دنیا میں کم تعلیم یافتہ، ناسمجھ اور دین سے ناواقف مسلمانوں کی اکثریت مشرکانہ افعال و اعمال میں مبتلا ہے۔ اپنی سادہ لوحی یا کم فہمی کی بنا پر بدعات کو اصول دین اور اس کی جزئیات کو کل دین تصور کرتی ہے اور یہودیوں کی طرح اسلام کی معنوی تحریف کرکے بڑی خوشی سے اس نئے دین پر عمل پیرا ہے کہ بقول شخصے ’’ہندوؤں کے نزدیک جس طرح ہر کنکر شنکر ہے، مسلمانوں کے نزدیک ہر مزار پروردگار ہے۔‘‘ جبکہ قرآنی تعلیمات و احادیث شریف مزار پرستی و قبر پرستی کی صریح تردید کرتی ہیں۔
سورۃ الفاتحہ کی آیت ایاک نعبد و ایاک نستعین ’’اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ جسے ہم ہر رکعت میں پڑھتے ہیں، ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم مالکِ ارض و سما کی ہی پرستش کریں جو تنہاہمارا مالک، آقا، مدبرِ کائنات، حکمراں، خالق، مقتدر اعلیٰ اور عزیز و علیم ہے اور مددگار بھی ہر آن اسی کو سمجھیں۔ ایاک نستعین محض تکرارِ زبان کا مشغلہ نہیں بلکہ ذہن و دماغ میں بٹھا لینے والی حقیقت ہے۔
اور پھر اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔
’’اور ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ اور ہم اس کے دل میں اٹھنے والے خیالات تک سے واقف ہیں اور ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
آج مسلمانوں کے عقیدے میں قرآنی تعلیمات سے بے بہرہ ہونے کے سبب جو انحطاط پیدا ہوگیا ہے۔ ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ طبقہ تک ضعیف عقیدے کی گرفت سے بچا ہوا نہیں ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تک اپنی التجائیں پہنچانے کے لیے بزرگوں، ولیوں اور نیک نفوس کا وسیلہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا جج تک اپنا مقدمہ پہنچانے کے لیے وکیل و چپراسی کو وسیلہ بنانامقدمہ کی کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ آج کی معروف اصطلاح میں اسے ’’سیڑھی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تومعاملہ دو اور دو چار کی طرح صاف ہے کہ سیڑھی کسی چھت یا کسی دیوار سے لگائی جاتی ہے۔ کھلے میدان میں سیڑھی لگانے کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے۔ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کوئی مادی جسم تو رکھتا نہیں۔ اللہ نور السموات والارض، مالک حقیقی تو دونوں جہاں کا نور ہے۔ مزید یہ کہ جہاں فاصلہ ہوتا ہے سیڑھی لگانے کی ضرورت وہیں پڑتی ہے۔ جبکہ قرآن برملا اعلان کررہا ہے ونحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ اتنی واضح آیت اور صاف حکم کے ہوتے ہوئے مسلمان کس طرح کمزور عقیدوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ صرف قرآنی آیات کو طوطے مینا کی طرح رٹنے کا نتیجہ ہی تو ہے۔ ستم بالائے ستم اپنے عقیدے کی درستگی ثابت کرنے کے لیے یہ بے معنی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہمارے خاندان میں مدتوں سے یہ طریقہ رائج ہے۔ کیا ہمارے آباء و اجداد بے وقوف تھے؟ نبیؐ کریم بھی جب کفار و مشرکین کو توحید کی دعوت دیتے تو ان کی ہٹ دھرمی ایسا ہی جواب دینے پر اکساتی کہ بتوں کی پوجا تو ہمارے خاندان میں عرصۂ دراز سے کی جاتی رہی ہے۔ کیا ہمارے باپ دادا بے وقوف تھے؟ کیا ایسی بے معنی دلیل میزان کے پلڑے میں کچھ بھی وزن رکھ سکیں گی۔
نومسلم ڈاکٹر ہوف مین (جرمنی) نے اپنے قبولِ اسلام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کیتھولک گھرانے میں پیدائش کے باوجود عیسائی عقائدمیرے حلق سے نیچے نہیں اترتے تھے اور انسانوں کو گناہوں کے کفارہ کی خاطر حضرت عیسیٰؑ کا صلیب پر چڑھنے کا عقیدہ میرے فہم سے بالا تر تھا۔ قرآن کے مطالعہ سے یہ بات میرے دل کو متاثر کرگئی کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور دوسری بات یہ کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت نہیں۔ یہ دونوں وجوہات اسلام لانے کا محرک بنیں۔ مقام نصیحت ہے کہ ایک حق شناس غیر مسلم ان عقائد کی صداقت پر ایمان لے آیا اور ہم مسلم روشنیٔ توحید اپنے پاس رکھتے ہوئے وسیلے، رابطے، ذریعہ اور طفیل کے دھندلکوں میں کیوں کھوئے ہوئے ہیں۔ آخر یہ چراغ تلے اندھیرا کیوں؟
پورے قرآن اور حدیث کے ذخائر میں کہیں بھی وسیلہ، ذریعہ یا طفیل کا تذکرہ نہیں ہے۔ اگر ان ذرائع سے بخشش حاصل ہوسکتی تو نبیؐ کریم اس کے سب سے بڑے حقدار ہوتے۔
سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ، فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔
اور جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو انھیں بتا دیجیے کہ میں قریب ہی ہوں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جبکہ وہ مجھے پکاریں۔ مزید ارشاد ربانی ہے:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً۔ (اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔) جب حقیقت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی حکم صادر فرمارہا ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے، سمیع و بصیر ہے۔ سریع النظر ہے تو پھر حاجت برآری کے لیے غیر کی چوکھٹ پر جبیں سائی کیوں کی جائے یا دوسروں کو اپنا قائم مقام کیوں بنایا جائے۔
روزے دار ایک گھونٹ پانی حلق سے اسی لیے تو نہیں اتارتا کہ اسے یقین ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے یا زیر لب پڑھی جانے والی نمازمیں کمی بیشی نہیں کرتا کہ اسے یقین ہے:
لَا تُدْرِکُہٗ الْاَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الاَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔
’’تمہاری نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں، اور وہ تمہاری نگاہوں کو پالیتا ہے۔ وہ بڑا باریک بین اور باخبر ہے۔ ‘‘
درج بالا آیات سے ثابت ہوجاتا ہے۔ خدا اور بندے کے درمیان کوئی پردہ اور کوئی حجاب نہیں ہے۔ ایاک نستعین کہہ کر اللہ تعالیٰ سے براہ راست مدد مانگی جاسکتی ہے۔ اس کو پکارنے کے لیے دل کی آواز ہی کافی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید سے واقف ہے۔ تو آخر گوہر مقصود حاصل کرنے کے لیے اپنے جیسے لوگوں کا وسیلہ کیوں تلاش کیا جائے۔ مریض مسیحا سے اپنا درد جس رقت و دلسوزی سے بیان کرسکتا ہے وہ دوسروں سے کیونکر ممکن ہے۔
سورہ الہود میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ان ربی قریب مجیب یقینا میرا رب قریب ہے دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ تک درمیان میں پہنچانے کے لیے کوئی طبقہ ایسا نہیں جو ہماری بخشش کا سبب بن سکے۔ احادیث بھی اس کی تشریح کرتی ہیں کہ خدا بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور تم خدا ہی سے مانگو اگر چہ تمہاری جوتی کا تسمہ ہی ٹوٹ گیا ہے۔ اللہ کے رسول نے ایک مرتبہ اپنے اہل خانہ کو خبردار کیا اور اس تصور کو ختم کیا کہ نبی کے رشتہ دار ہونے کے سبب نبی ان کی سفارش کریں گے۔ آپ نے اپنی پیاری بیٹی فاطمہ سے کہا کہ اے فاطمہ بنت محمد تم دنیا میں جو کچھ مجھ سے چاہو مانگ لو مگر قیامت کے دن میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے محمد کی پھوپھی صفیہ تم اس دنیا میں مجھ سے جو کچھ چاہو طلب کرلو مگر جان لو کہ قیامت کے دن میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔
اللہ کے رسول کے ارشاد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان صرف اپنے ذاتی نیک اعمال اور اللہ کے فضل کی بنیاد پر ہی کامیاب ہوسکے گا اور وہاں کوئی کسی کی سفارش نہ کرے گا۔ الا یہ کہ رب العالمین اس کی اجازت دے۔
صحابہ کرامؓ کے اعمال وسیلہ و توسل سے نا آشنا تھے۔ تو پھر بعد کے ادوار میں وسیلہ، ذریعہ اور طفیل جیسی من گھڑت سفارشات کیوں رواج پا گئیں؟ یقینا یہ قرآنی آیات کی کھلم کھلا عملی نا فرمانی ہے۔ جس طرح دیمک بڑے بڑے قد آور دروازوں کو اور ایک ننھی سے چنگاری، گھر بھر کو راکھ کرڈالتے ہیں اسی طرح شرک کی ذرا سی آمیزش بھی ایمان کی کھیتی کو برباد کردیتی ہے اور شرک و بدعت کی تھوڑی سی آمیزش بھی نیکیوں کے ذخیرے کو ختم کردیتی ہے۔