ہماری دادی!

سلمیٰ نسرین، آکولہ

گورا صاف شفاف رنگ، بڑی بڑی بھوری آنکھیں، کھڑی ناک، گلابی اور پتلے ہونٹ،گال پر ایک کالا ساتِل۔کبھی کبھی انہیں دیکھ کر ہم سوچا کرتے کہ جب بڑھاپے میں ان کے حُسن کا یہ حال ہے تو عالمِ شباب میں کیا رہا ہوگا۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے اپنا مضمون یاد آرہا ہے۔ گیارہویں جماعت میں میں نے ’’ہماری دادی‘‘ کے عنوان سے جو مزاحیہ مضمون لکھا تھا اس میں اپنی دادی کا یہی حلیہ بیان کیا تھا۔ لیکن صرف حلیہ ہی سچاتھا۔ باقی ہماری دادی (عظیم النساء) عام بوڑھیوں کی طرح نہ تھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب وہ مضمون شائع ہواتھا تو کئی بزرگ مجھ سے ناراض ہوگئے تھے اور میں دادیوں کے حلقے میں نالائق مشہور ہوگئی تھی۔رضیہ آپا (ناظمہ حلقہ خواتین)نے رسالہ پٹخ کر انتہائی غصے سے مجھے کہا ’’ یہ کیا لکھ مارا ہے ہماری امّا ں کے متعلق‘‘ گو میں نے انھیں سمجھانے میں اپنی ساری طاقت صرف کردی کہ وہ مضمون میری دادی پر نہیں بلکہ عمومی دادیوں پر لکھا گیا ہے ۔مگر ان کا ساراغصہ اسی بات پر تھا کہ جب مضمون کا موضوع وہ نہیں تھیں تو حلیہ ان کا کیوں بیان کیا گیا ہے۔ مجھے انہیں منانے میں پورے تین ماہ کا عرصہ لگ گیا تھا ۔ بالآخر وہ اس شرط پر راضی ہوئیں کہ پہلے ہماری امّاں پر ’’سچا‘‘ مضمون فوراً ہی لکھا جائے۔
اور وہ مضمون اشاعت کے لئے اسی ماہنامے میں بھیجا جائے جس میں وہ ’جھوٹا وبیہودہ‘ مضمون شائع ہوا تھا تاکہ قارئین انکی امّاں کے متعلق سچ جان لیں۔ جب میں نے انہیں اس مضمون کی پذیرائی کے بارے میں ملول انداز میں بتایا تو انہوں نے کہا۔۔۔۔
’’ اوہوں جانے دو۔ دراصل انھوں نے تمہارے مضمون کو ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں‘‘۔ اسوقت دادی کی بات تو میری سمجھ میں نہیں آئی تھی مگر میں یہ سوچ کر مطمئن ہوگئی تھی کہ میری دادی تو خوش ہیں، چاہے کسی کو کتناہی برا کیوں نہ لگا ہو۔
دادی بہت اعلیٰ ظرف تھیں۔ ہم نے کبھی انھیں کسی سے جھگڑا تودرکنار کسی کو تیز لہجے میںکچھ کہتے بھی نہیں سنا تھا۔ حالانکہ لوگوں نے انکی نرمی اور سادہ لوحی کاپورا پورا فائدہ اٹھایا تھا مگر وہ ہر بات سے صرف نظر کرتی رہتیں۔
دادی نے بچپن سے ہی بہت دکھ اٹھائے تھے۔ پیدا ہوتے ہی والدہ انتقال فرماگئیں۔ والد نے عقدِ ثانی کرلیا اور وہ نانی کی پناہ میں آگئیں ۔انتہائی کم عمری میں شادی ہوگئی۔ بچے ابھی چھوٹے ہی تھے کہ بیوہ ہوگئیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی تو یتیمی کا داغ لے کرہی پیدا ہوئی تھی۔ اک اک کرکے بچے بھی داغ مفارقت دے گئے۔ دادی کی چھ اولادوں میں سے پاپا اور بڑے پاپا ہی شادی کی عمر کو پہنچ سکے اور اب صرف پاپا بقیدِ حیات ہیں۔ اﷲ ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔آمین۔۔۔۔
کچھ لوگ خود کو دوسروں کی خدمت کے لئے ہی وقف کردیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک دادی بھی تھیں۔ دادا تین بھائی تھے۔ تینوں فیملیز ساتھ رہتی تھیں۔ دادی کی جیٹھانی دو چھوٹے چھوٹے بچّے چھوڑ کر انتقال کر گئیں۔ دیورانی بھی بیوہ ہو گئی اسطرح سارے گھر کی ذمہ داری دادی پر آگئی۔ جسے انھوں نے بہت خوش اسلوبی سے نبھایا۔دادی کی خدمتوں کا سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ حالتِ غربت میں انھوںنے بہت مشکل دن گذارے تھے۔ پھر بھی دوسروں کو دینے کے لئے ان کے پاس گویا خزانے تھے۔انہوں نے صرف دینا ہی سیکھا تھا۔
بڑے بڑے غم جھیلنے کے باوجود ہم نے کبھی انہیں غمگین نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ چہرے پر نرم سی مسکراہٹ سجائے رہتیں۔ پندرہ سولہ سال قبل بڑے پاپا کی ناگہانی موت سے جب سب حواس کھوبیٹھے تھے، دادی نے خو د کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد کو بھی سنبھالا تھا۔ میں اس وقت پہلی جماعت میں تھی مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ دادی ہی تھیں جوخود پر کسی طرح قابو رکھے سب کو چپ کراتے پانی پلاتے اور کھینچ کھینچ کر لاتے ہوئے بڑے پاپا کا آخری دیدار کروارہی تھیں۔ ایسی حالت میں، جبکہ میں نے اپنے باہمت پاپا کو بھی پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تھا، دادی کا صبرو ضبط قابلِ دیدتھا۔
حسنِ اخلاق کا مجسّم نمونہ تھیں۔ ہمدردی، رحمدلی، نرمی و شفقت ان کے بہترین اوصاف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جو ان سے ایک بار ملتا ان کا دیوانہ ہو جاتا۔ نیکیوں کی بے انتہاحریص تھیں اس بات کی پوری کوشش کرتیں کہ نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ چاہے وہ سلام ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو۔
انکی زبان ہمہ وقت اﷲ رب العزت کے ذکر سے تر رہتی ۔وہبہت عبادت گزار خاتون تھیں۔ تہجد سے چاشت تک ذکر و اذکار ان کا معمول تھا۔ اشراق اور چاشت کی نماز کبھی نہیں چھوڑتی تھیں۔اخیر وقت میں جب ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوئیں تو وہاں بھی اشاروں سے نماز ادا کرتی تھیں۔
تلاوتِ کلام پاک سے انہیں گہرا شغف تھا۔ دن بھر میں تقریباً تین چار گھنٹے تلاوت میں صرف کرتیں ۔ایک بار لبنیٰ سعید کی امی نے ان سے کہا ’’ آپ ناظرہ کے ساتھ ترجمہ بھی پڑھا کیجئے۔‘‘ اردو تو انہیں آتی نہیں تھی ،سو بس اسی دن سے ہماری ترجمہ سنانے کی ڈیوٹی لگادی۔ہر سال رمضان میں قرآن سننے کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔ انتقال کے وقت انکی عمر ۸۴ برس تھی مگر اپنے آخری رمضان تک پورے مہینے کے روزے رکھے اورہر سال کی طرح دس دن کا اعتکاف بھی کیا۔
دادی کی خواہش پر ایک طویل عرصے تک ہمارے گھر صفّہ کا ہفتہ واری اجتماع ہوتا رہا۔ حلقئہ خواتین کی ناظمہ رضیہ آپا ان سے خصوصی عقیدت و محبت رکھتی تھیں۔ دادو کو اپنی ’’امّاں ‘‘ کہتی تھیں۔ اور انکی بہت عزت کرتی تھیں۔ جہاں کہیں بھی اجتماع ہو دادو ضرور شرکت کرتیں۔
ساری زندگی پردے کی اس قدر پابند رہیں کہ کبھی بغیر برقع کے گھر سے باہر نہ نکلیں۔ گھر میں بھی سر ہمیشہ ڈھکا رہتا۔گو دُبلا پتلا کمزور سا وجود تھا، لوگ ان سے کہتے رہتے اب آپ کو برقع کی کیا ضروت ،مت پہنا کیجئے،مگر وہ کبھی راضی نہ ہوئیں۔
بہوئوں کے لئے بھی سراپا رحمت تھیں۔ انہیں ماں جیسا پیاردیا تھا اور بیٹیوں کی طرح ان سے سلوک کیاتھا۔انہیں دو بیٹوں سے کل تیرہ پوتے پوتیاں تھیں۔ چونکہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے اور دن کا بیشتر حصہ بڑے کمرے میں گذارتے تھے ۔اسلئے شور ہنگامہ، لڑائی جھگڑے اور مار پیٹ بھی بہت ہوتی تھی۔ سب کے جھگڑے نپٹانا،تصفیہ کرواناجیسے نیک کام دادی ہی انجام دیتی تھیں۔ بچوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت پیدا کرنا،کہانیاں سنانا، ان کی چھوٹی چھوٹی مشکلوں میں انکی مدد کرنا،صحیح رہنمائی و تدبیر بتانا، ان کے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دینا، دادی کے بہترین مشاغل تھے۔ گو وہ جھک کر چلتی تھیں مگر اسی حالت میں سارے کام انجام دیتی تھیں۔ بڑھاپے میں بھی اتنی مستعد رہتیں کہ لوگ عش عش کرتے ۔
دادو ہم سب بہن بھائیوں کی ایک اچھی رہبر اور دوست بھی تھیں۔ اسماء باجی دادو اور میں ہم تینوں کا ایک ہی کمرہ تھا۔ سب لوگ وہیں آکر ملتے ،دادی کو اپنی روداد سناتے پریشانیاں بتاتے اور دادو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ حل بھی بتاتیں۔ ہم سب بہن بھائی بلاجھجک ان سے ہر بات شیئر کرتے تھے۔
وہ بہت وسیع الذہن و قلب تھیں ۔انہوں نے جائز حدود میں پوتیوں کو ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی۔مگر پوتوں کے رات کے آنے جانے کے اوقات پر کڑی نظر رکھتی تھیں۔
ہماری بیماری میں سب سے قریب ترین شخصیت دادی ہی ہوتی تھیں۔ مسلسل تیمارداری کرتی رہتی تھیں ۔دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتیں۔
یادداشت ماشاء اﷲ اتنی اچھی تھی کہ ہمیں ہمارے بھولے ہوئے کام یاد دلاتی تھیں۔ہم سب بھائی بہنوں میں جسکو بھی امتحان کے زمانے میں تہجد میں اٹھنا ہوتا ،وہ دادو سے کہہ کر سوتا ۔دورانِ امتحان انکی دعائوں میں بھی شدت آجاتی۔
ہم دونوں بہنیں سارادن ایک دوسرے سے باتیں کرتی رہتی تھیں۔ اگر دورانِ گفتگو کسی کی غیبت ہونے لگے تو دادی فوراً ٹوک دیتیں اور کبھی غیر محسوس طریقے سے دوسری باتوں میں لگادیتیں۔بہت پیارے انداز میں نصیحتیں کرتیں۔ ہمارے ساتھ لطیف گفتگو بھی کرتی تھیں۔ ہم لوگ ان سے بہت بے تکلف تھے۔
اگرچہ آج دادو ہم سے جدا ہوچکی ہیںمگر ان کی کوئی بات بھلائے نہیں بھولتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی ہمیں روتا دیکھ کر آنسو پونچھتے ہوئے کہیں گی۔’’روتے نہیں بیٹا!غم کے وقت صبر کرنے والے بندے سے اﷲ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے‘‘۔
اﷲ تعالیٰ ان کی غلطیوں و گناہوںسے درگذر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔(آمین) ۔۔۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146