ہاراشٹر پولیس کا اظہارِ حقیقت —کانگریس کی مسلم ووٹ پالیسی

شمشاد حسین فلاحی

اس وقت ملک میں عجیب و غریب صورتحال ہے۔ ایک طرف تو ٹھاکرے خاندان ممبئی کو ’غیر ممبائی کروں‘ سے پاک اور ’بہاریوں اور بھیا لوگوں‘ سے خالی کرانے کے کھلی جارحیت پر اتر آئے ہیں ۔ دوسری طرف بم دھماکوں کے خوف نے پورے ملک خصوصاً مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔دہلی، گجرات، مہاراشٹر اور آسام کے بم دھماکوں نے ملک کے عام شہریوں میں جہاں بے چینی پیدا کردی ہے وہیں مسلمانوں کو ہراساں کردیا ہے کیونکہ ملک کے ارباب اقتدار کو ہر بم دھماکے کے پیچھے مسلم نوجوان ہی ماسٹر مائنڈ نظر آتے ہیں۔
اب تک تمام بم دھماکوں کے لیے نام نہاد ’انڈین مجاہدین‘ جیسی غیر معلوم تنظیموں کا نام بتاکر پولیس مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں بند کرنے، حراساں کرنے اور ان کے کیریر کو تباہ و برباد کرنے میں لگی تھی اور لگی ہے لیکن مہاراشٹر پولیس کے ذریعے اس انکشاف نے کہ موڈاسا اور مالیگاؤں بم دھماکے کرانے میں سنگھ پریوار کا ہاتھ ہے کچھ لوگوں کو حریت زدہ اور کچھ لوگوں کو یقینا پریشانی میںڈال دیا۔
حیرت ان لوگوں کو ہے جو اب تک صرف مسلم تنظیموں کے ہی نام سنتے آئے تھے اور انہی کو موردِ الزام اور ماسٹر مائنڈ بتاکر زینتِ زنداں بنایا جاتا تھا۔ اب یہ لوگ اس بات پر حیران ہیں کہ مہاراشٹر پولیس نے حقیقت کا اظہار کیسے کردیا۔ پریشانی ان لوگوں کو ہے جن کے چہرے اس انکشاف سے بے نقاب ہوئے ہیں۔ چنانچہ پورا سنگھ پریوار ان لوگوں کے دفاع میں اٹھ کھڑا ہوا جن کے خلاف ٹھوس اور واضح ثبوت موجود ہیں۔
ملک کے باشعور افراد کے لیے یہ زیادہ حیرت، کی بات نہیں البتہ تشویش اور پریشانی کی بات ضرور ہے کہ محب وطن ہونے کا دعوی کرنے والے اس طرح بھی ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں جو لوگ سنگھ پریوار، ان کی سیاست، فکر اور پالیسی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے یہاں یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔ پریشانی اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اس میں ملک کے باوقار ادارے، فوج سے وابستہ رہے افراد بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اس ادارے کے عزت و وقار اور اس کی شبیہ پر بٹہ لگاتے ہوئے آرمی ٹریننگ سینٹر کا ناجائز استعمال بھی کیا ہے۔ اس تناظر میں پونے کی ہائی سیکیورٹی آرڈی نینس فیکٹری سے ایمونیشن اور بارود کی چوری و اسمگلنگ وہ تشویشناک خبریں ہیں جنھیں پڑھ کر ہر محب وطن شہری شرمندہ بھی ہوتا ہے اور پریشان بھی۔
سادھوی پرگیا اور ریٹائرڈ فوجی افسر کی اس سلسلہ میں گرفتاری کے بعد واقعات و انکشافات جو سلسلہ چلا ہے اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ملک کے امن و امان کو بگاڑنے والے کون لوگ ہیں اور ان کی رسائی کہاں تک ہے۔
مہاراشٹر پولیس نے سادھوی پرگیا اور اس کے ساتھیوں کے موڈاسا اور مالیگاؤں کے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی خبر دے کر اہلِ وطن کے سامنے حقیقت میں کوئی ’انکشاف‘ نہیں کیا۔ البتہ اس حقیقت کا اظہار کرکے ایک طرف تو مسلمانوں کے سلسلے میں جاری سیاسی ناپ تول کے پاسنگ کو برابر کیا ہے، دوسری طرف کانگریس پارٹی کو انتخابی فائدہ حاصل کرنے میں مدد دی ہے، جو یقینا اسی ماہ ہونے والے ریاستی انتخابات میں اسے حاصل ہوگا۔
٭٭٭
ایک قریبی مختصر عرصے کو چھوڑ کر کانگریس ہی آزادی سے اب تک ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض اور یہاں کے سیاہ سفید کی مالک رہی ہے۔ ان ساٹھ سالوں سے بھی کچھ زیادہ عرصے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس نے وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ایک ایسی بے در کی دیوار کی طرف دھکیلنے کی مسلسل کوشش کی ہے جس سے فرار ان کے لیے ممکن نہ ہو۔
NDAکے دورِ حکومت میں جب مسلمانوں نے اپنا دم گھٹتا محسوس کیا تو کانگریس کو نجات دہندہ کے طور پر اختیار کیا اور مسلم تنظیموں نے فسطائی طاقتوں کے مقابلے کانگریس کے ’سیکولر‘ امیدواروں کو جتانے کی کوشش کی اور پھر وہ مرکز میں دوبارہ برسرِ اقتدار آگئی۔ مگر مسلمانوں کو اس پورے چار سالہ دور میں ملی ’’سچر کمیٹی کی رپورٹ‘‘ جس کا مرثیہ آج تک ہم پڑھ رہے ہیں، اور اقتدار میں شرکت کے نام پر کچھ وزارتیں، ان وزارتوں کے قلم دانوں کی نوعیت، اقلیتی امور کی انجام دہی اور عرب و مسلم دنیا کے حکمرانوں کی تقریبات رنج و خوشی میں شرکت کرنے کے لیے کسی مناسب فرد کی فراہمی – لیکن ان مسلم ورزاء میں کوئی اس بات کی جرأت نہیں کرسکتا کہ وہ وزیر داخلہ، وزیرِ اعظم یا یوپی اے کی چیئر پرسن محترمہ سونیا گاندھی سے یہ پوچھ سکے کہ بٹلہ ہاؤس کا معاملہ کیا ہے اور یہ کہ اعظم گڑھ کو ’آتنک گڑھ‘ بناکر کیوں پیش کیا جارہا ہے اور مسلم نوجوانوں کو پولیس کیوں اغوا کرنے میں لگی ہے۔ ان کی اسی بے وقعتی کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی جوڈیشیل انکوائری آج تک نہیں شروع ہوئی بلکہ وزیر اعظم من موہن سنگھ جیسے سیکولر اور بے داغ شبیہ رکھنے والے با اختیار آدمی نے معاملہ کی انکوائری کرانے سے بالکل صاف اور دو ٹوک الفاظ میں انکار کردیا،جبکہ ممبئی کی بس میں گولی چلانے والے بہاری نوجوان کے پولیس انکاؤنٹر کی انکوائری کو منظور کرلیا گیا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سارے کام سیاسی مفاد اور ووٹ فیکٹر کو سامنے رکھ کر انجام دیے جاتے ہیں۔ اور بہت جلد ملک کی کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے۔ لیکن اس کے باوجود ’تلافی نقصان‘ (ڈیمج کنٹرول) کے لیے محض سیاسی بیان بازی سے ایک قدم بھی بات آگے نہیں بڑھی۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب کانگریس کے خیال میں اسے مسلم ووٹ سے زیادہ ہندو ووٹ کی فکر ہے اور وہ پرگیا معاملہ سے فائدہ اٹھا کر اس ووٹ بینک کو کھینچنا چاہتی ہے جو کسی بھی صورت میں بی جے پی کا ہوسکتا تھا۔ رہی بات مسلم ووٹ بینک کی تو وہ سمجھ رہی ہے کہ مسلمانوں کے راستے تو اس نے بند کرہی دیے ہیں وہ جائیں گے تو جائیں گے کہاں۔ چنانچہ اس کی کوشش یہ ہے کہ وہ مسلم ووٹ کو پوری طرح بے اثر بنادے۔
اس وقت مرکز میں کانگریس برسرِ اقتدار ہے اور ریاستوں میں چند ایک کو چھوڑکر ہرجگہ سے وہ صاف ہوچکی ہے۔ ایسے میں اس کی فکر یہ ہوگی کہ وہ ریاستوں میں اپنے لیے جگہ بنائے۔ اور اس کے ریاستی پالیسی زیادہ اہم نظر آتی ہے۔ چنانچہ مسلم ووٹ کے سلسلے میں وہ یہ سمجھ رہی ہے کہ بی جے پی کو جانہیں سکتا کانگریس کو نہ آئے تو کیا ہوا علاقائی پارٹیوں کو جائے گا اور بھلا ہو اتحاد کی سیاست کاکہ جو علاقائی پارٹیاں مسلمانوں کا ووٹ لے کر آئیں گی وہ وہ کانگریس کی چھتر چھایا ہی میں رہیں گی اور اس طرح بالواسطہ طور پر مسلم ووٹ کانگریس ہی کے حق میں آئے گا۔
یہ وہ کانگریسی پالیسی ہے جسے ہم ’’مسلم ووٹ آوٹ سورسنگ پالیسی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ اور یہ مسلم ووٹ کو غیر مؤثر بنانے اور بلا کسی بارگیننگ کے استحصال کرنے کی بہترین شکل ہے جسے مسلم ملت کو سمجھنا چاہیے۔ اگلے ماہ ہونے والے ریاستی انتخابات کانگریس کے لیے وقت کی نبض کے مانند ہوں گے، جسے پڑھ کر اگلے سالے کے اوائل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی پالیسی طے کی جائے گی۔
ایسے میں کیا ملک کے مسلم دانشوران، قائدین اور ملی تنظیمیں پرانی سیاسی وابستگیوں اور محدود مفادات کے حصول کی فکر سے اوپر اٹھ کر ان ریاستی انتخابات میں کوئی ٹھوس لائحۂ عمل بناکر کانگریس کے استحصالی نظریہ رکھنے والوں کو کوئی سبق دے سکیں گی یا مسلم ووٹ کو بارگیننگ پوزیشن میں لانے کی فکر کریں گی۔ یہ بڑا سوال ہے اور اس سوال کا صحیح جواب آئندہ پانچ سالوں کے لیے ان کے سکون و اطمینان کی کیفیت کی ضمانت بن سکے گا۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146