گھر کی صفائی ضروری ہے۔ گھر کے اچھے تاثر اور گھر والوں کی صحت کے لیے صاف ستھرا گھر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک خاتون کہتی ہیں کہ لوگ میرے گھر کی تعریف کرتے ہیں، مجھے سگھڑ قرار دیتے ہیں۔ لیکن گھر کے کاموں میں میرے شوہرکا حصہ صرف اتنا ہے کہ جب میں فرش کی صفائی کرتی ہوں تو وہ چند لمحوں کے لیے فرش سے اپنے پاؤں اٹھا لیتے ہیں تاکہ میں اس حصے کو بھی صاف کرلوں، اور میرے بیٹے کا تو یہ حال ہے کہ اس کے کمرے میں معمولی سی بھی بو آئے جو یقینا اس کی لاپراہی کا نتیجہ ہوتا ہے تو وہ گھر سر پر اٹھا لیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں سارا دن مصروف رہتی ہوں، اس پر بھی گھر کے کام ختم نہیں ہوتے۔
گھر کی صفائی کو ہر سمجھدار عورت اہم سمجھتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ گندا گھر خطرناک نہیں، بلکہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ گندگی کسی بھی نوعیت کی ہو، خطرناک امکانات رکھتی ہے۔ صاف ستھرا گھر صحت کی ضمانت ہے اور ہر عورت اپنے گھر والوں کو صحت مند رکھنا چاہتی ہے۔گھر کی صفائی کے لیے بازار میں مختلف اقسام کے کلینر دستیاب ہیں۔ ان کی تشہیر خواتین کو باور کراتی ہے کہ یہ صرف صفائی ہی نہیں کرتے بلکہ انتہائی مہلک جراثیم کو بھی ختم کردیتے ہیں۔ لیکن ان میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادے انسان کو بھی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔گھر کی صفائی یقینا ضروری ہے، لیکن تازہ ترین تحقیقات سے کچھ ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جو نظر انداز نہیں کی جانی چاہئیں۔
گھریلو کاموں کی شدت پچاس فیصد عورتوں میں کمر کے درد کا سبب بنتی ہے۔ زیادہ تر عورتیں اس کا سبب گھر کی صفائی اور بچوں کے بوجھ کو قرار دیتی ہیں۔ ایک گروپ کے مطابق وزن اٹھانا کمر کے درد کا سبب بنتا ہے۔ تحقیق کے مطابق عورتوں کی ایک تہائی تعداد گھر کے کاموں کے ساتھ بچوں کو قابو رکھنے کے چکر میں ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے۔ گھریلو صفائی کے موضوع پر کتاب لکھنے والی ماریا کیوان کا کہنا ہے کہ گھریلو کام ازدواجی زندگی پر سخت اثرات ڈالتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ مرد گھریلو کاموں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک گھر میں کام ہی کیا ہوتا ہے! اس کا احساس انہیں صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب گھر کی خواتین دو چار دن چھٹی کریں اور گھر کے سارے کام مرد کریں۔
متبادل اور بہتر صورت یہ ہے کہ ذمے داریوں میں گھر کے دوسرے افراد کو بھی شریک کیا جائے۔ گھر کی خاطر مردوں کو بھی اس ضمن میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
یہ کس طرح ممکن ہے…؟ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل باتیں رہنمائی فراہم کرتی ہیں:
٭ گھر کے ہر فرد سے کہیں کہ وہ گزشتہ ہفتے میں کیے ہوئے کاموں کی فہرست بنائے اور پھر آپ اپنی فہرست ان کے سامنے رکھ کر انہیں احساس دلائیں کہ کاموں کی تقسیم کس قدر غیر متوازن ہے۔ اس کے بعد مناسب طور پر کچھ کام دوسروں میں تقسیم کیے جائیں۔
٭ کچھ کاموں میں مثلاً صفائی، کپڑوں کی دھلائی میں دوسرے افراد کو شریک کیجیے اور اسے کام کے بجائے ایک دلچسپ مصروفیت بنائیں۔ اس طرح کام بھی ہوجائے گا اور تھکن یا بیزاری کا احساس بھی نہیں ہوگا۔
٭ کام کے دوران وقفہ بھی دیجیے۔ کام کو چھوٹے چھوٹے مراحل میں بانٹ لیجیے۔
٭ بچوں کی لاپرواہی پر انہیں سرزنش کیجیے۔ بچوں کا کپڑے، جوتے وغیرہ ادھر ادھر پھینکنا نظر انداز نہ کریں، کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو انہیں لاپروائی کے نقصان کا احساس دلائے۔
٭ دوسروں کے ہاتھ بٹانے پر ان کا شکریہ ادا کریں اور اپنی ممنونیت کا احساس دلائیں۔
٭ گھر والے تعاون نہ کریں تو احتجاجاً ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کا نظر انداز کردیں۔ ان کے کاموں کو دوچار دن ہاتھ نہ لگائیں۔
٭ صفائی کے خبط میں مبتلا نہ ہوں۔ ہر بار بیڈ کے نیچے یا الماری کے کونوں کی صفائی ضروری نہیں۔ گھر کی مکمل صفائی کے لیے ایک، دو یا پھر تین ہفتوںمیں ایک بار وقت مقرر کریں اور اس کام میں گھر کے سارے افراد کو شریک کرکے ’’صفائی مہم‘‘ پوری کریں۔
٭ بچوں کو جو بھی کام سونپیں، ان کے لیے بوجھ نہ بنائیں۔ کاموں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹیں۔ صفائی کے لیے کمرا گندا ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ بکھرے ہوئے کھلونے یا کپڑے دیکھتے ہی بچوں کو حکم دیں کہ وہ فوراً کھلونے الماری میں یا کپڑے واشنگ مشین میں رکھ دیں۔
٭ اگر ممکن ہو تو گھر کی صفائی یا کپڑے دھونے کے لیے جز وقتی ملازمہ کی خدمات حاصل کریں۔
٭ گھروالوں کو کاموں میں ہاتھ بٹانے پر مائل کرنے کے لیے ان کی پسندیدہ ڈشز یا چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کی تکمیل، کاموں سے مشروط کریں اور اپنے وعدوں کو پورا ضرور کریں۔
——