آج کل مصروفیت کے دور میں مختلف کاموں کو وقت پر مکمل کرنا ایک ہنر ہے۔ خاتون خانہ کو دور اندیش اور منصوبہ ساز بن کر زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ بے ڈھنگے انداز سے کام لیے چلے جانا کوئی عقلمندی نہیں۔ اس طرح بعض اوقات اہم ترین کام رہ جاتے ہیں اور جن کاموں کو ملتوی کیا جاسکتا ہے وہ مکمل ہوجاتے ہیں۔
جن گھریلو خواتین کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں وہ یا تو مسلسل بغیر وقفہ کے دن بھر محنت اور کام کے باعث بیمار پڑجاتی ہیں یا ترجیحات کے صحیح تعین نہ کرنے اور اپنی بے تدبیری کی وجہ سے خاندانی جھگڑوں کا شکار رہتی ہیں۔ سب سے ضروری بات کام کی صحیح منصوبہ بندی اور ترجیحات کا تعین ہے۔
کچھ خواتین کو ملازمت کے مسائل، بچوں کی نگہداشت اور کچھ خواتین کو گھر کے بیمار افراد کی خدمت کی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے۔ اور کہیں پر مہمانوں اور ملنے جلنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور خاتون کا بہت سا وقت مہمان داری کی نذر ہوجاتا ہے۔
لہٰذا سب خواتین کے لیے منصوبہ بندی کا کوئی ایک متعین خاکہ نہیں دیا جاسکتا۔ ہر عورت اپنے حالات اور ذمہ داریوں کی مناسب پلاننگ جن چند اصولوں کی روشنی میں خود کرسکتی ہے وہ درج ذیل ہیں:
(۱) سب سے پہلے ضروری کاموں کی لسٹ تیار کرلی جائے۔ کیونکہ سب کاموں کی ترتیب محض یادداشت کی بنا پر ذہن میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ لکھ لیا جائے کہ آج کون کون سے کام کرنا ہیں؟ مثال کے طور پر گھر میں اسے درج ذیل کام کرنا ہیں:
(۱) کھانا پکانا، برتن دھونا (۲) کپڑے دھونا (۳) صفائی کرنا (۴) بچوں کو پڑھانا (۵) بازار یا کہیں اور ملنے کے لیے جانا (۵) مطالعہ+ نماز (۶) لکھنے پڑھنے کا کام (۷) کوئی ہنگامی کام (مہمان کی آمد وغیرہ) (۸) وقفہ آرام۔
اب ان سب کو ایک ترتیب دے کر شیڈول بنالیا جائے جس میں اوقات کا تعین اور مقررہ وقت درج ہو اور کچھ عرصہ درمیان میں آرام کے لیے ضرور رکھیں۔ اگر شیڈول کے مطابق آپ کام انجام نہ دے سکیں تو ان کا ادل بدل تو ہوسکتا مگر پھر بھی تمام کام ان شاء اللہ وقت پر مکمل ہوجائیں گے اور اگر کوئی کام رہ گیا تو اسے اگلے دن کی فہرست میں شامل کرلیں۔
یہ یاد رکھئے کہ ترتیب بہت ضروری ہے ورنہ اہم تر کام رہ جائیں گے۔ نیز اوقات کا تعین نہ کیا جائے تو بھی ایک کام کا وقت دوسرے کام میں صرف ہونے سے وہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ مثلاً اگر آپ نے شاپنگ کا وقت مقرر نہ کیا تو اس میں اتنا وقت صرف ہوسکتا ہے کہ آپ کا مطالعہ قرآن و حدیث یا لٹریچر وغیرہ رہ جائے گا جو کہ از حد ضروری ہے اسی طرح نماز لیٹ بلکہ قضاء ہوسکتی ہے۔
(۲): یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اس ماہ یا اس ہفتہ آپ کو کون کون سے اضافی اور اہم کام کرنا ہیں۔ مثلاً کسی اجتماع میں شرکت، کسی اور فنکشن یا شادی بیاہ کے لیے جانا اور تیاری نیز دعوت طعام وغیرہ۔
اب ان کاموں کو مختلف دنوں میں تقسیم کرلیں چند کام جو زیادہ وقت لیتے ہیں ان کو سب دنوں یا ہفتوں میں برابر بانٹ لیں تاکہ آپ پر زیادہ مصروفیت کا بار نہ پڑے۔
(۳): وقت کی تقسیم بہت سوچ و بچار سے ہونی چاہیے اور پھر اس پر عمل کرنے میں سستی نہیں دکھانی چاہیے کیونکہ سستی سے اگر ہم نے شیڈول تبدیل کردیا تو اس کا اثر سارے معمولات پر پڑے گا۔ وقت ضائع کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
کامیاب لوگوں کے حالات زندگی پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے تمام کاموں کو ایک منظم انداز سے مکمل کرنے کی پلاننگ کی ہوتی تھی اور وہ دن کا کوئی لمحہ ضائع نہ جانے دیتے تھے۔
حکیم سعیدؓ فرماتے تھے ’’میں چاہتا ہوں کہ میری شیروانی کے بٹن بھی تھوڑے ہوں تاکہ ان کو کھولنے اور بند کرنے میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔‘‘
وہ تسمہ والے جوتے بھی اسی لیے نہیں پہنتے تھے کہ ان میں کھولنے اور باندھنے میں وقت صرف ہوتا ہے۔ کسی دانشور نے درست کہا ہے کہ ’’اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو زندگی کا کوئی لمحہ بے کار مت ضائع کرو۔‘