کہا جا تا ہے کہ علم طا قت ہے، اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں ۔اس کو اُلٹ کر دیکھے جو شخص بے علم اور بے خبر ہوتا ہے وہ اپنی حفا ظت تک نہیں کر پا تا ،بادِ مخا لف اسے سو کھے ہوئے پتے کی طرح اڑا لے جا تی ہے ،کٹی ہوئی پتنگ کی طرح۔جا نوروں کے لئے تو یہ وضع زندگی سمجھ میں آسکتی ہے لیکن اشرف المخلو قات کے لئے، جسے باری تعالیٰ نے اپنی نیابت اور اپنی خلا فت اپنی عبادت سے سر فراز فرما یا ہے ،یہ حیثیت سمجھ میں آنے والی نہیں ۔جو چیز انسان کو جا نور وں سے الگ اور ان سے اونچا کر تی ہے وہ عقل ہے ۔ عقل دوسری باتوں کے علاوہ اچھا ئی اوربُرائی ،خیر وشر میں امتیاز کر ناسکھا تی ہے،اورعقل میں طا قت علم سے آتی ہے ۔علم نہ ہو توعقل کے آئنہ میں زنگ لگ جا ئے ،کو ئی بھی شے صا ف نظر نہ آئے ،جو کچھ دکھائی دے اُلٹا سیدھا ،ٹیڑھا تر چھا دکھا ئی دے ۔تا ریخ بتاتی ہے کہ انسان نے جو کچھ تر قی کی ہے علم سے کی ہے ۔
انسان تواس وقت بھی انسان تھا ،اُس وقت بھی جیتا تھا،جب عِلم کو منتقل اور منتشر بلکہ محفوظ کر نے کے ذرائع بھی نہ تھے ۔نہ کا غذتھانہ قلم تھا،نہ کتا بیں تھیں۔ غور کیجئے ابتدا ء سے اب تک انسان نے جو تر قی کی ہے وہ اس کے جسم نے نہیں کی ،اس کے ذہن نے کی ہے ،اس کی عقل نے کی ہے اور ان دونوں نے یہ تر قی علم کی بدولت کی ہے ۔کسی ایک انسان کے لئے وہ خواہ کتنا ہی ذہین ہو یہ ممکن نہیں کہ اپنی محدود زندگی اور محدود زاویہ نظرسے حقیقت کے ہر گوشہ کو پا جا ئے ۔عقل کو ہم نے رہنما بنا لیا اور علم سے اسے پہچنواتے رہے ،لیکن ہماری رہبری کو تنہا عقل کا فی نہیں ہے ۔عقل خودکبھی کبھی دھوکہ کھاتی ہے اور دھوکہ دے بھی دیتی ہے ۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی غرض ،خوا ہش اور آرزو کی تابع فر مان بن جا تی ہے۔کسی ایسے ہی مر حلے میں پھنس کر شا عر نے فر یا د کی تھی ۔
اب کو ئی کس پہ اعتبار کر ے
عقل ہے آرزو کی حلقہ بگوش
اسلام نے تعلیم پر جتنی زیادہ تو جہ دی ہے دُنیا کے کسی دین یا مذہب میں اس کی مثال نظر نہیں آتی ۔لیکن اس تصور مو جو دہ مغربی نظام تعلیم سے بالکل مختلف ہے ۔پہلا تعلیم کو اعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا تا ہے جب کہ دوسرا اپنے طلب علموں کو اس کی مدد سے محض معا شی وما دّی جدّو جہد کے لئے تیار کرتا ہے ۔پہلا اشخاص کی زندگی کوبا مقصد، مہذب اور سلیقہ مند بنا تاہے جب کہ دوسرا اَفراد کے مجموعے کو محض کسی مخصوص قوم کے مخصوص مفا دات کے لئے تیار کرتا ہے ۔
اسلا می نظا م تعلیم توحید کے سر چشمے سے چڑ نے کی وجہ سے انسانوں کے سا منے انتہائی بلند اقدار و مقاصد رکھ کر ان کے اندر حق اور با طل کی تمیز اور اصل حقائق تک پہنچنے کی صلا حیت پیدا کرتا ہے ۔اور انھیں فطری انداز میں سب سے پہلے اپنے نفس پر پھر اس وسیع کا ئنا ت پر اور پھر ان دونوں کے اصل خالق و ما لک پرغور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔چنا نچہ قر آن کریم کی پہلی آیت کی صورت میں اسلام کا پہلا سبق ہی یہ ہے: ’’اقراء باسم ربک الّذی خلق٭خلق الانسان من علق ٭اقراء وربک الاکرم٭ الّذی علمّ با لقلم٭ علمّ الا نسان ما لم یعلم ٭‘‘
یہ تصور صحیح معنوں میں کسی شخص کو انجینئر ،ڈاکٹر، سائنس داں ،فلسفی یا کچھ اوربنا نے سے پہلے اسے اسکے پیدا کر نے والے کا ایسامخلص بندہ بنا تاہے جو اپنی فطرت وطبعیت اوراخلاق وکردار کے لحا ظ سے ایک طرف اپنے رب کا سچاوفا دار ہو تو دوسری طرف خدا کے بندوں کے لئے سر اپا خیر ثابت ہو ۔یہ تصور انہیں اس بات کی بھی تعلیم دیتا ہے کہ ایک شخص پراس دنیا میں بحیثیت انسان کیا کیا ذمہ ّداریاں عائد ہو تی ہیں اور اس کے حقوق واختیارات کیا ہیں ؟اس کے اپنے نفس،اس کے والدین، اس کے احباب، اس کی قوم، اس کے دین، اور اس کے رب کے اسپرکیا حقوق ہیں ؟
کافر کی یہ پہچان کہ آفا ق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
معلومات کی حد تک تو یہ بات ہر مسلمان جا نتا ہے کہ مسلما نوں کا مقصد ِحیات محض معا شی کیر یئر یا دو وقت کی روٹی نہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔وہ یہ بھی جا نتا ہے کہ مسلمانوں کے مستقبل کا سر اآخرت سے ملا ہواہے اور وہ اپنی آخرت کو تباہ کر کے اس ملک میں بحیثیت ایک ملت اپنے وجود کو با قی نہیں رکھ سکتا۔ ایک مسلمان کے لئے بظا ہر یہ باتیں بہت ہی سیدھی اورصاف ہیں لیکن عمل کی دُنیا میں اور تعلیمی اداروں کے سیکو لر ما حول میں پہنچ کر یہ انتہائی پیچیدہ مسائل کی شکل اختیا ر کر لیتی ہیں ،اس لئے کہ یہ سیکو لر ادارے ان کے لئے ایک ایسی خار دار جھاڑی ہیں جن کے درمیان سے انھیں گذر نا بھی ہے اور اپنے جیب ودامن کو بھی چاک ہونے سے محفوظ رکھنا ہے ۔یہ مسائل پیچیدہ ضرور ہیں لیکن جو طلبہ اپنے دین پر مکمل ایمان رکھتے ہوں اور اپنے تمام مشکلات ومسائل کو اسی کے دا ئرے میں حَل کرنا چاہتے ہوں ان کے لئے یہ مسا ئل مشکل ترین ہو نے کے باوجود لَا ینحل نہیں ہیں ۔اَصل سوال اخلا ص نیت اور مخلصا نہ سَعی و کوشش کا ہے ۔قا نون قدرت یہی ہے کہ ایک شخص وہی پاتا ہے جو وہ کرتا ہے اور وہی کا ٹتا ہے جو وہ بو تا ہے ۔قر آن کریم بھی مسلما نوں کواسی بات کی تذ کیر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حا لت اس وقت تک نہیں بد لتا جن تک کہ وہ خوداپنے آپ کونہ بَد لے ۔اپنی شنا خت باقی رکھنے کے لئے اپنی یونیور سٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے غیر اسلامی نظام کے نقصانات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں نیز مختلف میدان میں اپنا معاشی مستقبل یا آج کی زیادہ معروف اصطلاح میں اپنے کیر یئر کوتعمیر کریں ۔ارشاد نبوی ہے کہ :جوشخص حصول ِعلم کے لئے کو ئی مسافت طے کرتاہے ،اللہ تعا لیٰ اسکے لیے جنّت کی راہ آسان کردے گا اور فرشتے طلب علم کی خوشی کے لئے اپنے بازوبچھا تے ہیں اورعالم کے لئے آسمانوں اور زمین کے رہنے والے یہاں تک کہ مچھلیاں بھی مغفر ت کی دعا کرتی ہیں اورعالم کی فضیلت عا بدپرایسی ہے جیسے چو دھویں رات کے چاندکی فضیلت با قی سب تاروں پر۔
ترقیوں کی دوڑ میں زور اس کا چل گیا
بنا کے اپنا را ستہ جوبھیڑ سے نکل گیا