بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے جب بھی بات ہوتو عموماً والدین پر ختم ہوجاتی ہے، حالانکہ ان کی تربیت میں دوسرے رشتے داروں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ خصوصاً دادا دادی اور نانا نانی کا اپنا ایک کردار ہے، جنھیں ہم ’بزرگ والدین‘ کہہ سکتے ہیں۔
دور مت جائیے، چند عشرے قبل ہی فارغ اوقات میں بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کی طرح ٹیلی ویژن، کیبل یا انٹرنیٹ سے دل بہلانے کے بجائے دادا دادی، نانا نانی کے پاس جمع ہوجاتے اور ان سے قصے کہانیاں سنا کرتے تھے، جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا۔ الف لیلیٰ، راجا رانی، ٹارزن اور حاتم طائی وغیرہ کی کہانیاں بچوں کو کچھ نہ کچھ سبق دے کر ہی ختم ہوتیں۔ اسی طرح تاریخ اسلام کے سچے واقعات اور صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔
غرض ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بزرگو ں کے ساتھ بچوں کا ذہنی، قلبی اور جسمانی قرب و تعلق قائم تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز، چھوٹی سورتیں اور دعائیں یاد کروانا انہی بزرگ والدین کی ذمے دار تھی لیکن آج یہ سب کچھ خواب بن چکا ہے۔ غربت، جہالت، بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ بزرگ والدین کی حکیمانہ باتیں اور دادی، نانی کی لوریاں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی وی، انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔
اب بیشتر بزرگ والدین تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولات زندگی سے عملی طور پر معطل ہوجانے کا احساس انہیں نفسیاتی و جسمانی امراض میں مبتلا کررہا ہے۔ ادھر بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھر لوٹیں تو انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت تلاش کرتے ہیں یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں انہیں گھریلو ماحول سے دور رکھتی ہیں۔ بچوں پر اسکول کے کام ، ٹیوشن اور نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ افرادِخانے کے ساتھ مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سوجاتے ہیں۔ اسی لیے موجودہ دور کا یہ المیہ تلخ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے کہ والدین اور اولاد میں خلیج تیزی سے وسیع ہورہی ہے۔
حالات، ماحول اور ذمہ داریوں کا بوجھ دیکھا جائے تو والدین کی حالت واقعی قابلِ رحم نظر آنے لگتی ہے۔ (قطع نظر اس کہ یہ سب کچھ ان کا خود ساختہ ہے یا یہ حقیقت میں ذمے داریوں کا بوجھ ہے) بہرحال اس صورت حال میں اپنی معاشرتی زندگی کے رکھ رکھاؤاور اخلاقی اقدار کی عمارت قائم رکھنا ہی ہمارے لیے چیلنج بن گیا ہے۔
بزرگ والدین (دادا دادی، نانا نانی) بننے سے پہلے ایک اہم مرحلہ اور بنیادی رشتہ، قانونی والدین (ساس، سسر) کا ہے۔ اس ضمن میں مغربی نقطہ نگاہ سے قانون ایسی پابندی ہے جسے انسان سزا یا نقصان کے خوف سے نبھاتاہے یا پھر محبت سے (اگرچہ جب انسان کو ہر پہلو سے اس میں مفاد اور خیر نظر آئے)۔ قانونی رشتے بھی اسی اصول کے تحت جڑے رہتے ہیں ورنہ ٹوٹ جاتے ہیں۔
قانونی (In-Law)رشتے کا یہ مغربی تصور انسانوںمیں دلی محبت، لگاؤ، سمجھوتہ اور ایثار پیدا نہیں ہونے دیتا۔ اسی لیے وہاں رشتوں کے نام تک بے کشش ہیں۔ اردو زبان اس سلسلے میں خوب صورت انداز رکھتی ہے۔ اس میں انکل، آنٹی، گرینڈ ڈیڈ جیسے نامکمل رشتوں کے بجائے ہر رشتے کی مکمل شخصیت کا ادراک اور قدر و منزلت موجود ہے مثلاً: دادا، دادی، نانا، نانی ، تایا ، چچا، پھوپھی، خالہ ، ماموں۔ پھر منجھلے، چھوٹے، بڑے کا سابقہ اور لاحقہ رشتے کو مزید پُرتاثیر بنادیتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتوں کا تشخص دو خاندانوں کے باہمی تعلقات نکھارتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلےچلائے۔‘‘ (25:54)
معاشرے میں ساس، سسر کے درجے تک جانا، خصوصاً کسی عورت کا ساس بننا ایک اہم تبدیلی ہے۔ یہ ایسے دور کا آغاز ہے جہاں نہ صرف نفسیات بدلتی ہے بلکہ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کے اصل روپ، انصاف پسندی، باطنی رویے اور اعلیٰ ظرفی کی پہچان ہوتی ہے۔ خاص طور پرساس نندوں کا کردار ہی یہ واضح کرتا ہے کہ وہ بہو یا بھابی کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھ کر اور اسے کیسا مقام دے کر اپنی آئندہ نسل پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ گھر کی بہو کو جو ماحول میسر ہے، وہ جن خوشگوار یا تلخ حالات کا سامنا کرتی ہے اور جتنی عزت نفس کے ساتھ وہ اپنے بچے کی آبیاری کرتی ہے، بچہ یہ سب اثرات لیے دنیا میں آتا ہے۔ بہو کو عزت، محبت، شفقت ملنی چاہیے، نہ ملے تو یہ رویہ اپنی آئندہ نسل پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
ہمارے معاشرے میں داماد تکبر، نخوت، ناز برداریاں اٹھوانے اور بیوی کے پیارے رشتے کو پامال کرنے (الا ماشاء اللہ) والی عجیب و غریب شخصیت ہے۔ داماد کی حد درجہ اہمیت اور بہو کے بنیادی حقوق کی پامالی… یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے میں کئی مسائل کی جڑ ہے جس نے بے شمار گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ حقیقت میں یہ طرز فکر ہندوانہ ہے جس میں لڑکی کے والدین کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ افسوس یہ خیالات مسلمان معاشرے کا بھی حصہ بن گئے۔
اولاد کہیں بھی مقیم ہو، دور یا نزدیک بہرحال ہمیشہ دل کے پاس رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے۔ مگر بزرگ والدین کا اپنی محبت چھپائے رکھنا، اولاد اور اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔
حضور اکرمﷺ نے بھی اظہارِ محبت کی تلقین فرمائی ہے۔ آج کے مشینی دور میں والدین اپنے بچوں کو بھرپور شفقت و محبت نہیں دے پاتے البتہ دادا دادی اور نانا نانی کے پاس اتنی فرصت ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اولاد پر توجہ دے سکیں۔ کیا یہ بہترنہیں کہ وہ اپنے وقت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اگلی نسل کی اخلاقی و تعلیمی تربیت کرڈالیں۔
بزرگ والدین اظہارِ محبت کے سلسلے میں (حالات، صحت، ماحول، فاصلے) کے مطابق درج ذیل مختلف تدابیر اختیار کرکے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں سے تعلق بڑھا سکتے ہیں:
براہِ راست تعلق
بچوں سے براہ راست تعلق پیدا کرنے کی حسبِ ذیل صورتیں ہیں: اسکول سے لانا اور لے جانا، اسکول کے کام میں مدد، بچوں کے دوستوں میں دلچسپی، اسکول کے معمولات پر خوش دلی سے بات چیت، شام کو ہلکی پھلکی تفریح، ہفتہ وار مجلس، کارکردگی پر انعام (چاہے معمولی ہی ہو) بچوں کی باتیں توجہ سے سننا، حوصلہ افزائی، شاباشی دینا … یہ سب عمل محبت و شفقت کی بنیاد ہیں۔
دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون پر بات چیت، گاہے گاہے انھیں خطوط، ای میل، تصاویر بھیجنا اور ان سے خصوصی طور پر خط یا اپنے ہاتھ سے بنی تصویر کا تقاضا کرنا، دل قریب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیاء امانت سمجھ کر محفوظ رکھی جائیں تو بالغ ہونے پر یہی ان کے لیے لازوال اور سچی خوشی کا باعث بن جاتی ہیں۔
تحفے تحائف دینا
اس عظیم الشان عمل سے باہمی محبت پروان چڑھتی ہے۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر بطور تحفہ دی جائے تو سونے پر سہاگا ہے۔ خصوصاً وہ شے جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجائے کوئی شےخرید کر دینا ان کے دلوں میں بزرگ والدین کی قدرومنزلت بڑھا دیتی ہے۔
مشاغل میں دلچسپی
بچوں کے ساتھ مل کر تخلیقات عمل میں لائیے۔ مثلاً اگر آپ ترنم کے ساتھ گاسکتے ہوں، دستکاری، سلائی یالکڑی کا کوئی ہنر جانتے ہوں تو پیارے بچوں کو ایسے مشاغل سے روشناس کرائیے۔ ایسے مشاغل میں بچوں کو شریک کرنے سےان کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر بچے دور مقیم ہیں، تو جب بھی رابطہ ہو، ان کے ساتھ ہر ملاقات کو یادگار بنانے کا اہتمام کیجیے۔ ہفتہ وار، ماہانہ، ششماہی یا سالانہ، جب بھی ملاقات ہو ایسی سرگرمیاں اختیار کیجیے، کہ بچے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ دل ودماغ میں بھی بزرگ والدین کا نقش مضبوط اور حسین تر بناتے چلے جائیں۔
ذوقِ مطالعہ کی حوصلہ افزائی
بچوں کو کچھ پڑھ کر سنانا انتہائی دلچسپ عمل ہے۔ آپ انہیں کہانیوں کے ذریعے مثبت راہ پر چلنے کی ترغیب دیجیے۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی، نظم، بچوں کی مجلس یا بات چیت ریکارڈ کرکے بھیجئے، یا ویڈیو فلم بنالیں۔ بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کیجیے۔
شخصیت کی تعمیر
جب بھی موقع ملے بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلیں، مثلاً ان کے بنائے ہوئے گھروں میں مہمان بن کر جائیے، فٹ بال، لوڈو، کیرم اور دیگر اندرونِ خانہ کھیلوں میں شریک ہوئیے۔ بچوں میں ہار چیت کا صحیح تصور پیدا کیجیے، اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروں کی کامیابی پر خوش ہونے کی تربیت دیجیے۔
بچے چھوٹے ہوں یا بڑے، انھیں بولنے اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا بچے کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بول رہا ہو تو دوسرا دخل اندازی نہ کرے۔
بزرگ والدین کے علم میں ہونا چاہیے کہ کون سا بچہ کس قسم کے رجحانات رکھتا ہے۔ ایسا لائحہ عمل طے کیجیے کہ ہر بچہ آپ کو اپنا راز داں سمجھے۔ یقین کیجیے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے راز داں ساتھی بن گئے، ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کردیں گے۔
بیٹے بیٹی کے بچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ انھیں اپنے دکھوں کی داستان (اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے) سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں والدین کی عزت و توقیر بڑھانا آپ ہی کے لیے نافع ہے۔
بچوں کو ترجیحات کا سبق دینا بھی ایک اہم فریضہ ہے، یعنی کس وقت کون سا کام اہم ہے؟ اس فریضے میں نماز، قرآن، اسلامی ادب کی طرف توجہ دلانا، ان کی نگرانی کرنا، بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دینا جیسےامور شامل ہیں۔
گھریلو امور میں دلچسپی
اگر والدین اور بچوں کے مابین کوئی تنازع ہوجائے، (تعلیم، روزگار یا شادی کے سلسلے میں) تو بزرگ والدین کا فرض ہے کہ وہ غیر جانبداری سے حالات کا جائزہ لیں، بچے کا موقف ٹھنڈے دل و دماغ سے سنیں اور فریقین کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کریں۔
بچیوں سے خصوصی لگاؤ
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور انھیں شائستگی اور رکھ رکھاؤ سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ عمر کے مطابق بچیوں کے رجحانات کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ان کی جذباتی عمر ایک مضبوط اور بااعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ وہ قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت و شفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔