گھر اصل میدانِ کار ہے

غزالہ عزیز

انسانی معاشرہ دو اکائیوں مرد اور عوت سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ تنہا ایک اکائی کسی طرح بھی معاشرے کو وجود میں لانے کا سبب نہیں بن سکتی۔ عورت اور مرد انسانیت کے یکساں ترجمان ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ کوئی عورت مرد سے اور کوئی مرد عورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عورت ایک طویل عرصے تک مظلوم رہی۔ کمزور ہستی جس پر ظلم کیا جاتا رہا۔ یونان، روم، مصر، عراق، عہدِ رفتہ کی تہذیب یافتہ قوموں کے مسکن تھے، لیکن عورت کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کرنے پر شرمندہ نہ تھے۔ بلکہ یونان میں توایک طویل عرصہ تک دانشور اور مفکر اس بات پر بحث کرتے رہے کہ عورت کے اندر روح ہے بھی یا نہیں، اور اسے انسان قرار دیا جاسکتا ہے یا یہ کوئی اور مخلوق ہے۔ عرب معاشرے نے عورت کو زندگی کا حق دینا بھی گویا ایک انتہائی شرمناک اور معیوب بات سمجھا۔

یہ اسلام تھا جس نے پہلی دفعہ انتہائی واضح انداز میں بتایا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مددگار اور معاون ہیں۔ معاشرے کی تعمیر، ترقی اور استحکام میں دونوں کو شانہ بشانہ مصروفِ عمل رہنا ہے۔

’’ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیںاور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان لوگوں پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

(التوبہ:۷۱)

اسلام نے عورت کو عزت و احترام عطا کیا۔ انصاف اور سربلندی بخشی اور پورے معاشرے کو یہ سکھایا کہ عورت کا احترام لازم ہے۔ لیکن دنیا کے جن خطوں اور قوموںتک جہاں اسلام نہیں پہنچا تھا وہاں عورت کو بدستور اسی طرح ظلم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے، لہٰذا ایک دن ان خطوں میں ردِ عمل کے طور پر عورت کی آزادی کا تصور ابھرا اور اس شدت سے ابھرا کہ پھر یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا گیا کہ عورت کسی طرح مرد سے کمتر نہیں، بلکہ وہ ان کی طرح ہر کام کرسکتی ہے، آزاد اور خود مختار ہے اور مرد کی بالادستی سے مکمل طور پر اس کو آزاد ہونا چاہیے۔

عورت کو یہ تصور بڑا بھایا، چنانچہ اس نے اس تصور کو اپنی ترقی کا زینہ سمجھا۔ یوں دفتروں، کارخانوں اور بازاروں میں ہر طرح کے کام میں مردوں کی شریکِ کار بنتی چلی گئی۔ یہ بالکل ایک دوسری انتہاتھی جس کے ذریعے عورت جو نصف انسانیت تھی، کو گمراہی کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ جس سے معاشرہ انتہائی تنزل اور گراوٹ کا شکار ہوگیا۔ رشتوں کے بندھن کمزور پڑگئے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ٹوٹ گیا۔ اولاد جو والدین کے لیے ایک مرکزِ محبت ہوتی تھی، والدین نے اس مرکز کو اپنے لیے بیڑیاں سمجھنا شروع کیا اور انہیں ڈے کیئر سینٹروں، اسکولوں اور ہوسٹلوں کے حوالے کردیا انجام وہ خود اولڈ ایج ہاؤسز اور نرسنگ ہوم میں بڑھاپے کی زندگی بتانے پر مجبور کردیے گئے۔

اسلام نے بتایا کہ خاندان کا استحکام معاشرے کا استحکام ہے۔ اور خاندان میں سب سے اہم اکائی عورت کی ہے۔ لازم ہے کہ اس کو محبت، احترام اور تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ ہر قسم کی فکروں سے آزاد ہوکر، یکسوئی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ اسلام مرد کے اندر عورت کے لیے فطری ہمدردی کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ اسے مرد کا مدِ مقابل نہیں ٹھیراتا جیسا کہ موجودہ مغرب زدہ معاشرہ مرد اور عورت کو حقوق کے میدان میں آمنے سامنے کھڑا کرکے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر اکساتا ہے، جس کے ذریعے عورت کو سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

اسلام عورت کو ہر قسم کے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق عطا کرتا ہے۔ البتہ ان ذمہ داریوں کے معاملے میںاسے بری الذمہ قرار دیتا ہے جو اس کی نفسانی اور جسمانی ساخت کے لحاظ سے اس کے لیے ٹھیک نہیں۔ عورت پر سیاسی اور معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی، لیکن اگر وہ چاہے تو اسلامی حدود کے اندر رہ کر سیاسی اور معاشی جدوجہد کرسکتی ہے اور اسے اس کا حق حاصل ہے۔ وہ حاکمِ وقت کو برسرِ منبر ٹوک سکتی ہے۔ مثالیں موجود ہیں۔ حضرت عمرؓ جیسے حکمران ایک عورت کی حق گوئی کے آگے سرجھکا دیتے ہیں۔

شریعت عورت کو علم سے استفادے کے لیے ہر طرح کی سہولت دیتی ہے تاکہ اس کا علمی معیار بلند ہو، ذہنی صلاحیتیں ابھریں اور اس کی گود میں پلنے والی نسل بہتر تربیت حاصل کرسکے۔ چنانچہ وہ معاشرہ جہاں لکھنا پڑھنا جاننے والے ہی گنتی کے مرد تھے، کچھ عرصے بعد وہاں علم والی خواتین کا گروہ کا گروہ موجود تھا۔ فاطمہؓ بنت قیس، ام درداءؓ، زینب ؓ بنتِ ابی سلمہ اور سہلہؓ بنتِ سہیل جیسی عالمہ خواتین موجو د تھیں۔ فاطمہؓ بنتِ قیس کی علمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت عمرؓ سے ایک فقہی مسئلے پر بحث کرتی رہیں، لیکن وہ ان کی رائے بدل نہ پائے۔ اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ امت کے بہت سے ائمہ نے ان ہی کی رائے کو اہمیت دی۔

امام نوویؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے ابتدائی زمانے میں ہجرت کی تھی اور انتہائی عقل و کمال کی مالک تھیں۔‘‘

مغرب عورت کو لڑکر حقوق حاصل کرنے پر اکساتا ہے لیکن اسلام مرد کو باور کراتا ہے کہ عورت کے ساتھ زیادتی اور ظلم گناہ ہے۔ عورت کا احترام اور عزت ہر ایک کے لیے لازم ہے۔ ہمدردی اور محبت کا جذبہ ضروری ہے۔ خاندان اور معاشرے کی درستی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا جب اسلامی اصولوں کو اپنایا جائے گا معاشرے میں ایک بار پھر وہی بہار آئے گی جسے دنیا اس سے پہلے دیکھ چکی ہے۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146