’’ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں‘‘ فرانس کی خواتین میں یہ نعرہ دن بہ بدن مقبول ہوتا جارہا ہے۔ فرانسیسی خواتین کا یہ نعرہ یورپ میں ایک نئے تنازعے کا آغاز ہے، کیوں کہ گزشتہ صدی کے آغاز میں فرانس ہی تحریکِ نسواں کا سب سے بڑا علم بردار تھا۔ اور اب فرانس میں عورتوں کے سب سے بڑے مجلے میں ایک ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے: ’’ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔‘‘
فرانس کی مشہور ماہرِ معاشیات فلولانس موریانتی سے جب دریافت کیا گیا کہ ماضی کی بہ نسبت اب گھر کی طرف لوٹنے والی خواتین کا تناسب کیوں زیادہ ہے؟ تو انھو ںنے کہا : ’’ایک وقت تھا، جب فرانس کے بارے میں عموماً کہا جاتا تھا کہ یہاں کوئی بھوک سے نہیں مرتا، لیکن افسوس کہ ماضی کی یہ حقیقت اب حقیقت نہیں رہی، اب یہاں لوگ بھوک اور غربت کے ساتھ ساتھ ’’مناسب گھریلو زندگی‘‘ نہ ہونے کے سبب مررہے ہیں۔‘‘
فرانس کے مشہورصحافی شارل موورا کہتے ہیں کہ ’’اگر امور خانہ داری کی طرف لوٹنے کو پسند کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے تو تعجب کی بات نہیں۔ ہمیں سنجیدہ بنیادوں پر اس نئے رجحان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں ہے بلکہ کچھ عرصے قبل سوئٹزر لینڈ کے بارے میں بھی یہی رجحان سامنے آیا تھا اور اب یہ سارے یورپی معاشرے کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یورپی عورتیں عجب مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ ان کے لیے ایک ہی وقت میں بیوی اور ملازم پیشہ عورت کا کردار نہایت مشکل ہے۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ ہر چیز میں اعلیٰ معیار کی کارکردگی ہو یا پھر کچھ بھی نہ ہو۔‘‘
۱۴؍جنوری ۲۰۰۵ء کو نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ (NBER) کے تحت ایک قومی کانفرنس میں یہ مسئلہ زیربحث تھا: ’’انجینئرنگ اور سائنس کے اعلیٰ اداروں میں اور اعلیٰ مناصب پر عورتوں کی نمائندگی۔‘‘ ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر لارنس ایچ سمرز نے مسئلے کی نوعیت پر کہا: ’’جن اہم موضوعات پر میں خاصے عرصے سے سوچ بچار کرتا رہا ہوں یہ ان میں ایک حساس موضوع ہے۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں ہم صنفی مساوات کی ایک منصفانہ اور موزوں تعبیر و تشریح کرسکتے ہیں۔ ہمیں ایک باقاعدہ نظام کے تحت طبی اور نفسیاتی تحقیقات کو بنیاد بناکر اصل حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اب سے ۲۵؍برس پہلے کی بات ہے سائنس اور انجینئرنگ کے شعبہ ہائے تدریس و تحقیق میں ہم نے بڑے پرجوش انداز سے اور دانستہ طور پر عورتوں کی نمائندگی خاصی بڑھائی۔ جن خواتین نے ۲۵ سال پہلے ان شعبہ جات سے وابستگی اختیار کی تھی وہ اس وقت چالیس، پینتالیس سال کے لگ بھگ ہوں گی مگر اب ان شعبہ جات میں جاکر دیکھیں تو وہ فاضل خواتین جن کے بارے میں بڑی توقعات قائم کی گئی تھیں ان میں سے آدھی سے زیادہ تدریس و تحقیق کا یہ شعبہ چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ رک جانے والی ان فاضل خواتین میں بھی صورت یہ ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں یا پھر بغیر بچوں کے … یہ ہے حقیقتِ حال… اور یہی بات اعلیٰ درجوں کے دوسرے متعدد پیشہ ورانہ اداروں میں خواتین کی کم تر نمائندگی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیںکہ تاریخی طور پر ہمارے معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کے برعکس ایک شادی شدہ مرد اپنی پیشہ ورانہ وابستگی کے تقاضے کہیں زیادہ بہتر انداز میں نبھاتا ہے۔ اور یہ فرق تمدنی اور ثقافتی طور پر ہزاروں سال سے ثابت شدہ ہے۔‘‘
پروفیسر سمرز کے ان خیالات کے اظہار پر امریکہ کے طول و عرض میں حقوقِ نسواں کی لیڈر خواتین نے ان کے خلاف مظاہرے شروع کردیے اور کہا کہ یہ عورتوں کو باورچی خانے میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ عورتوں اور مردوں کی مساوات کا نعرہ لگانے والے یورپ نے حقیقتِ حال کا جو اعتراف کیا ہے اور اس کے معروف دانشور جو تجزیے پیش کررہے ہیں وہ ہماری بھی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے خبط میں عورتوں کی آدھی اور کبھی ۳۳ فیصد نمائندگی کے لیے قانون پاس کررہے ہیں، یہ سیاسی نمائندگی بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
سیاسی نمائندگی میںتناسب کے لحاظ سے پہلے نمبر پر روانڈا، ۳۲ ویں پر پاکستان، ۵۹ پر امریکہ، ۹۰ پر بھارت، ۱۱۵ پر ترکی اور ایران ہیں۔معاشرتی اقدار و روایات کے منافی جو قدم اٹھایا گیا وہ خود مساواتِ مرد و زن کا نعرہ لگانے والا یورپ بھی نہ اٹھاسکا۔
اس نمائندگی کے بارے میں کئی طرح کے تحفظات ہیں۔ خواتین کے کام کے لیے جو لائحہ عمل عام طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ خواتین کے حقِ وراثت، عزت کے نام پر قتل کی روک تھام، ملازمت پیشہ خواتین کا تحفظ اور خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ وغیرہ تجویز کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ ان مسائل کا موجود ہونا ایک تشویش ناک امر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ نکات مغرب کے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں اور یہ انہی کے ایجنڈے کا حصہ ہیں کہ ان معاملات کو اتنا آگے بڑھایا جائے کہ عورتوں کو مردوں کے نہ صرف مقابل بلکہ مخالف کھڑا کردیا جائے اور تحریکِ نسواں کا ایجنڈا بالآخر مرد مخالفت معاشرے کی تشکیل میں بدل جائے۔
مثال کے طور پر خواتین کے حقِ وارثت کو لیں۔ قرآن میں، آئین میں، قانون میں یہ حق محفوظ ہے۔ خواتین کی اکثریت یہ جانتی ہے کہ وراثت میں ان کا حق ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ مرد یہ حصہ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ پھر یہ مہم مردوں کی طرف سے چلائی جائے کہ حق دار کو اس کا حق ملے اور یہاں مرد عورت کے حقوق کا ضامن ہو۔ عورت سڑکوں پر آجائے جب تک مرد اس کا حق ماننے پر تیار نہ ہو تو سڑکیں تو حق نہیں دلاسکتیں۔ مسئلہ مردوں کے اوپر کام کرنے، ان کو آگہی دینے، ان کے اندر خوفِ خدا پیدا کرنے کا ہے کہ وہ عورت کے محافظ کے روپ میں سامنے آئیں۔
سوال یہ ہے کہ جس نظام میں مرد، مردوں کے تحفظ کا ضامن نہ بن سکے… بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن، خود کشی کی شرح میں اضافہ … پارلیمنٹ کو ن سا عوامی مسئلہ حل کرسکی ہے؟ نظام کی اصلاح کے بغیر محض خواتین کی کثیر نمائندگی کسی مسئلے کا حل نہیںہے۔
عہدِ جدید میں استعماری عزائم کا حامل مغرب امریکی سربراہی میں دو اہداف کی تکمیل کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ ان میں ایک دنیا پر سیاسی اجارہ داری اور دوسرا ثقافتی غلبہ ہے۔ ذرائع ابلاغ اس کا پہلا محاذ ہیں اور اقوامِ متحدہ دوسرا نہایت بنیادی سیاسی نوعیت کا محاذ ہے اور مقصد گلوبل کلچر ایجنڈے کی تکمیل … جس کا دلفریب نعرہ ’’مساواتِ مردو زن‘‘ ہے۔ عورت کے حقوق کے نام پر معاشرتی ڈھانچے اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ انتخابی نظام کی شفافیت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ان حقائق کے تناظر میں عورتوں کے معاملے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ عزت و احترام، معیار آدمیت، آخرت میں اجر، اعمالِ صالح کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں لیکن دونوں کے دائرہ عمل میں فرق ہے۔ تمام تر ترقی پسندانہ ذہنیت کے باوجود مغرب کے دانشور بھی غیر فطری مساوات کے قائل نہیں ہیں۔ خواتین کی نشستیں مقرر کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اسٹیٹ کے بنیادی فرائض کی ادائیگی، شرح تعلیم میں اضافہ، کرپشن کلچر کا خاتمہ حقوق کا ضامن بن سکتا ہے۔
عورت کے لیے اپنی صلاحیتوں کے استعمال یا سیاست میں آنے پر اسلام نے کوئی قدغن عائد نہیں کی ہے۔ عورت مخصوص میدانوں کا انتخاب کرے یا جس میدان میں چاہے اپنی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی خدمت و فلاح کا کام کرسکتی ہے، اس کو اس کے لیے میدانِ کار مہیا کیا جانا چاہیے۔
حقوقِ نسواں کی یہ تحریک اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں اور ہمارے ملک میں سیاسی سطح پر ہونے والی تبدیلیاں حقیقت میں خواتین کے ان بنیادی مسائل کو حل کرنے یا انہیںاپنا حقیقی ایجنڈا بنانے میں ناکام ہیں جو ہمارے دور کی خواتین کے حقیقی اور زمینی مسائل ہیں۔ ہم اپنے ملک ہی کی خواتین کی بات کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ یہاں خواتین کے خلاف تشدد، جہیز کے لیے دلہنوں کو جلایا جانا، رحم مادر میں لڑکیوں کا قتل، وراثت میں ان کا حق تسلیم نہ کیا جانا، جہالت و ناخواندگی اور مردوں کا ظلم و جبر عام حقائق ہیں۔ غربت و افلاس اس پر مزید مصیبت ہے۔ مگر حقوقِ نسواں کی تحریکات ان بنیادی حقائق کو بدلنے کی فکر کے بجائے عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات کے نعرے پر کام کررہی ہیں۔ گویا وہ مرد وعورت کے درمیان محاذ آرائی کے فروغ اور ردِ عمل کی سیاست کا شکار ہیں۔ ان حقائق کے ساتھ اگر ہم پارلیمان اور اسمبلیوں اور گرام پنچایتوں میں رزرویشن کی بات کریں تو بنیادی حقائق بدلنے والے نہیں ہیں۔
اترپردیش کی وزیرِ اعلیٰ ایک خاتون ہیں اور دلت خاتون ہیں مگر وہاں جب دلت عورت کے ساتھ ’’گینگ ریپ‘‘ ہوتا ہے تو ایف آئی آر درج کرانے میں بھی متاثرہ خاتون ناکام ہوجاتی ہے اور اسے عدالت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں خواتین کمیشن کی رپورٹ نے جن حقائق کو پیش کیا ہے ان پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ دور کی خواتین تحریکات کس طرح حقائق سے نظریں چراتے ہوئے صرف مغرب کے ثقافتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے آلۂ کار بنی ہوئی ہیں۔
ہماری حکومتیں خواتین کو رزرویشن دینے پرتو آمادہ ہیں مگر ان کی حالت زار کو حقیقی طور پر بدلنے کے لیے کسی بھی طرح تیار نہیں ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگر حکومت قحبہ گری (پرسٹی ٹیوشن) کو روک نہیں سکتی تو پھر کیوں نہ اسے قانونی جواز فراہم کردیا جائے۔‘‘ سپریم کورٹ کا یہ انتباہ قوم کے لیے سبق ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ موجودہ دور کی حقوق نسواں کی تحریکات مغرب کے تہذیبی ایجنڈے کو ہی آگے بڑھانے کا آلۂ کار بن کر رہ گئی ہیں۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ان کے پرفریب نعرے سے نکل کر خواتین کے ان مسائل کو ایجنڈا بناکر کام کیا جائے جن سے آج ہمارے سماج کی خواتین نبرد آزما ہیں۔
اور ظاہر ہے کہ یہ کام موجودہ دور کی مغرب زدہ تحریکات سے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے ان خواتین کو ہی آگے آنا ہوگا، جو نظریاتی بنیادوں پر عورت کی عزت و وقار کے لیے کی جانے والی کوششوں پر یقین رکھتی ہوں اور جو حقوق نسواں کی تحریک کو مرد و عورت کے درمیان کشمکش کا ذریعہ بنانے کے بجائے دونوں کے درمیان باہمی تعاون پر یقین رکھتی ہوں۔
ہمارے رسول نے بھی خواتین کے وقار کے لیے اور ان کے زندگی کے حق کے لیے تحریک چلائی۔ ایسے دور میں جب لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا۔ اور پھر لوگوں کے نظریات کو تبدیل کردیا۔
تبدیلی کی ضرورت آج بھی ہے، نہ جانے اہلِ اسلام کو اس کی ضرورت محسوس کرنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے۔