یہ درست ہے کہ مرد کا کام کمانا اور گھر کے اخراجات و ذ مہ داریاں پوری کرنا ہے اور عورت یعنی ماں کا کام گھر کے امور اور بچوں کی پرورش۔مگر اولاد کی تربیت ماں باپ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے، جب تک دونوں فریق اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھائیں گے، صحیح تربیت ممکن نہیں۔ بہت سے ایسے مرحلے اور معاملات ہوتے ہیں جن میں باپ کا کردار ماں سے زیادہ اہم اور باپ کی دخل اندازی ضروری ہوجاتی ہے۔ بچے کے ارتقاء و نمو کے ساتھ ساتھ باپ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
پیدائش سے شیرخواری کے عرصے میں باپ کی ذمہ داری
نومولود بچہ گھر میں رحمت اور نعمت کی شکل میں آتا ہے۔ بچہ ہو یا بچی اللہ کا تحفہ ہوتا ہے۔ ایسے میں صرف ماں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے کہ ننھی اور ناتواں جان کو کھلائے پلائے، اس کی ضروریات کا خیال رکھے، صاف ستھرا رکھے، بلکہ باپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسے اپنے محبت و شفقت بھرے لمس سے روشناس کرائے، ماں کی غیر موجودگی یا مصروفیت میں اس کو بہلائے۔ کیوں کہ بچہ دنیا میں آکر جن ہستیوں سے سب سے پہلے واقف اور آگاہ ہوتا ہے، وہ اس کے والدین ہیں۔اگر بچہ چار مہینے میں ماں کو دیکھ کر کھیلتا اور خوش ہوتا ہے تو تقریباً نو، دس مہینے کی عمر میں باپ کو بھی پہچاننے لگتا ہے اور اس کی طرف لپکتا ہے۔ اگر نومولود دوسری یا تیسری اولاد ہے تو ایسی صورت میں تو والد کو ضرور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا شعور ہونا چاہیے۔ بچہ تتلانے کے ساتھ ساتھ اپنے الفاظ کے ذخیرے کو بڑھانے لگتا ہے اور بخوبی ہر طرح کے تاثرات اور رویے کو سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے میں باپ کی عدم توجہی بچے کو غیر مطمئن اور بے اعتمادی کا شکار کردیتی ہے۔
بچپن سے لڑکپن کے عرصے میں باپ کا کردار
چار، پانچ سال کی عمر میں عموماً بچے کو اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے۔ اسی لیے اس عرصے کو اسکول کا دور بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایسے میں والد کی ذمہ داری بچے کے لیے مناسب اور قابلِ اعتماد اسکول کا انتخاب کرنا ہے، کیوں کہ بچے کی تعلیم کی بنیاد اس کا ابتدائی مدرسہ یا اسکول ہے۔ وہاں کا ماحول و معیار، وہاں زیر تعلیم بچوں کی زبان، رہن سہن، بول چال کے طریقے، یہ سب بچہ نہایت تیزی سے سیکھتا ہے۔ صرف اسکول ہی نہیں بلکہ اس عرصے میں والدین کے آپس کے تعلقات، ان کے بولنے کا طریقہ، گھر کا ماحول بچے کی اچھی شخصیت کی تشکیل میں بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس عمر میں بچوں کو اچھے واقعات، اسلامی قصے سنانا، ان کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دینا یعنی سودا سلف منگوانا بچوں کو باشعور بننے میں مدد دیتے ہیں۔
عہدِ بلوغت تاجوانی
یہ عرصہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے لیے نہایت اہم ہے، اور ان کی تمام زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس عرصے میں والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ باپ کے ساتھ ساتھ دوست، رہنما اور نگراں کا کردار ادا کرے، ان کو زمانے کی اونچ نیچ سے آگاہ کرے، ان کی روز مرہ کی مصروفیات سے آگاہ ہو اور اپنے تجربات کا نچوڑ ان کو دے، ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے گیمز اور سیروتفریح کے مواقع فراہم کرے اور ان کو دین کی طرف راغب کرے، جس کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور تلاوتِ قرآن کا وقت مقرر کرے۔ ان کو احادیث اور روایات سنائے، ان میں کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے اور ان کو مذہبی و معاشرتی اقدار سے روشناس کرائے۔
اب ہم چند ایسے امور کی نشاندہی کررہے ہیں جن میں باپ اپنا کردار احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔
گھریلو کام
اچھے اور خوشگوار گھریلو ماحول کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ سب لوگ مل جل کر کام کریں، اور اگر والد فارغ وقت یا چھٹی والے دن بیگمات کا ہاتھ بٹا دیں تو بچوں پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی ڈش کی تیاری میں مدد کرنا یا کپڑے استری کردینا، یا اپنے ذاتی امور خود انجام دینا۔ اس طرح بچے سیکھتے ہیں کہ ہمارے کام صرف ہماری والدہ اور بہنوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم کو خود بھی کرنے چاہئیں۔
بچوں کی تعلیم میں کردار
گو کہ والد کی عدم دستیابی کے باعث عموماً بیگمات ہی بچوں کو ہوم ورک کراتی ہیں، مگر ایسے میں والد کو وقتاً فوقتاً بچوں کی کاپیوں کی جانچ، نیز ان کی آزمائش تحریری یا زبانی کرنی چاہیے اور ان کے استاد سے تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر بچے والدہ کے مقابلے میں والد کی باز پرس سے زیادہ ہوشیار ہوجاتے ہیں۔
بچوں کے لیے خریداری اور ان کی سیروتفریح
اگر والد کبھی دفتر سے واپسی میں بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزیں یا کھلونے لائے تو ان کی خوشی بے پایاں ہوتی ہے، نیز مہینے میں ایک بار ان کو گھمانے کے لیے لے کر جانا یا کچھ کھلانے پلانے کا اہتمام کرنا بچوں کو والد سے مزید قریب کرتا ہے۔ اس سے روزانہ وقت نہ دینے کی شکایت کا بھی ازالہ ہوجاتا ہے۔
آپس کے جھگڑوں اور شکایتوں سے دور رکھنا
جہاں دو برتن ہوں تو کھڑک ہی جاتے ہیں، ایسے میں والدین کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ نامناسب الفاظ یا جھگڑے سے بچوں کو دور رکھا جائے، یعنی ان کے سامنے بحث و ہنگامہ آرائی سے گریز کیا جائے۔ چاہے وہ شکایتیں ہوں یا لڑائی ہو، بچوں کی عدم موجودگی میں کریں یا درگزر سے کام لیں، کیوں کہ جھگڑے بچوں کے ذہن پر بہت برے اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ خود بھی آپس میں لڑائی جھگڑا شروع کردیتے ہیں۔
بچوں کی ماں کے فیصلوں اور بزرگوں کااحترام
کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ ماں کے کیے ہوئے فیصلے سے عدم مطابقت یا اختلافِ رائے ہوجاتا ہے۔ ایسے میں والد کو فوراً ہی اپنا فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہیے بلکہ مصلحت سے کام لے کر خاموش ہوجانا چاہیے اور بعد میں آپس میں اظہارِ خیال کے بعد بچوں کو بتانا چاہیے۔ نیز اپنے اور اپنی بیوی کے بزرگوں کے لیے اچھے الفاظ اور خیالات کا استعمال کرنا چاہیے اور بڑوں کی عزت کرنے کا سبق دینا چاہیے۔ والدین آپس میں مہذب الفاظ کا استعمال اور گفتگو کریں، کیوں کہ آپ کے ادا شدہ الفاظ بچوں کی یادداشت میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔
گھر اچھے موڈ میںآئیں
تھکن، پریشانی یا دفتری مسائل کو اپنے موڈ پر حاوی نہ ہونے دیں اور گھر میں بشاشت لیے داخل ہوں، وگرنہ آپ کے غصے اور جھنجھلاہٹ سے بچے اِدھر اُدھر دبک جائیں گے۔ عموماً بچے بے چینی سے باپ کا انتظار کرتے ہیں۔ اپنے دن بھر کے کارناموں یاکاموں سے آگاہ کرنے کے لیے ان کے اوپر آپ کے موڈ کے براہِ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں باپ کی طرف سے دی ہوئی بہترین چیز بچوں کے لیے ’’اچھا اخلاق‘‘ ہے۔