ہماری بچیوں کے لباس

توقیر عائشہ

کئی دن سے متواتربازار جانا پڑ رہا تھا، وہ بھی بھری دوپہر میں۔ سبب کزن کی شادی کی تیاری میں خالہ جان کا ہاتھ بٹانا تھا۔ دوپہر میں جانے کا انتخاب یوں کیا کہ اس وقت دکاندار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوتے ہیں اور توجہ سے بات کو سن لیتے ہیں۔ یوں خریداری اطمینان بخش طریقے سے ہوجاتی ہے۔ سو ہم خالہ، بھانجی، چار بجے کے قریب نکلتے۔ راستے میں فالسے والے ملتے، ٹن ٹن کرتے قلفی اور گولے گنڈے والے ملتے۔ باقی تو سب گھر بند کیے ’’آرام‘‘ کررہے ہوتے۔ بس ایک ہی ننھی مخلوق دیکھی جو بھری دوپہری میں وزنی بستے پیٹھ پر لادے دو دو، چار چار کی ٹولی میں اس گلی سے نکل کر اُس گلی میں ہنستی بولتی چلی جارہی ہوتی۔
یہ منظر روزانہ ہی دیکھنے میں آتا کہ نرسری سے لے کر مڈل کلاسوں تک کے بچے جھکی کمروں کے ساتھ ٹیوشن پڑھنے گھروں سے نکلتے ہوئے یا کچھ بچے بچیاں سپارے ہاتھ میں لیے مدرسوں کی طرف جارہے ہوتے۔ ہم بچوں کے بارے میں باتیں کرتے جاتے اور رحم بھی کھاتے جاتے۔
ایک چیز جو مشاہدے میں آئی وہ ایسی تھی کہ جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ وہ تھے ان کے لباس۔ اکثر بچیاں موٹی موٹی جینز کی پتلونوں میں پھنسی ہوئی اوپربغیر آستین کی بنیان جیسی چھوٹی سی قمیص یا صرف کندھوں کے اسٹیپ پر مشتمل نیٹ کے فراک پہنے ہوتیں اور مدرسے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسی پر ایک دھجی نما دوپٹہ بھی گردن پر پڑا ہوتا۔ ورزنی بیگ اٹھانے میں بچے جھکے پڑتے اور پیچھے سے قمیص اٹھ جاتیں۔ یہ ہمارا پہناوا تو نہیں… اور اس قدر کھلا لباس موسم سے مطابقت بھی تو نہیں رکھتا۔
اب ذرا اس جگہ جاکر دیکھئے جہاں یہ ٹیوشن پڑھنے بیٹھتے ہیں۔ اکثر گھروں میں فرشی نشست ہوتی ہے، جہاں محلے کے کئی گھروں کے بچے اکٹھے بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ اس پھنسی ہوئی جینز میں زمین پر جھک کر بیٹھنا کس قدر مشکل کام ہے! وہ مائیں جو یہ لباس محض اپنی آسانی کے لیے پہنا کر بھیجتی ہیں وہ ان تکلیفوں کو محسوس نہیں کرتیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے بچپن میں اس قسم کے لباس نہیں پہنے تھے۔ یہ لباس تو اسی زمانے کا تحفہ ہے۔ یہ بچیاں اس حلیے میں کیوں نظر آتی ہیں؟ اگر ان کی ماؤں سے پوچھا جائے تو جواب ملے گا کہ بازار میں یہی کچھ بک رہاہے تو ہم خریدلیتے ہیں۔ حالانکہ جتنے پیسوں میں ایک ایسا عریاں لباس ملتا ہے، اتنے ہی پیسوں میں کاٹن یا لالن کے چھوٹے چھوٹے پرنٹس والے کپڑے خرید کر شلوار قمیص، ٹراؤزر، فراکس بڑے آرام سے بنائے جاسکتے ہیں۔ یقین کیجیے ایک کے بجائے دو جوڑے بن جائیں گے جو آرام دہ ہوں گے، پسینہ جذب کرسکتے ہوں گے۔ اب بچے زمین پر بیٹھیں یا پارک میں جھولا جھولیں، انھیں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
یہ تو بچوں کے جسمانی آرام کا ذکر تھا۔ اب ذرا دیکھیں کہ جو پہناوے بچیوں کو آج کل پہنائے جارہے ہیں ان کے کتنے دور رس اثرات ہیں جس پر مائیں غور کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتیں۔ جب ایک چھوٹی سی بچی ننگے بازوؤں والی فراک اور نیکر پہن کر گھر سے نکلتی ہے، گڑیا سی لگتی ہے۔ دس روپے ہاتھ میں دبائے ’’چیز‘‘ لینے محلے کی دکان پر آتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ دکان پر کھڑے فالتو اور آوارہ افراد اور محلے کے ہی لڑکے، میڈیا کی دی ہوئی گندگی سے آلودہ ذہنوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ ان پھول سی معصوم بچیوں پر بری نظریں ڈالتے ہیں، زبردستی ان کے بازوؤں پر مذاقاً چٹکیاں لیتے ہیں۔
شام کے وقت جب محلے کے بچے کرکٹ کھیلنے گلی محلے میں جمع ہوتے ہیں، ان ہی کے درمیان یہ بچیاں اپنے معصومانہ کھیل، پہل دوج اور دوڑ بھاگ کے دوسرے کھیل کھیل رہی ہوتی ہیں۔ وقت سے پہلے ہی بڑے ہوجانے والے یہ چھوٹی عمروں کے لڑکے اشتہارات کی بولی بولتے ہیں، رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولتے اور آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو نازیبا اشارے کرتے ہیں۔ آخر کس نے کہا تھاکہ اپنی معصوم بچی کو ’’باربی ڈول‘‘ بناکر گلی میں کھیلنے بھیج دو؟؟
سب سے زیادہ گلہ مجھے ان والدین سے ہے جن کی بچیاں آٹھ سے تیرہ سال کی اسٹیج میں ہوتی ہیں۔ ماں باپ بہت بے خبر، بہت روشن خیال اور لبرل بن کر ان کو نامناسب لباسوں میں لیے سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں۔
آئے دن ہم معصوم جانوں کے ساتھ ہونے والے روح فرسا واقعات تواتر سے اخبارات میں پڑھ رہے ہیں۔ ان المناک داستانوں کے پس منظر میں جائیں تو آپ کو ایک طویل قطار بے حیائی کے بیج کاشت کرنے والوں کی نظر آئے گی۔ ان میں ماڈلز، اداکارائیں، فلمی و اشتہاری صنعت سے وابستہ افراد، نیٹ اور موبائل کی ایک کلک پر سب کچھ حاضر کردینے والی گلیمر ز دنیا اور بہت کچھ ملے گا۔ انسان کو بھیڑیا اور درندہ بنانے کی اتنی ساری فیکٹریاں لگی ہوں تو آپ اپنے دفاع سے اتنی غافل کیسے ہیں؟
کسی بھی نجی محفل میں معاشرے میں بڑھتی بے حیائی کا ذکر کر بیٹھیں تو ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ان نکات سے متفق اور بے حددل گرفتہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر کیا اس کا علاج محض ماتم اور سینہ کوبی ہے؟ اس بے حیائی کے فروغ میں کس کا کتنا حصہ جارہا ہے اس پر غور کرنا، اور اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کرنا… ان نکات پر دھیان دینے کو کوئی تیار نہیں۔
اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، ابھی تو آپ انھیں یہ تکلیف دہ اور واہیات لباس پہنا کر خوش ہوجاتی ہیں لیکن چند سال بعد جب وہ بڑی ہوجاتی ہیں اور ان پر معاشرتی اور مذہبی حدود کا اطلاق ہونے لگتا ہے۔ اب آپ ان پر پابندیاں لگانا شروع کرتی ہیں، انھیں آستین والے لباس، اسکارف اور عبا پہنانا چاہتی ہیں تو ایک تصادم پیدا ہوجاتا ہے۔ حیاء کا وہ بیج جو ابتدا میں ماردیا گیا تھا، اس میں پتے اور پھول لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سے بغاوت جنم لیتی ہے اور ہماری سماجی اقدار کہیں بہت دور کھڑی نظر آتی ہیں۔
ہمارے دین نے جو ثقافت اور سماجی اقدار ہمیں دی ہیں وہ ہیرا ہیں۔ ان کے سوا جتنے بھی لائف اسٹائل ہیں وہ کنکر ہیں، پتھر ہیں اور آگ ہیں۔ ہیرا مسترد کردینے کا مطلب باقی تین ممکنات کا انتخاب ہے۔
اس لیے اپنی پھول، پری جیسی بچی سے پیار کا حق ادا کیجیے۔ اسے وہ پیراہن دیجیے جو اس کی حفاظت کا ضامن ہو اور مستقبل کے معاشرے میں وہ ایک خود اعتماد اور باوقار خاتون ثابت ہو۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں