گھر بار بار نہیں بنتا!

عطا صدیقی

میں سدا سے ایک ذاتی مکان کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ یہ خیال اچانک وارد نہیںہوا۔ گو خواب میںاس کے خدوخال کچھ اتنے زیادہ صاف نظر نہیں آتے تھے مگر اس کا ایک امتیازی وصف یہ تھاکہ اس پر حرارت اور راحت کی فضا سی محیط رہتی۔ چنانچہ جیسے ہی مجھے موقع میسر آیا، میں نے اسے فی الفور یوں جھپٹ لیا جیسے میرا جینا اسی پر منحصر ہو۔ میرے لیے یہ سودا اتفاقی امر نہیں تھا مگر میری بیوی کے لیے ذاتی مکان پالینا اتنا حیران کن تھا کہ وہ مارے خوشی کے اپنے آنسو ضبط نہ کرسکی۔ دراصل میں نے خالی خولی ہوائی قلعے تعمیر کرنے کے بجائے شہر کے مشرق علاقے میں قائم کی گئی نئی رہائشی بستی کے ایک خالی پلاٹ کا بیع نامہ اپنی بیوی کو دکھا کر اسے دنگ کردیا تھا۔

یہ اس دن کی بات ہے جب ہمارے بچوں، ہالہ اور ہشام کی سالگرہ تھی۔ بیٹی کی عمر چار سال اور بیٹے کی تین سال تھی۔ دونوں کی پیدائش ایک ہی ماہ کی تھی، گو تاریخیں جدا جدا تھیں، اس لیے ہم دونوں کی سالگرہ ایک ہی دن منایا کرتے۔

اس دن دفتر سے گھر پہنچنے پر بیوی نے پوچھا ’’کیا آپ بھول گئے کہ آج بچوں کی سالگرہ ہے؟‘‘

’’نہیں تو، بھولا تو نہیں‘‘ میںنے بے چینی کو چھپاتے ہوئے آہستہ سے کہا۔

’’وہ کب سے تمہارا انتظار کررہے ہیں اور تم ہو کہ ان کے واسطے ایک پیسے کی مٹھائی بھی نہیں لائے۔‘‘ اس نے میرے خالی ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’انہیں معمولی مٹھائیاں اور کھلونے دلوانے سے اب میں بیزار ہوگیا ہوں۔‘‘ حیرت پیدا کرنے کی خاطر اس سے بہتر تمہید باندھنے میں ناکام ہوکر میں نے اپنی بغل میں دبا بڑا سا لفافہ نکالا اور بیوی کے حوالے کردیا۔ ’’میرا تحفہ اس لفافے میں ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔

اس نے کاغذات نکالے اور ان پر نظر دوڑانے لگی۔ میں اپنے کارنامے پر اتراتے ہوئے اس پر نظریں گاڑے رہا۔ بیک نظر ان دستاویزات کی اصلیت پانے میں ناکام ہو کر اس نے سوالیہ انداز میں اپنا حسین چہرہ اٹھایا اور پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’ان کے لیے اور ہمارے لیے ایک گھر۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ہشام پیچھے سے آیا اور میری ٹانگوں میں اپنا منہ دے کر دھیمے دھیمے ہنسنے لگا۔ میں نے جھک کر اس کو اٹھالیا اور اپنی بیوی پر ہونے والے غیر متوقع رد عمل سے بالکل بے خبر اپنے بیٹے کو پیار کرنے لگا۔

اس کے بعد بیوی کا تو رنگ ہی بدل گیا اور وہ نہایت نرم خو اور بشاش ہوگئی۔ اس دن کے بعد خاندان کے ہر فرد کو وہ بڑی مسرت سے بتاتی کہ وہ اپنا مکان بنانے جارہے ہیں۔ اصل میں اسے اب مکان کے سوا کوئی اوربات کرنے میں لطف ہی نہیں آتا تھا۔

ایک دن ہم چاروں اپنا پلاٹ دیکھنے گئے یعنی بقول اس کے ’موقع کا معائنہ کرنے۔‘ ہم پلاٹ کے ایک کونے میں جاکر کھڑے ہوئے، وہ میرے پاس کھڑی خوشی کے مارے پھولی نہ سما رہی تھی۔ دونوں بچے ارد گرد خوشی سے اچھلتے کودتے شور مچانے لگے اور میری بیوی مجھے بتانے لگی کہ مکان کس طرح کا ہوگا۔ وہ بغیر سوچے سمجھے بار بار دہرا رہی تھی ’’ایک منزلہ ہوگا‘‘ ہے نا؟ جب بچے بڑے ہوجائیں گے تو ہم دوسری منزل بنالیں گے۔ اس میں بڑا باغ ہوگا ۔ اس کی دیکھ بھال میں خود کروں گی اور اسے رنگ برنگے پھولوں سے پاٹ دوں گی۔ تمہیں کس طرح کے پھول پسند ہیں؟ ہے نا ہنسی کی بات کہ پانچ برسوں میں، میں یہ بھی نہیں جان پائی کہ تمہیں کون سا پھول پسند ہے؟‘‘

’’مجھے چنبیلی پسند ہے۔‘‘

’’ہم باغ کو چنبیلی سے پاٹ دیں گے۔‘‘ وہ چلائی پھر بولنے لگی ’’شہر کے شور شرابے اورزہریلے دھوئیں سے دور، یہاں رہنے سے بچوں کی صحت بہت اچھی رہے گی۔ میرے دادا کا شہر کے نواح میںبہت پیارا سا گھر تھا۔ ایک ایکڑ کا تو باغ ہی تھااس میں، ذرا سوچو! اور ہاں، اوپر کپڑے دھونے کے لیے کوئی جگہ ضرورنکالنا، اور ایک کمرا ملازموں کے لیے بھی…‘‘

’’ملازموں کے کمرے سے کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘

میں نے اسے ٹوکا ’’میں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال اس خواب کو حقیقت بنانے میں لگا دیے، اب تم سے درخواست ہے کہ اسے فضولیات میں تو نہ بدلو۔‘‘

’’اچھا اچھا، اور گیراج؟ بنگلے میں گیراج تو ہونا چاہیے۔‘‘

’’مگر میرے پاس کار کہا ںہے؟‘‘

’’کبھی تو کار ہوگی۔ اگر گیراج نہ ہوا تو کہاں رکھو گے بھلا؟‘‘ اس نے پھر پکار کر بیٹی سے کہا کہ اپنے بھائی کو لے کر آجائے اور تیکھا سا قہقہہ لگاکر خود بھی بچوں کے پیچھے کسی کم سن لڑکی کی طرح دوڑنے لگی۔

ان تینوں کو پلاٹ کے درمیان کھیلتے دیکھ کر میرا دھیان بھٹک کر بہت دور نکل گیا، وہ اسی وقت پلٹا جب میری بیوی میرے پاس آکھڑی ہوئی اور کلی پھندنے لگا کر دوبارہ اپنی باتیں دہرانے لگی۔ شاید میں اپنے دھیان میں کھویا ہوا تھا … نہیں، میں اس کی باتوں کا جواب دیتا رہا تھا۔

زمان و مقام سے بہت دور دراصل مجھے ایک پرانا گھر یاد آگیا۔ مقام تو تھا اسمعٰیلیہ، رہ گیا زمانہ تو اس کا اندازہ میں اپنی عمر سے لگاسکتا ہوں۔ میں اس وقت آٹھ نو برس کا تھا۔ اس شہرمیں ہمارا مکان تھا، معمولی سا یک منزلہ مکان جس کے چاروں طرف ایک مختصر مگر خوبصورت سا باغیچہ تھا۔ بہر حال اس میں ملازموں کے لیے کوئی کمرا نہیں تھا کیوں کہ ہمارے پاس ملازم ہی نہیں تھے۔ نہ اس میں کوئی گیراج تھا کیوںکہ میرے ابا نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کار میں قدم ہی نہیں رکھا۔

مجھے یاد آیا کہ ہمارے باغیچے میں انگوروں کی ایک بیل، آم کے دو پیڑ، لیموں کا ایک جھاڑ اور مرغیوں کے لیے بڑا سا ڈربہ تھا۔ ابا گھر آتے ہی کھرپی اٹھا کر باغیچے میں کام کرنے لگتے جس کی باڑھ چنبیلی کی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ ہم اس مکان کے مالک کب بنے؟ یا کب اس میں رہائش اختیار کی؟ مگر اتنا یاد ہے کہ ابا کو اس پر بے انتہا ناز تھا اور میری امی اس کا مالک بننے کو ایک عظیم الشان تاریخی واقعہ سمجھتی تھیں، چنانچہ انھوں نے اسے اپنی اور اپنے کنبے کی زندگی کے دیگر واقعات کا صحیح وقت متعین کرنے کاپیمانہ بنالیا تھا، کئی بار میں نے انھیںکہتے سنا ’’جب ہم اس مکان میں اترے اس وقت فلاں پیٹ میں تھا۔‘‘ یا ’’جب ہم نے یہ مکان خریدا تو میرے میاں کی تنخواہ اتنی تھی۔‘‘ اور اسی طرح کی اور کئی باتیں جنھیں یاد کرکے میں اب بھی مسکرا اٹھتا ہوں۔

مجھے اس زمانے کے خاص واقعات اب یاد نہیں رہے۔ لیکن یہ یاد رہا کہ جب شام ہوجاتی تو ہمسایوں کی ٹولی میرے ابا سے ملنے آتی اور وہ سب باغیچے میں بیٹھ کر مختلف موضوعات پر خوش گپیاں کیا کرتے۔ ہم بچے ان کے آس پاس کھیلتے رہتے اور باد بہاری چنبیلی کی مہک سے بوجھل ہوکر نشے میں جھومتی پھرتی۔ ممکن ہے اس وقت ہمارے گھر میں سدا بہار ہی کا راج ہو کیوں کہ مجھے وہ زمانہ ہمیشہ باغیچے کے ان کھیلوں اور چنبیلی کی خوشبو کے ساتھ ہی یاد آتا ہے۔

پھر کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنھوں نے گو ہماری زندگی کی یکسانیت یک دم درہم برہم نہیں کی مگر وہ پریشان ضرور ہوگئی۔ مثلاً ’جنگ‘ کا لفظ انہی دنوں کان میں پڑا جو میرے لیے نیا تھا اور گھر میں لفظ ’روٹی‘ کی بہ نسبت کہیں زیادہ استعمال ہونے لگا۔ ہماری گلی کے بڑے بوڑھے بھی اسے مستقل بولنے لگے جبکہ میں اس کے معنی ہی نہیں جانتا تھا۔اسی طرح کے اور بھی کئی الفاظ تھے جو اجنبی اور مشکل ہونے کے باوجود محض تواتر سے بولے جانے کی بنا پر مجھے ازبر ہوگئے۔ مثلاً اتحادی، محوری، جرمن اور نہ جانے کتنے، الفاظ جو میرے کان میں پڑتے رہتے تھے۔

ابا اور ہمارے ہمسائے باغیچے میں بیٹھ کر انہی موضوعات پر باتیں کیا کرتے اور باتوں ہی باتوں میں دو گروہوں میں بٹ جاتے۔ ایک انگریزوں کی فتح کا خواہاں ہوتا تو دوسرا جرمنوں کی کامیابی کا دعا گو۔ میرے ابا کا تعلق آخر الذکر گروہ سے تھا، اس لیے میں بھی جرمنی کی کامیابی کی دعا مانگا کرتا۔ اکثر میں ابا کو کہتے سنتا ’’جرمنوں کی فتح کا مطلب ہے انگریزوں کا مصر سے انخلا۔‘‘

اگرچہ ہمارے ساتھ والے ہمسائے چچا حسن کو یقین تھا ’’اگر انگریزوں نے مصر خالی کیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ جرمن اس میں گھس پڑیں گے۔‘‘ بزرگ دیر تک اپنی زور دار بحث جاری رکھتے جو ایک رات جہاں ختم ہوتی دوسری رات وہیں سے شروع ہوجاتی۔ ادھر ہم بچے کھیل ہی کھیل میں دو ٹولیوں میں بٹ جایا کرتے، ایک انگریز تو دوسری جرمن۔ ظاہر ہے میں دوسری ٹولی سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر ہم اپنی بچکانہ جنگوں میںجت جاتے جن کی وجہ سے آخر کار ہم سب ہانپتے کانپتے، تھک تھکاکر چور ہوجاتے۔

جب سونے کا وقت آتا تو میں اپنے بستر میں جاگھستا اور کچھ دیر تک باغیچے سے آتی بزرگوں کی آوازیں سنا کرتا جن میں ابا کی آواز الگ سے پہچان لیتا۔ پھر لیٹے لیٹے اپنے ذہن میں جرمنوں کی صورت گری میں لگ جاتا۔ میرے تصور میں جرمن نہ تو انگریزوں کے سے ڈیل ڈول کے ہوتے اور نہ ان کی سی شکل کے بلکہ وہ مجھے ان سے کہیں زیادہ لمبے تڑنگے اور شان دار نظر آتے۔

ایک رات ہوائی حملے کا سائرن بج اٹھا، یہ بھی اس زمانے کی ایک نئی اور دلچسپ چیز تھی۔ گلی کوچوں اور گھروں کی بتیاں بجھیں، ہر سو گہری خاموشی سے بوجھل اندھیرے کی عمل داری ہوگئی اور دروازوں پر آسیبی ہیولے جمع ہوگئے۔

’’جرمن ہوائی جہاز!‘‘ ابا چلائے۔ آسمان پر نظریں جمائے اور پوری توجہ سے کان لگائے میں اس بے ہنگم بھنبھناہٹ کا اندازہ لگا سکتا تھا جو افق کے اس پار سے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو چیرتی ہوئی قریب آرہی تھی۔

’’کیا وہ بستی پر بمباری کریں گے؟‘‘ میں نے دہشت زدہ ہوکر امی سے پوچھا۔

’’نہیں۔‘‘ ابا نے ایک ایسے شخص کی طرح مطلع کیا جو اس قسم کے معاملات سے اچھی طرح واقف ہو۔ ’’ہٹلر ایسا نہیں کرے گا، وہ تو بس انگریزوں کی فوجی چھاؤنی کی طرف جارہے ہیں۔‘‘

انگریزوں کی چھاؤنی ہمارے چھوٹے سے شہر کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھی بلکہ تقریباً آملی تھی۔ ہم نے پھر ہیبت ناک دھماکے سنے جو دیر تک ہوتے رہے۔ ایک ہوائی جہاز آسمان ہی میں پھٹ کر شعلہ جوالہ بن گیا۔ پھر آسیبی ہیولے اپنی بھاری چاپ کے ساتھ لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے گزرے کہ جہاز بستی برباد کررہے ہیں لہٰذا لوگ اپنے اپنے گھر چھوڑ دیں۔

اب لوگوں کے پرے کے پرے گرتے پڑتے گلی کوچوں میں نکل بھاگے۔ ہمارے والدین بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم سب کو جلدی جلدی سمیٹ کر خوفزدہ ازدحام کے ساتھ اس صحرا کی جانب نکال لے گئے جو بستی کے شمال مشرق میں پھیلا ہوا تھا، آس پاس پناہ کے لیے کوئی اور جگہ ہی نہیں تھی۔

وہ رات قیامت سے کم نہ تھی، ابا اسے اسی طرح بیان کرتے اور بعد میں امی بھی ان کے یہی الفاظ دہرایا کرتیں۔ لوگ وحشیوں کی طرح آپس میں دھکم پیل کرنے لگے اور شب خوابی کے لباسوں میں ننگے پاؤں گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے کو آوازیں دیتے بھاگتے چلے گئے:

’’محسن، تم کہاں ہو؟ بچے کہاں ہیں؟ دروازہ لگادیا تھا؟گھر کو جھونکو جہنم میں، جلدی کرو، ابا ذرا رکو تو؟ اور کتے تھے کہ چہار جانب سے بھونکنے لگے۔ میں اپنے تین بھائی بہنوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے روتا گیا۔ اس گھپ اندھیرے میں آہ و بکا کرنے والوں میں بچوں کی اکثریت تھی۔

یہ تو میںنہیں ہوسکتا کہ ابتری کی اس رات کتنی خلقت نے صحرا میں پناہ لی، بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ تاریک راہ گزر لوگوں سے اس طرح پٹی پڑی تھی جیسے ہم سب کسی بزرگ کے عرس میں آئے ہوئے ہوں۔ ایک بار چچاحسن نے زہرخند کے ساتھ کہا بھی تھا ’’لگتا ہے ہم شیخ ہٹلر کے عرس میں آئے ہوئے ہیں۔‘‘

’’زمین کھودنے میں میرا ہاتھ بٹاؤ!‘‘ صحرا پہنچتے ہی ابا نے امی سے فوجی امور کے کسی ماہر کے لہجے میں کہا ’’چلو بچو، کھودو، حسن آفندی، تم بھی اپنے بچوں کے لیے ایک خندق بنا لو تاکہ بموں کے اڑتے ہوئے ٹکڑوں کی زد سے محفوظ رہیں۔‘‘

ہم نے مل کر ایک بڑی سی خندق کھودی جس میں ابا نے ہم سب کو ٹھسا ٹھس بھردیا۔ اس دوران بستی میں دھماکوں پر دھماکے ہوتے رہے اور آسمان پر بے ہنگم گھن گرج سنائی دیتی رہی۔ اوپر بجلی کی طرح وقفے وقفے سے روشنی کے جھماکے بھی ہوتے رہے اور پھر ہوائی جہاز ہمارے اوپر منڈلانے لگے۔

’’یہ تو بالکل ہمارے سروں پر آگئے۔‘‘ ابا چلائے۔ امی نے ایک دلدوز چیخ ماری اور ہم سب کو چھپا لینے کے لیے ہمارے اوپر اوندھ گئیں۔ ابا نے بھی یہی کیا۔ پورے صحرا میں لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے آوازیں گونجنے لگیں۔ جواب میں انھیں چپ کرانے کے لیے کچھ دوسری آوازیں بلند ہوئیں۔

میںنے اپنی گردن اچکا کر سر اوپر اٹھا کر اور ابا کی بغل میں سے آسمان کی طرف دیکھا کہ شاید کسی ہوائی جہاز میں کوئی جرمن دکھائی دے جائے اور میں اپنے تصور میں بنائی ہوئی جرمنوں کی شکل کی تصدیق کرسکوں مگر ابا نے زور سے دبا کر میرا سر ریت میںدے مارا۔

’’اگر ان کی لڑائی انگریزوں سے ہے تو وہ ہم پر بمباری کیوں کررہے ہیں؟‘‘ امی نے سرگوشی کی۔ ابا نے کوئی جواب نہیں دیا۔

’’کیا ہم ان کے دوست نہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’دونوں پر اللہ کی لعنت‘‘ ابا زور سے چیخے۔

ہوائی جہاز زمین کے اتنے قریب آگئے کہ ان کی تھر تھراہٹوں نے مجھے ہلاکر رکھ دیا۔ پھر یکایک خوفناک روشنی کے جھماکوں نے سیٹیاں سی بجاتے ہوئے تاریک صحرا کو بے لباس کردیا اور پھر جیسا کہ چچا حسن کی بیوی نے بیان کیا جو اس رات دو برس کے بعد ہمیں ملی تھیں ’’لوگوں پر بارش کی طرح گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔‘‘

زمین سے بلند ہوتی ہوئی چیخوں نے آسمان سے آتے ہوئے دھماکوں کے ساتھ مل کر شور اور واویلے کاایسا ہنگامہ گرم کیا کہ اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی وہ اب تک میرے کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ جب پو پھٹی تو امی نے آس پاس کی دوسری عورتوں کی طرح خود کو جنونی دوروں کے حوالے کردیا اور انھیں آپے میں لانے کی ہماری ہر کوشش بے کار گئی۔

آخر کار یہ قتل عام بند ہوا، آسمان سے ہوائی جہاز غائب ہوگئے اور اوپر سے آتی ہوئی تمام آوازوں اور دھماکوں نے زمین کے وحشیانہ شور وغوغا کے لیے جگہ خالی چھوڑ دی جو اس وقت تک جاری رہا جب سورج کی اولین کرن نمودار ہوئی۔

تکان سے چور ہم سب اپنی خندق سے نکلے اور اپنے والدین کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ ان کے حکم پر ہم نے اپنی آنکھیںکس کر میچ رکھی تھیں تاکہ ہماری نظر گردو پیش کے خون خرابے پر نہ پڑجائے۔ ہم نے سیدھے اپنے گھر کی راہ لی مگر وہاں تو پتھروں کا ڈھیر ہمارا منتظر تھا۔ گلی میں نہ چچا حسن کا گھر سلامت تھا نہ خالہ رحمت کا، سب کے سب ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔ ملبے کے اس ڈھیر پر جو کبھی ہمارا مکان تھا، ہماری ایک بطخ چکراتی پھر رہی تھی۔ پیچھے پیچھے اس کا ایک بچہ بھی تھا جبکہ پہلے وہ پانچ تھے۔ ہوا میں چنبیلی کی مہک کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔

ابا کسی سراسیمہ شخص کی طرح پہلے تو کھڑے کھڑے اس ملبے کو تکتے رہے اور پھر امی کو ٹکر ٹکر دیکھنے لگے جنھیں اس ناگہانی صورت حال نے دم بخود کردیا تھا۔ اس دن کا آخری اور اندوہ ناک منظر ابا کو روتے ہوئے دیکھنا تھا … ایسا منظر جو میں نے اپنی زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ دیکھا۔

’’زندگی بھر کی محنت پل بھر میں اکارت ہوگئی۔‘‘ امی آنسوؤں کی جھڑی میں منمنائیں۔

’’شکر الحمدللہ!‘‘ ابا آنسو پونچھتے ہوئے بڑبڑائے۔ ’’شکر ہے کہ ہم اندر نہیں تھے۔‘‘ کچھ دیر کے لیے خاموشی ہم پر مسلط رہی پھر وہ بولے ’’اب ہمیں ترک وطن کرکے کہیں اور جانا ہوگا۔‘‘ اس طرح میں نے ایک نئی ترکیب، ترکِ وطن‘ سیکھی۔

’’چلو، جب تک کوئی بندوبست نہ ہو تمہاری پھوپھی کے گھر چلتے ہیں۔‘‘ ابا نے بات جاری رکھی۔ ’’بشرطیکے وہ بھی ڈھے نہ گیا ہو۔‘‘

غمزدہ قافلہ پھر سے مرتب ہوا اور ہم سب مریل چال چلتے ہوئے روانہ ہوگئے ’’جیسے کسی میت کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوں۔‘‘ جیسا کہ میں سیانا ہوجانے پر اپنے احباب کو یہ واقعہ سناتے وقت کہا کرتا تھا۔ اپنے مکان کے ملبے کے پاس سے ہٹتے وقت میں نے دیکھا کہ ابا نے باہر کو نکلے ہوئے ایک پتھر کو گھسیٹا اور دوبارہ ملبے کے بڑے سے ڈھیر کی طرف اچھال دیا۔

میں نے انھیں یہ کہتے ہوئے سنا ’’جب جنگ ختم ہوجائے گی، تو ہم اسے پھر سے بنائیں گے۔‘‘

پھر جنگ ختم ہوگئی …

کندھے پر ٹہوکا لگا تو میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ میری بیوی کہہ رہی تھی ’’تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ سن رہے ہو؟ ہم مکان کب بنانا شروع کریں گے؟‘‘

مگر میرے بچپن کے مکان کا آسیب ابھی میرے سر پر سوار تھا، میںنے کہا: ’’جن لوگوں نے تباہی کے یہ سب خوفناک ہتھیار ایجاد کیے ہیں، آخر وہ کوئی ایسی چیز کیوں نہیں بناتے جو مکانوں کو ان کی تباہ کاریوں سے بچا سکے؟‘‘

میری بیوی کے چہرے پر حیرت نموار ہوئی، اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے بڑے دلار سے سوال کررہی ہو۔ میں مسکرا دیا اور ہاتھوں کو یوس گھمانے لگا جیسے اپنے خیالات کو اڑا رہا ہوں پھر بولا: ’’فکر کی کوئی بات نہیں، مجھے یقین ہے کہ اب جنگ کبھی نہیں ہوگی۔‘‘

اس بات نے میری بیوی کے چہرے کی حیرانی اور بڑھادی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں