گیا سال2011ء

شمشاد حسین فلاحی

 

۲۰۱۱ء اب ختم ہونے کو ہے۔ اور جب تک یہ شمارہ قارئین تک پہنچے گا، نیا سال شروع ہوچکا ہوگایا ہونے والا ہوگا۔ اس سال میں دنیا نے کافی تبدیلیاں دیکھیں۔ عرب دنیا کا وہ انقلاب جو تیونس سے شروع ہوا تھا ایک ہی سال بلکہ چند مہینوں میں ہی نصف سے زائد عرب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ اس انقلاب نے کئی جابر حکمرانوں کے تخت الٹ دیے اور کیا معلوم کس کس کے تخت اور الٹنے باقی ہیں۔ اس عوامی تحریک اور عوامی انقلاب نے حسنی مبارک، کرنل قذافی اور یمن کے علی عبداللہ صالح کو کنارے لگا دیا۔ اس انقلاب نے ہزاروں سے بھی زائد انسانوں کی جانیں لیں اور بڑی تعداد میں خاندان ویران و تباہ و برباد ہوئے۔ اس اعتبار سے یہ سال عرب دنیا کے لیے ناقابلِ تصور سیاسی اتھل پتھل اور خون خرابے کا سال رہا۔
اس سال مغربی دنیا کو بھی کچھ خاص سکون فراہم نہ رہا۔ جنگ کے جال میں پھڑکتے امریکہ کی شہ رگ تک کٹتے کٹتے بچی۔ کئی مغربی ممالک اپنے مالی نظام کی ناکامی کے سبب دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکے ہیں اور یوروپین یونین اس مالی بحران سے نکلنے کے لیے پیچ و تاب کھارہی ہے۔
مغربی دنیا اور اس کے ساتھ ہی مشرقی دنیا کے عوام مالی و تجارتی مسائل میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اس سال کی نصف مدت گزرتے گزرتے ان کے صبر و تحمل کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ بھی عرب دنیا کی طرح جو جابر حکمرانوں کی سیاسی غلامی سے آزادی کی خواہش میں سڑکوں پر نکل آئی تھی، مغربی حکمرانوں اور ان کے وضع کردہ مالی نظام کی غلامی سے آزادی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ کے نعرے کے ساتھ جب مغرب کے عوام سڑکوں پر اترے، اور ابھی بھی وہیں ہیں، تو پورے مغرب کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے اپنے مالی نظام کی ناکامیوں کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ مہم نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب وہاں کے حکمراں عوام کو تسلیاں دینے اور اصلاحات کے نام پر نئی امیدوں کے جال میں پھنسانے کی بھرپور جدوجہد کررہے ہیں۔
وہ اپنی اس کوشش میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں یہ ابھی تک واضح نہیں اور جب یہ واضح نہیں تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مغرب کے عوام کامیابی کی کس منزل تک پہنچ پائے ہیں، برخلاف عرب دنیا کے جنھوں نے اپنی جدوجہد کی کامیابی کی پہلی منزل جابر حکمرانوں کو کنارے لگاکر حاصل کرلی۔ البتہ دونوں کے لیے یہ بات مشترکہ طور پر چیلجنگ ہے کہ آگے آنے والے حالات کس رخ پر جائیں گے اور وہ حقیقی کامیابی تک پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔
یہ سال ہندوستان کے لیے بھی سیاسی اعتبار سے کافی اہم رہا ہے۔ سال کے بالکل ابتدائی دنوں میں کرپشن کے خلاف شروع ہونے والی انّا ہزارے کی کرپشن مخالف مہم نے سال بھر حکومت و اقتدار کو چین کی نیند سے محروم رکھا۔ ’لوک پال بل‘ کے ہٹ دھرمانہ نعرے کو لے کر چلنے والی اس مہم کا کچھ فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اتنا ضرور ہے کہ اس مہم کے ذریعہ ایک تو عوام میں سیاست دانوں کے کرپشن کو لے کر بیداری دیکھنے میں آئی اور کرپشن کی تہیں کھلنے لگیں۔ دوسرے اس مہم کے ذریعہ غیر متوقع طور پر عوام کو یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کرپشن کی دلدل میں کون کس قدر ڈوبا ہوا ہے۔ چنانچہ جو لوگ کرپشن کے خلاف مہم چلارہے تھے ان کے کرپشن کی بھی کچھ نہ کچھ باتیں عوام کو ضرور معلوم ہوگئیں ۔
لال نہیں ہے کس کا منھ اس دورِ خوں خواری میں
جس کے جیسے بازو ہیں، ویسی ہی اس کی پرواز
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سنگھی برادری جو درپردہ اس پوری مہم کی سرپرستی کررہی تھی اس تحریک کو سیاسی رخ دینے سے بچانے کی پوری کوشش کے باوجود عوام کو یہ باور کرانے میں ناکام رہی کہ اس مہم کے مقاصد سیاسی نہیں ہیں۔ اور اب جبکہ انّا ہزارے اپنے پورے سال کی کوششوں کے آخری مرحلے میں ہیں، یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ لوگ جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں، انھیں پارلیمنٹ اور قانون کے احترام کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس مشورے کا ایک مطلب تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اس ملک میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ بھی اخذ کیا جارہا ہے کہ وہ اس موضوع پر حکومت سے مصالحت کرنے پر مجبور ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ اس حمام میں ان کے جسموں پر بھی اتنا ہی لباس ہے، جتنا برسرِ اقتدار افراد کے جسموں پر۔ جو کچھ بھی ہو ہندوستان کے لیے کرپشن سے نجات کی منزل دور ہی نظر آتی ہے۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ ابھی مخلص اور حقیقت میں صاف ستھرے لوگ اس مہم میں کہیں نظر نہیں آتے۔
مشرق و مغرب ہی کیا، دنیا بھر میں واقع ہونے والے ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی روداد الم سنا رہا ہے۔ عرب دنیا جابر حکمرانوں کے جبر میں بے چین تھی، اور کچھ ہے، تو مغرب غیر مساویانہ مالی نظام کے جبر سے پریشان تھا اور ہے۔ اسی طرح ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہاں سیاست میں ایمان داری اور دیانت داری کو راستہ ملنا چاہیے۔ یہ راستہ کیسے ملے گا اور وہ راستہ کونسا ہوگا یہ ابھی تک نہ واضح ہے اور نہ شاید واضح ہوسکے گا۔ اس لیے کہ وہ جس عقیدے اور اخلاقی نظام کے تابع زندگی گزار رہے ہیں، اس میں کسی مطلق (Ultimate)قوت کے سامنے جواب دہی کا تصور مفقود ہے اور یہ تصور صرف اور صرف اسلام اور اس کے ماننے والے لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔
عرب دنیا کے انقلابات نے بھی سب سے بڑا چیلنج اسلام پسند قوتوں کے سامنے کھڑا کیا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ مابعد انقلاب (Post Revolution)صورت حال سے کس حکمت و دانائی کے ساتھ نبرد آزما ہوتی ہیں۔ اس میں ذرا سی چوک بھی ایک طرف تو انھیں حاشیے پر دھکیل سکتی ہے، دوسری طرف مغربی قوتوں کے لیے نئے راستے فراہم کرسکتی ہے۔
جہاں تک مغربی دنیا کا موجودہ معاشی نظام کے خلاف کھڑے ہونے کا تعلق ہے تو وہ بھی دراصل اسلام پسند طاقتوں کے لیے چیلنج ہے، وہ اس طرح کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اسلام کے عادلانہ معاشی و مالی نظام کو مغرب کے سامنے متبادل کے طور پر پیش کرپاتے ہیں یا نہیں۔ ایسی صورت میں تو یہ خاص طور پر بڑا چیلنج ہے کہ خود مغربی دنیا اسلام جیسے معاشی ومالی نظام کا بہ زبان خود مطالبہ کررہی ہے۔
یہ پوری صورتِ حال علامہ اقبال کی زبان میں ساری دنیا کے مسلمانوں سے مطالبہ کررہی ہے کہ
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اور
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

شمشاد حسین فلاحی

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں