آں حضرت جب مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر ایک شخص بھی مسلم نہ تھا۔ آپؐ نے اپنی دعوت دنیا کے سامنے پیش کی اور آہستہ آہستہ متفرق طور پر ایک ایک، دودو، چار چار آدمی مسلمان ہوتے چلے گئے۔ یہ لوگ اگرچہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان رکھتے تھے اور ایسی جاں نثاری ان کو اسلام کے ساتھ تھی کہ دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ مگر چونکہ متفرق تھے، کفار کے درمیان گھرے ہوئے تھے، بے بس اور مجبور تھے، اس لیے اپنے ماحول سے لڑتے لڑتے ان کے بازو شل ہوجاتے تھے اور پھر بھی وہ ان حالات کو نہ بدل سکتے تھے، جن کو بدلنے کے لیے وہ اور ان کے ہادی و مرشد رسول اللہ ﷺ کوشش فرما رہے تھے۔ تیرہ سال تک حضورﷺ اسی طرح جدوجہد کرتے رہے۔ اس مدت میں سرفروش اہلِ ایمان کی ایک مٹھی بھر جماعت آپؐ نے فراہم کرلی۔ اس کے بعد اللہ نے دوسری تدبیر کی طرف آپ کو ہدایت فرمائی۔ اور وہ یہ تھی کہ ان سرفروشوں کو لے کر کفر کے ماحول سے نکل جائیں۔ ایک جگہ اُن کو جمع کرکے اسلامی ماحول پیدا کریں۔ اسلام کا ایک گھر بنائیں جہاں اسلامی زندگی کا پورا پروگرام نافذ ہو، ایک مرکز بنائیں جہاں مسلمانوں میں اجتماعی طاقت پیدا ہو، ایک ایسا پاور ہاؤس بنادیں جس میں تمام برقی طاقت ایک جگہ جمع ہوجائے اور پھر ایک منضبط طریقے سے وہ پھیلنی شروع ہو۔ یہاں تک کہ زمین کا گوشہ گوشہ اس سے منور ہوجائے۔ مدینہ طیبہ کی جانب، آپؐ کی ہجرت اسی مقصد کے لیے تھی۔ تمام مسلمان جو عرب کے مختلف قبیلوں میں منتشر تھے، ان سب کو حکم دیا گیا کہ سمٹ کر اس مرکز پر جمع ہوجائیں۔ یہاں اسلام کو عملی صورت میں نافذ کرکے بتایا گیا۔ اس پاک ماحول میں پوری جماعت کو اسلامی زندگی کی ایسی تربیت دی گئی کہ اس جماعت کا ہر شخص ایک چلتا پھرتا اسلام بن گیا۔ جسے دیکھ لینا ہی یہ معلوم کرنے کے لیے کافی تھا کہ اسلام کیا ہے اور کس لیے آیا ہے۔ ان پر اللہ کا رنگ اتنا گہرا چڑھ گیا کہ وہ جدھر جاتے، دوسروں کا رنگ قبول کرنے کے بجائے اپنا رنگ دوسروں پر چڑھا دیتے۔ ان میں کیرکٹر کی اتنی طاقت پیدا ہوگئی کہ وہ کسی سے مغلوب نہ ہوں۔ اور جو اُن کے مقابلے میں آئے وہ ان سے مغلوب ہوکر رہ جائے۔ ان کی رگ رگ میں اسلامی زندگی کا نصب العین اس قدر پیوست کردیا گیا کہ زندگی کے ہر عمل میں وہ مقدم ہو اور باقی تمام اغراض ثانوی درجہ میں ہوں۔ ان کو تعلیم اور تربیت دونوں کے ذریعے اس قابل بنادیا گیا کہ جہاں جائیں زندگی کے اسی پروگرام کو نافذ کرکے چھوڑیں۔ جو قرآن و سنت نے انہیں دیا ہے اور ہر قسم کے بگڑے ہوئے حالات کو بدل کر اسی کے مطابق ڈھال لیں۔
یہ حیرت انگیز تنظیم تھی جو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہ کے ذریعے بنائی تھی۔ اس کا ایک ایک جز گہرے مطالعہ اور غوروفکر کا مستحق ہے۔ اس تنظیم کو چار بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
۱- ایک گروہ ایسے لوگوں کا تیار کیا جائے جو دین میں تفقہ حاصل کریں اور جن میں یہ استعداد ہو کہ لوگوں کو دین اور اس کے احکام بہترین طریقے پر سمجھا سکیں۔
فلولا نفر من کل فرقۃ منہم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم۔ (التوبۃ:۱۲۲)
۲- کچھ لوگ ایسے تیار کیے جائیں جن کی زندگیاں اسلام کے نظامِ عمل کو قائم کرنے اور پھیلانے کی سعی و جہد کے لیے وقف ہوں۔ جماعت کا فرض ہے کہ ان کو کسبِ معیشت سے بے نیاز کردے، لیکن خود انہیں اس کی پروا نہ ہونی چاہیے، چاہے معیشت کا کوئی انتظام ہو یا نہ ہو، بہرحال وہ اپنے دل کی لگن سے مجبور ہوں اور ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کرکے اس کام میں لگے رہیں، جو اُن کی زندگی کا واحد نصب العین ہے:
ولتکن منکم امّۃ یدعون الی الخیر ویأمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر۔ (آل عمران:۱۰۴)
۳- پوری جماعت میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہر ہر شخص اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھے، وہ اپنے دنیا کے کاروبار چلاتا ہے مگر ہر کام میں یہ مقصد اس کے سامنے ہو۔ تاجر اپنی تجارت میں، کسان اپنی زراعت میں، صناع اپنے پیشے کے کام میں اور ملازم اپنی ملازمت میں اس مقصد کو نہ بھولے۔ وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ یہ سب کام جینے کے ہیں اور جینا اس کام کے لیے ہے۔ وہ زندگی کے جس دائرے میں بھی کام کرے اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق اور معاملات میں اسلام کے اصول کی پابندی کرے اور جہاں دنیوی فوائد میں اور اسلام کے اصول میں ٹکراؤ واقع ہوجائے وہاں فوائد پر لات ماردے اور اصول کو ہاتھ دے کر اسلام کی عزت پر بٹّہ نہ لگائے۔ پھر وہ جتنا مال اور جتنا وقت اپنی ذاتی ضروریات سے بچاسکتا ہو اس کو اسلام کی خدمت میں صرف کردے اور ان لوگوں کا ہاتھ بٹائے جنھوں نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کی ہیں:
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللّٰہ۔ (آل عمران:۱۱۰)
۴- باہر کے لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ دارالاسلام میں آئیں اور ایسے ماحول میں رہ کر کلام اللہ کا مطالعہ کریں جہاں کی ساری زندگی اس کلام پاک کی عملی تفسیر ہو، کفر کے ماحول کی بہ نسبت اسلام کے ماحول میں وہ قرآن زیادہ بہتر سمجھیں گے اور زیادہ گہرا اثر لے کر واپس جائیں گے:
وإن احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام اللّٰہ ثم ابلغہ مأمنہ۔ (التوبۃ:۶)
اس طرح صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں دنیا کے اس سب سے بڑے ہادی ، رہ بر نے مدینہ کے پاور ہاؤس میں اتنی زبردست طاقت بھردی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سارے عرب کو منور کردیا اور پھر عرب سے نکل کر اس کی روشنی روئے زمین پر پھیل گئی۔ حتیّٰ کہ آج چودہ سو برس گزرچکے ہیں مگر وہ پاور ہاؤس اب بھی طاقت کے خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔ جو لوگ اسلام کی سربلندی اور اس کے پیغام کو انسانوں تک پہنچانے کا جذبہ اور لگن رکھتے ہیں ان کے لیے اس واقعہ میں آج بھی طاقت وانرجی کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اس واقعۂ ہجرت پر غور وفکر کریں اور اللہ کے رسول اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں سے حوصلہ لیتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اللہ تعالیٰ یقینا ہماری مدد کرے گا اور ہم اس کے دین کی کچھ خدمت کرسکیں گے۔