ہدف

رفیع الدین ہاشمی

یہ بہت دِنوں کا ذکر ہے:
اس روزہم بہت سے دوست قریبی دریاپر پکنک منانے گئے تھے—شہرکے اکثرلوگ چھٹی کے دن تفریح کے لیے وہیںجایاکرتے تھے۔طالب علموں کی پارٹیاں بھی برسات کے دنوں میں وہیں ہنگامے کیا کرتیں۔دریااس مقام سے ایک خوبصورت نیم دائرہ سابناتے ہوئے بائیں سمت کومڑگیاتھا۔اس کے جنوب مشرقی سمت،دریاکے کنارے سرسبز گھاس کا ایک وسیع وعریض قطعہ پھیلاہواتھا۔ہم نے اس روز یہیں پڑائوڈال رکھاتھا۔
دریامیں دوردورتک کشتی رانی اورکھیل کود اور دھینگامشتی کے بعد تھک ہارکرہم نے تھوڑے سے وقفے کے بعد کھاناکھایااورآرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔
کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد بے اختیار ہوکر میں اُٹھ بیٹھااوردریاکے کنارے کنارے مشرقی سمت چلنے لگا۔سہ پہرکاوقت تھا۔ہلکی ہلکی ہواچل رہی تھی۔ اس نے میری بوجھل پلکوںکو ٹھنڈک پہنچاکر غنودگی کو بھگادیاتھا۔
میںچلتاگیا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ریت۔دریاکی اُچھلتی کودتی،ایک دوسرے سے دست بگریباں لہریں —دریاکے اس پارکوئی دس بارہ کوس پر پہاڑوںکی چوٹیاں صاف نظرآرہی تھیں۔ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔میںدریاکے عین کنارے ایک ریتیلی جگہ بیٹھ گیا۔
اس وقت میرادل مسرت سے لبریزتھا۔ تنہائی میںاگر ایساپیارا ماحول میسرآجائے توپھرروح کے سارے پردے ایک ایک کرکے اُترجاتے ہیں۔ روح کسی اُچھلتے کودتے بچے کی طرح مچلتی اورقہقہے لگاتی پھرتی ہے۔دل کے کنول کھل اُٹھتے ہیں۔جسم ہلکاپھلکا محسوس ہوتاہے۔یوں معلوم ہوتاہے۔جیسے فطرت اپنی ساری خوشیاں آج ہی لٹادینے کوتیارہے اورکائنات اپنی ساری رعنائیوں سمیت مسکرارہی ہے۔کچھ یہی کیفیت مجھ پر اس وقت طاری تھی۔
میںدریا کے کنارے بیٹھا ہوا آہستہ آہستہ ریت کی مٹھیاں بھربھرکر دریاکی سطح پر پھینکنے لگا۔ ریت مٹھی سے نکلتے ہی سطح آب پر بکھرجاتی اور فوراً دریاکی تہہ میںچلی جاتی،جیسے سطح پر کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ زور سے آئی ہوئی کوئی لہرریت کو نہایت تیزی کے ساتھ اپنی رو میں بہاکرلے جاتی۔
اس وقت میرے دل پرمسرت وبہجت کی وہ کیفیت طاری تھی جسے محاورے کی زبان میں بلیوں اُچھلناکہتے ہیں۔غم دوجہاںسے بے نیاز۔فطرت کی گودمیںایک شوخ اورچنچل بچے کی طرح گدکڑی بھرتا پھرتاتھا۔میںاس کی یہ کیفیت دیکھ کر آہستہ سے مسکرایا۔
میںنے دل سے کہا:’’بہت خوش نظرآتے ہو؟‘‘
’’ہاں،اس نے ہنستے ہوئے اس انداز میں جواب دیاجیسے کہہ رہاہو۔‘‘اچھا ہے جو خوش ہوں۔تم مجھ سے جلتے ہو۔‘‘
اچانک میرے ذہن میںایک خیال کوندے کی طرح لپکا۔
میںنے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا:’’اچھا۔دیکھوفرض کروکہ تمھیں اس وقت یہ خبرملے کہ اباجان ایک حادثے کا شکارہوگئے ہیںتوتمہاری یہ شوخی اسی طرح قائم رہے گی؟‘‘
یہ سوال کرکے میں نے اس کی طرف فاتحانہ اندازمیںدیکھا۔وہ تھوڑی دیرسوچ میں پڑگیا۔ اور پھر کہنے لگا’’ہاں‘‘اورپھر جیسے اس نے ایک زوردارقہقہہ لگایااورایک طرف کو بھاگ گیاہو۔
اب میں نے دوسراسوال کیا۔’’جوامی کے مرنے کی خبرپہنچے صاحبزادے کو——توپھر؟‘‘
’’کچھ نہیںکچھ نہیں۔‘‘جیسے ایک شوخ وشنگ،کھیل کود کی ترنگ میںمست بچے نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
اب میں نے بھائی بہنوں،نانی،اماں اور دوسرے قریبی عزیزوںکے بارے میں اسی طرح کے سوال کرنا شروع کیے لیکن وہ کسی کی موت کو خاطر میں ہی نہ لاتاتھا۔اس کے اُچھلنے،کودنے اورجواب دینے کا انداز کچھ ایساتھاجیسے کہہ رہا ہو’’میراکچھ نہیں بگڑتااس سے۔۔۔ میںتمہاری ان دھمکیوں سے ہرگزمرعوب نہیں ہوں گا۔‘‘
اچانک میرے ذہن میںخیال کی ایک اور پھلجھڑی چھوٹی۔
میںنے سوچا—اچھا،صاحبزادے اب بچ کر کہاںجائوگے—
میںسنجیدہ ہوگیا۔اسے پیارسے اپنے پاس بلایا—اب کے میںنے پھروہی سوال دُہرایا—ہاں تو تم کہانی سن رہے ہونا؟—تومیںکہہ رہاتھاکہ میں نے پھروہی سوال دُہرایالیکن اس میںکسی عزیزیارشتہ دار کا نام لینے کی بجائے چپکے سے تمہارانام لے دیا۔
شوخ وشنگ بچہ اچانک غائب ہوگیااوراس کی مسکراہٹ اورقہقہے بھی—تب میںنے محسوس کیاکہ دریاکاپانی سکون سے بہے جارہاہے لیکن میری پلکوںپرنمی تیرگئی۔
نمکین قطرے ریت میںجذب ہورہے تھے۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146