گھر اور گھر کی ذمہ داری

شبنم جعفری

مکان انسان کی اہم ترین ضرورتوںمیں سے ایک ہے۔ غذا اور لباس کے بعد انسان کی بنیادی ضرورت بلاشبہ ایک چھت ہے جس کے نیچے وہ حفاظت اور سکون محسوس کرسکے۔ مکان کی ضرورت چڑیوں اور جانوروں کو بھی پڑتی ہے۔ یہ سب اپنے اپنے گھر بناتے ہیں اور انھیں اپنے گھروں سے پیار بھی ہوتاہے لیکن انسان جب مکان بناتاہے تو وہ اس کے لیے صرف موسم کی شدت سے بچائو کا ذریعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ سیمنٹ اور چونے سے جڑی اینٹ کی دیواریں اس کی ذہنی اور نفسیاتی نشوونما کا اہم ترین سرچشمہ ہوتی ہیں۔ بے گھر لوگوں کے ذہن کو وہ آسودگی نہیں ملتی جو معاشی، تمدنی اور سماجی ذمہ داریوں کو پوری کرنے کے لیے ضروری ہے۔ دن بھر کی تھکادینے والی جدوجہد کے بعد جب انسان اپنے گھر میں آتاہے تو اسے لگتاہے وہ ایک ایسی محبت بھری آغوش میں پہنچ گیاہے جہاں اس کے لیے سکون ہی سکون ہے، راحت ہی راحت ہے۔اپنائیت کایہ جذبہ اور مسرت کا یہی احساس دراصل اینٹ اور پتھر سے بنے مکان کو گھر کا نام دیتا ہے۔
بہترین درزیوں سے لباس سلواکر پہننے والا بھی ان کپڑوں کے اُدھڑنے پر ان کی مرمت گھر میں ہی کرواتا ہے اور ہوٹل کا کھانا چاہے کتناہی لذیذ کیوں نہ ہو اسے کھاتے کھاتے بھی دل اکتاجاتاہے اور جی چاہتاہے کہ گھر میں کھانا کھایاجائے۔
گھر کے نام میں اتنی آفاقی کشش کیوں ہے؟ اس کا جواب ہے روح کی مسرت۔ لذیذ کھانا کھاکر دل مطمئن ہوتاہے۔ روح مسرور ہوتی ہے۔ مگر یہ مسرت عارضی ہے۔ یہ آسودگی ناپائدار ہے۔ روحانی مسرت کا اصل سرچشمہ ایثار و خلوص ہے۔ ایک دوسرے کے غم اور خوشیاں بانٹنے کا جو جذبہ ایک گھر کے مکینوں میں ہوتاہے وہی گھر کی بنیاد کو مستحکم کرتاہے۔ محبت کا یہ پلاسٹر جو دلوں کوجوڑتاہے۔ اینٹوں کو جوڑنے والے سیمنٹ کے پلاسٹر سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ گھر کے افراد جتنا ہی ایک دوسرے کے نزدیک ہوںگے ایثار کاجذبہ اتنا ہی بڑھا ہوا ہوگا۔ روح کو اتنی ہی مسرت ملے گی اور گھر کی معنویت اور صداقت اتنی ہی بڑھے گی۔ سب ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کریںگے۔ بچے ماں کی مامتا دیکھ کر دیکھ بھال اور باپ کی شفقت اور معاشی حفاظت پائیںگے۔ عورت کو شوہر کی رفاقت اور بچوں کی محبت ملے گی۔ مرد کو ایک خوشحال کنبہ کا مالک ہونے کی خوشی ملے گی۔
جب ایک نئے گھر کی بنیاد پڑتی ہے تو یہ بنیاد اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں لے کر آتی ہے۔ یہ ذمہ داریاں کچھ تو گھر کے مالک کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور کچھ گھر کی مالک کے لیے۔ مردوں کی ذمہ داریاں جو زیادہ تر باہر کی دنیا سے متعلق ہوتی ہیں اور عورتوں کی گھریلو ذمہ داریاں ایک سرحد پر آکر ملتی ہیں اور وہ سرحد ہے اولاد کی تربیت جس کے لیے دونوں یکساں طورپر ذمہ دار ہیں۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے یہاں عورتوں اور مردوںکی سماجی حیثیت ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل کرتی ہے۔ دونوں کے کام کرنے کے شعبے الگ الگ ہیں۔ خواتین کے فرائض میں گھر کی صفائی اور دیکھ بھال سے لے کر گھر کے افراد کی نفسیاتی اور جسمانی ضرورتوںکوپورا کرنے کے طریقوںکی جانکاری اور ان پر عمل درآمد تک کی باتیں آتی ہیں۔
قرآن کریم میں عورتوںکی ذمہ داری کا مختصراً مگر جامع ذکر ملتا ہے۔
فالصلحت قنتت حٰفظت للغیب بما حفظ اللہ۔ (سورہ النساء)
’’پس نیک بخت بی بیاں تو تابعداری کرتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے جس طرح خداحفاظت کرتاہے وہ بھی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘
یہاںحفاظت کا صاف مطلب ہے شوہر کے مال اسباب کی حفاظت جب وہ کمانے کے لیے گھر سے چلاجائے۔ ہر قسم کی بربادی سے حفاظت چاہے چور اُچکوں سے ہو یا دھول مٹی سے عورت کا فرض اولین مانا گیا ہے۔
ایک اچھی خاتون خانہ یہ بھی خیال رکھتی ہے کہ گھر کے تمام افرادکو ان کے شایانِ شان سلوک ملتا ہے یا نہیں۔گھر کے کاموں میں مدد کے لیے خادمہ کی ضرورت کو سبھی عورتیں شدت سے محسوس کرتی ہیں۔ مگر محنت کی عظمت کی بات کرنا ان کے نزدیک جہالت ہے اور خادمہ کی عزت کرنا حماقت۔ شخصی آزادی کے اس دور میں خاتون خانہ کے لیے بے حد ضروری ہے کہ خادمہ کی حیثیت سے ایک فرد کی جو آزادی ہے وہ اسے نہ چھینے اور اسے کسی طرح کوئی ایسی بات نہ کہے کہ اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔ عقل و انصاف کا یہی تقاضہ ہے۔
اولاد کی پرورش اور تربیت اس کے لیے ایک ایسا منصب ہے جس پر وہ بجا طورپر ناز کرسکتی ہے لیکن اس پُرآشوب دور میںجب پورے سماج میں خودغرضی ہوس اور بداخلاقی کادور دورہ ہے۔ بچوں کو علم واخلاق کے زیور سے آرستہ کرنا بڑے دل گُردے کاکام ہے۔ بچوں کو کوئی بھی اچھی بات سکھانے کے لیے ماں کو خود اس پر عمل کرنا ہوگا تاکہ اس کا کردار خود پکار کر کہہ دے کہ وہ بچوں سے کیسا برتائو چاہتی ہے۔
بچوں کو بہ نسبت باپ کے ماں سے زیادہ پیار ہوتاہے۔ ماں کے دل میں خدا نے محبت کاایک ایسا دریا لہرادیا ہے جو اسے بچے کے علاج اور اس کی بہبودی کے لیے سوچنے پر اکساتا ہے اور بچے کے لیے دکھ اٹھانے پر مجبور کرتاہے۔ ماں کے اسی عظیم ایثار کے بدلے بچوں کو اس کی فرماں برداری کا حکم دیاگیا ہے۔ خدائے تعالیٰ نے اپنے شکریہ کے ساتھ ہی ماں باپ کا شکریہ بھی ادا کرنے کو کہاہے اور والدین کی نافرمانی کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔
معاشی محاذ پر بھی عورت کی ضرورت ہواکرتی ہے۔ سلیقہ مندبیویاں شوہر کی کم آمدنی کا رونا نہیں روتیں کیونکہ انھیں کم خرچ بالانشین کا گر آتا ہے۔ اس کے برخلاف پھوہڑ اوربدسلیقہ عورتیںشوہر کی زیادہ سے زیادہ آمدنی کو فالتو چیزیںخریدنے میںصرف کردیتی ہیں۔ اور گرہستی بنانے پرتوجہ نہیںدیتیں۔
ذمہ داری سے فرارشوہر اور بیوی میں نااتفاقی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جب حقوق کا خیال زیادہ ہوتاہے۔فرائض کا احساس کم تو دماغ میں غصہ پیدا ہوتاہے اور یہ غصہ گھر کے کاموںسے اور بھی عدم توجہی کا سبب بنتا ہے۔ دوسروںسے ایسی امیدیں وابستہ کرنا جن کو پوراکرنا اس کے لیے ناممکن ہو۔ اکثر الجھنوں کا باعث بنتا ہے۔ اس کے بجائے خود اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنے فرائض کہاں تک ادا کررہے ہیں۔ ایک مثالی گھر کا ہر فرد اپنے فرائض کی انجام دہی میں زیادہ توجہ کے ساتھ سرگرم رہتا ہے۔ حقوق کی اسے مطلق پروانہیں ہوتی۔ دوسروں کی ضرورتوںکو اپنی ضرورتوں پر ترجیح دینا اور اپنی تکلیف بھلاکر دوسروں کو آرام پہنچانے کی کوشش میں تن من لگادینا انسانی فطرت کے لیے ایسے محاسن ہیںجو گھرمیں ہی سیکھے جاتے ہیں ایسا گھر جنت کانمونہ ہوتا ہے اوراس کے گھر کے افراد جہاں جاتے ہیں اپنے دلکش کردار کی خوشبو بکھیرتے ہیں۔ دراصل ہر فرد کی ذہنی زندگی کی بنیاد گھر میں ہی پڑتی ہے۔ گھر والوں کے ساتھ اس کا برتائو، اس کے سماجی برتائو کا آئینہ ہے اس لیے گھر کاکوئی بھی فرد عمدہ عادات واطواراختیار کرنے اور ہمدردی اور محبت کے اصولوں پر کاربند رہنے کی اپنی ذمہ داری سے بری قرار نہیں دیاجاسکتا۔ خاص طورسے عورت پر توبچوں کی تربیت کی ایسی عظیم ذمہ داری ہے جس کے لیے اسے نمونۂ عمل بننا ہی پڑے گا۔
ملک اور قوم کی خدمت کے لیے حوصلہ مند اور جری سپاہی تیار کرنے کا بار اسی کے نازک کندھوں پر ہے۔ اس سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام تر شعوری صلاحیتوںکا استعمال کرکے کردار اور عمل کے مثالی نمونوں کی تخلیق کرے۔ رسولؐ خدا کا ارشاد ہے ’’تین آوازیں بے روک ٹوک درگاہِ الٰہی تک پہنچتی ہیں۔ ایک علماء کے قلموں کی آواز، دوسرے مجاہدوں کے قدموں کی آواز۔‘‘ تیسری پاکدامن عورتوں کے چرخوں کی آواز۔
عورت کے لیے جہاد فرض نہیں ہے مگر مجاہد اسی کی آغوش کا پروردہ ہوتاہے۔ وہ خود عالم نہیں مگر تمام عالموں کی ماں ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کو سبک سمجھنا غلطی ہے۔ خواتین کو بھی اس عظیم عہدے کا صحیح استعمال کرناچاہیے۔ اور اپنی کارکردگی پر حرف نہ آنے دینا چاہیے تاکہ ان کا کنبہ خوش حال ہو اور گھر کا ہر فرد پُرمسرت زندگی گزارتے ہوئے خود کو معاشرہ کا بہی خواہ بناسکے۔ اس کاوجود دنیا کے لیے رحمت ہو، زحمت نہ ہو۔
ہمارے نبی محمد مصطفیؐ کی چہیتی بیٹی اپنے گھریلو کاموں کو کس طرح انجام دیتی تھیں اس سلسلے میں امام حسنؓ فرماتے ہیں۔ ہمارے گھر میں باہر کے جتنے کام ہوتے تھے وہ ہمارے پدر بزرگوار انجام دیتے تھے۔ جیسے پانی، ایندھن اوربازار کی چیزیں لانا اور گھر کے تمام کام جیسے کھانا پکانا، چکی پیسنا اور جھاڑو دینا وغیرہ سب ہماری مادر گرامی اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں اور انہی کاموں کے درمیان ہماری ضرورتیں مثلاً نہلانا، کپڑے بدلوانا اور دودھ پلانا وغیرہ بھی پوری کرتی جاتی تھیں۔ کام کی کثرت سے آپ نہ گھبراتی تھیں اور نہ اپنی غیرمعمولی زحمت کی شکایت کرتی تھیں۔
اپنے لیے جو پسند کرتے ہو وہی دوسرے کے لیے بھی پسند کرو، کے مصداق جناب سیدہ ایک دن نضّہ (لونڈی) سے کام لیتی ہیں اوردوسرے دن خود کام کرتی ہیں۔
نبیؐ کی پارہ جگر کا یہ پرانصاف شیوہ اس احترام کا آئینہ دار ہے جو اشرف المخلوقات کے لیے ان کے دل میںجاگزیں ہے۔
ایسا بھی نہیںکہ ان کا دائرہ کار صرف گھر تک ہی محدود رہا ہو جب ضرورت پڑی تو وہ میدان جنگ میں بھی تشریف لے گئیں۔ جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کی ذرا سی غفلت سے جنگ کی بازی پلٹ چکی تھی، چندبزدل منافقوںنے مدینہ میں شور مچادیاتھا کہ حضرت رسولؐ خدا شہید ہوگئے ہیں تو یہ خبر سن کر جناب سیدہؓ بے تاب ہوگئیں اور شفیق باپ کے زخم دُھلائے۔
جنگ خندق میں بھی مسلمانوںپر بڑاسخت وقت آپڑا تھا۔ مسلمان سردی اور رسد کی کمی سے پریشان تھے۔ فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔ ان نازک حالات میں میدان جنگ میں جانا کوئی آسان کام نہ تھا مگر جناب سیدہ کسی نہ کسی طرح کچھ روٹیاں پکاکر دشمنوں سے بچتی بچاتی میدان میں پہنچیں اس طرح انھوںنے یہ ثابت کردیاکہ مسلمان عورت گھر کی چہاردیواری میں بند رہ کر بھی اپنی جرأت اور اپنا حوصلہ نہیں کھوتی۔
میدان احد میں ام عمارؓ نام کی نیک بخت بی بی (جو فن جراحی سے واقف تھیں)نے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ جب کفار آنحضرتؐ پرتیر برسارہے تھے تو یہ شیر دل انصاری خاتون آگے کھڑی تھیں اور دشمنوں کے تیر اپنے سینے پر لے رہی تھیں۔
ایسی ہی بے مثال ہمت کا نمونہ ہمارے پڑوسی ملک ایران کی عورتوں نے بھی پیش کیا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کا سہرا جتنا شہیدوں کے سر بندھتا ہے اتنا ہی ان کی مائوںبہنوںاور بیویوں کے سربھی ہے۔جنھوںنے ایک طرف تواپنے عزیزوںکی شہادت پر صبر کیا اور دوسری طرف کیمپوں میں دن رات کام کرکے غذا اور لباس کے پیکٹ بھی تیار کئے۔
زمانۂ جنگ کے علاوہ زمانۂ امن میںبھی عورتوں کے کام کرنے کے بہت سے مواقع ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146