی تھی۔‘‘ پھر دونوں خوشی سے سرشار اپنے گھر لوٹ آئے۔ (ماخوذ از کتاب:داعی اعظم، محمد یوسف اصلاحیؒ، ص :۱۵۱)
یہ ہے وہ رویہ جس سے ٹوٹے ہوئے گھر دوبارہ آباد ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ اور اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا۔ آپ ﷺ اپنی بیٹی کے گھر گئے، وہاں حضرت علیؓ کو موجود نہ پاکر آپؐ نے حضرت فاطمہؓ سے ان کی بابت دریافت کیا۔ بیٹی نے جواب دیا کہ مجھ سے ناراض ہوکر وہ مسجدِ نبوی میں لیٹے ہوئے ہیں۔ آپؐ مسجد پہنچے تو دیکھا کہ آپؐ کے داماد بغیر قمیص کے مسجد کے کچے فرش پر لیٹے ہوئے ہیں اور جسم پر ہر طرف مٹی لگی ہوئی ہے۔ آپ نے انھیں پیار سے اٹھاتے ہوئے کہا: ’’اٹھو ابو تراب!‘‘ حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو پہلی بار ابوتراب کہہ کر مخاطب کیا تھا، مگر حضرت علیؓ کو یہ نام اتنا پیارا لگا کہ بعد میں انھوں نے اس لفظ کو اپنے نام کا ایک حصہ بنالیا۔
میاں بیوی کے درمیان ناراضی کا یہ دوسرا واقعہ تھا آپؐ چاہتے تو اس موقع پر ضرور اپنے داماد کو تنبیہ کرسکتے تھے مگر آپ کو اندازہ تھا کہ ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے شفقت کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اس لیے آپؐ نے حضرت علیؓ پر ایک بار پھر اپنی شفقت نچھاور کردی۔
مذکورہ واقعات سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ معاشرتی اور ازدواجی زندگی میں ہمیں ازدواجی تلخیاں کم کرنی ہیں تو سیرتِ طیبہ ﷺ سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بھلا حضور پر نور ﷺ سے اچھی مثال اور کس کی ہوسکتی ہے؟