ہر عورت کے دل میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ اس کا گھر سجا ہوا ہو۔ کسی سہیلی کا عمدگی سے سجا ہوا گھر دیکھ کر جہاں دل بے اختیار متاثر ہوجاتا ہے وہاں یہ خواہش بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے کہ دوسرے بھی ہمارے گھر کو دیکھ کر اسی طرح متاثر ہوں۔ بہت سی دوسری خواہشوں کی طرح یہ خواہش بھی ایسی ہے کہ اگر موزوںحدود کے اندر رہے تو زندگی کے آب و رنگ کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔ مگر اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سجاوٹ درحقیقت ہے کیا شے اور کس طرح پیدا کی جاسکتی ہے؟
گھر کو سجانے کے لیے دولت کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی اچھے ذوق، سلیقے، قرینے اور سمجھ داری کی ہوتی ہے۔ عام طور پر ہم یہی سمجھتے ہیںکہ اعلیٰ درجے کا فرنیچر، نفیس تصویریں، انمول آرائشی اشیاء ، پردے، قالین اور ایسی ہی دوسری اشیاء ہوں تبھی گھر کی سجاوٹ حاصل ہوسکتی ہے۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ وہ گھر بھی سجایا جاسکتا ہے جس میں ان اشیاء میں سے کوئی بھی نہ ہو۔ ضرورت صرف اس کی ہے کہ گھر کے رہنے والے خوش ذوق لوگ ہوں اور عقل وسلیقے کے مالک ہوں۔
اگر سجاوٹ صرف قیمتی اشیاء اور سازو سامان کی زیادتی ہی سے حاصل ہوسکتی تو پھر غربا اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کے گھر تو کبھی بھی نہ سجائے جاسکتے اور خوشنما گھر کو دیکھ کر جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ امیروں ہی کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئی ہوتی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک معمولی دیہاتن کا گھر دیکھ کر منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکل جاتا ہے۔ حالاںکہ اس کچے گھر میں نام کو بھی کوئی قیمتی شئے نہیں ہوتی۔
میری ایک رشتہ دار کو پچھلے دنوں ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میزبان خاتون جو ایک زمیندار خاندان سے تعلق رکھتی تھیں انہیں سیر کرانے کے لیے اپنے زمینوں پر لے گئیں اور اپنے ایک مزدور کا گھر دکھایا۔ اس کے کچے گھر کو دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئیں۔ سلیقہ شعار دیہاتن نے گندھی ہوئی مٹی اور بعض دوسری ایسی ہی بے حقیقت چیزوں کی مدد سے گھر کو اتنا خوبصورت بنا رکھا تھا کہ نظر ہٹانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ سارا گھر لپا پتا صاف ستھرا تھا۔ دیواروں پر گندھی ہوئی مٹی ہی سے پھول پتے بنائے گئے تھے۔ سوڈے کی بوتلوں کے اوپر جو چھوٹے چھوٹے ڈھکنے ہوتے ہیں انہیں جگہ جگہ صفائی سے دیواروں میں جڑ کر خوبصورتی پیدا کی گئی تھی۔ چولہے اتنے صاف ستھرے گویا ان میں کبھی آگ جلائی ہی نہ گئی ہو۔ گھر میں کوئی قیمتی شے نہیں تھی مگر خوشنمائی تھی کہ چاروں طرف بکھری پڑی تھی۔
غرض کہ گھر کی سجاوٹ نہ ساز و سامان کی زیادتی پر منحصر ہے نہ اس کے زیادہ قیمتی ہونے پر بلکہ اصلی سجاوٹ دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے:
ایک یہ کہ گھر کی اشیاء صاف ستھری ہوں۔
دوسرے یہ کہ ان کی ترتیب عمدہ ہو۔
وہ عام اشیاء جو گھروں میں عموماً ہوتی ہیں مثلاً برتن، بستر، تھوڑا بہت فرنیچر اور بذات خود گھر، اس کی چھتیں، اس کے فرش، اس کے دروازے کھڑکیاں، الماریاں یہی چیزیں اگر صاف ستھری اور عمدہ حالت میں رکھی جائیں تو گھر بڑی عمدگی سے سج جاتا ہے۔ خاص آرائشی اشیاء کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بے کار آرائشی اشیاء پر روپیہ صرف کرنے کے بجائے گھر میں پابندی سے خاص خاص وقفوں کے بعد سفیدی کراتے رہنا چاہیے۔ اور دروازوں، کھڑکیوں، الماریوں اور فرنیچر کا رنگ و روغن صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ دیواروں پر سفیدی کرانے کااہتمام بہت کم گھروں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ سفیدی کرانے کے بعد دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ اور بھی بدنما معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ روغن وغیرہ کرانے پر روپیہ صرف ہوتا ہے مگر یہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ ایک متوسط درجے کی آمدنی رکھنے والا شخص برداشت نہ کرسکے۔ اپنے اخراجات میں جو نسبتاً کم اہمیت رکھنے والے اخراجات ہوں، انہیں نظر انداز کرکے سفیدی اور روغن پر پیسے صرف کرلینے چاہئیں۔ گھر کو بہ حیثیت مجموعی خوشنما بنانے میں یہ دونوں چیزیں بھی مدد دیتی ہیں یعنی دیواروں چھتوں کی سفیدی اور دروازوں کھڑکیوں، الماریوں اور فرنیچر کا رنگ و روغن۔ دروازوں کھڑکیوں پر خوبصورت پردے پڑے واقعی بڑے خوشنما معلوم ہوتے ہیں مگر خالی دروازے اور کھڑکیاں بھی کچھ کم خوبصورت نہ لگیں گی اگر ان کے شیشے شفاف اور رنگ روغن عمدہ حالت میں ہو۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک دفعہ روغن کرانے کے بعد اگر روغن شدہ چیزیں باقاعدگی سے صاف ہوتی رہیں اور ان پر گرد نہ جمنے دی جائے تو مدتوں روغن خراب نہیں ہوتا۔ اگر روغن بد رنگ ہوچکا ہو مگر رنگ بالکل نہ اترا ہو تو صاف کرنے کا ایک سستا طریقہ یہ بھی ہے کہ سرسوں کے تیل میں برابر مقدار کا پانی ملا لیا جائے انہیں خوب حل کرکے کپڑے کی گدی سے فرنیچر اور دروازوں وغیرہ کو خوب اچھی طرح رگڑا جائے تو اس سے چیزوں پر خوشنمائی اور چمک آجاتی ہے۔ میزیں وغیرہ اگر میز پوشوں سے ڈھکی رہیں تو ان کی سطح خراب ہونے سے بہت حد تک بچی رہتی ہے۔
گھر کی چارپائیاں اور پلنگ وغیرہ کسے ہوئے ہونے چاہئیں،ڈھیلی ڈھیلی چارپائیاں عجب بدوضع معلوم ہوتی ہیں۔ کسے ہوئے پلنگوں اور چارپائیوں وغیرہ پر معمولی چادریں بھی اچھی معلوم ہوں گی۔ جھلنگا پلنگ پر قیمتی پلنگ پوش بھی اچھا نہیں لگتا۔
گھر کے فرشوں کی خوبصورتی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ سیمنٹ یا ماربل ہی کے بنے ہوئے ہوں، اینٹوں کا معمولی فرش بھی اگر پابندی سے دھویا جاتا رہے تو بڑا خوشنما لگتا ہے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہو اور فرش کچا ہو تو بھی لیپتے پوتتے رہنے سے اسے جاذب نظر رکھا جاسکتا ہے۔
گھر کے برتنوں کی صفائی اور ترتیب گھر کی خوشنمائی پر خاص اثر ڈالتی ہے۔ برتن چینی کے ہوں یا مٹی کے یا پیتل تانبے کے دھلے منجھے ہوں اور عمدگی سے رکھے ہوں تو باروچی خانے کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے ہیں۔
چولہے اگر گیس کے ہوں تو بھی انہیں روز صاف کرنا چاہیے اور اگر مٹی کے ہوں تو بھی انہیں کالا سیاہ ہونے سے بچانا چاہیے۔ ایک مٹی کے پیالے میں گیلی مٹی تیار رکھنی چاہیے جب چولہا ٹھنڈا ہو اس پر مٹی پھیر دیں۔ چند منٹوں کا کام ہے مگر اس سے چولہے بڑے خوشنما رہتے ہیں۔
گھر کی سجاوٹ کے لیے زیادہ اشیاء منگوانے پر کبھی زور نہیں دینا چاہیے جو کچھ ہے اسے ستھرا رکھنے اور عمدگی سے ترتیب دینے سے گھر زیادے سجے گا ورنہ بغیر صفائی اور ترتیب کے چیزوں کی زیادتی گھر کی بدوضعی کواور بڑھاتی ہے۔
گھر کو خوشنما بنانے کے لیے پھولوں سے بڑی مدد ملتی ہے۔چند گملے پھولوں کے رکھ لیے جائیں تو بہت مفید ہوں گے۔ ایک تو وہ خود مناسب جگہوں پر رکھے ہوئے صحن کو خوبصورت بنائیں گے اور دوسرے ان کے پھولوں کے گلدستے کمروں کی خوشنمائی بڑھائیں گے۔ گلدستوں کے لیے بھی قیمتی گلدانوں کی ضرورت نہیں۔ سجاوٹ تو اصل میں خود پھولوں کی ہوگی چاہے وہ ایک صاف ستھرے گلاس ہی میں کیوں نہ رکھے ہوں۔ خالی بوتلیں اچھی طرح صاف کرکے اور ان میں پانی بھر کر ان میں چند پھول رکھ دیے جائیں تو وہ بھی خوبصورت معلوم ہوں گے۔ صحن میں تھوڑی سی جگہ کچھ رکھ کر تھوڑا سا سبز دھنیا ہی بودیا جائے یا کوئی اور موسمی سبزی لگادی جائے، اس سے صحن کی خوشنمائی بڑھ جائے گی۔
اب ذرا ایک نگاہ اس صاف ستھرے گھروندے پر ڈالیے اجلی دیواریں، صاف چھتیں، دھلے ہوئے فرش، دروازے ، کھڑکیاں، الماریاں، داغ دھبوں سے پاک، نشست گاہ میں تھوڑا سا فرنیچر ہے مگر روغن کیا ہوا اور درمیان میں خوشنما پھولوں کا ایک گلدستہ آنکھوں کوسکون دے رہا ہے۔ سونے کے کمرے میں معمولی بستر ہیں مگر دھلے دھلائے ستھرے کہ دیکھنے سے دل خوش ہو۔ باورچی خانے میں ایک طرف مٹی کا چولہا کہ گویا ابھی بنا ہے اور دوسری طرف پیتل کی سنہری اور تانبے کے نقرئی منجھے ہوئے برتن آنکھوں میں چکا چوند پیدا کررہے ہیں۔ ایک کونے میں سبزی بہار دکھا رہی ہے، جگہ جگہ پھولوں کے گملے رکھے ہیں اور مٹی کی کوری ٹھلیا کے اوپر موتیے کا ایک ہار پڑا مہک رہا ہے۔ اور اس ساری سجاوٹ پر صرف کیا ہوا؟ کچھ رنگ و روغن، کچھ صابن یا آپ کی اپنی عقل، محنت اور سلیقہ۔